All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

پاکستان میں ’فروٹ کا بائیکاٹ‘ : با اثر یا بے اثر؟

بات سوشل میڈیا پر چند لوگوں کی اپیل سے شروع ہوئی، پھر اس نے رفتار پکڑی تو ملک بھر کے قومی ٹی وی چینلوں تک آئی اور اب ملک کے تمام بڑے شہروں کے گلی کوچوں اور بازاروں تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں جمعے کے روز سے تین دن کے لیے پھل فروشوں کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ فیس بک سے حرکت پکڑنے والی اس ’فروٹ بائیکاٹ‘ مہم میں حصہ لینے والے لوگ رمضان کے مہینے میں پھلوں کی بڑھتی قیمتوں کی خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
لاہور میں گرمی کی لہر عروج پر ہے اور اسے کے ساتھ پھلوں سے بنے مشروبات کی مانگ بھی۔ رمضان میں گرمی کی شدت کے باعث پھلوں کی خرید و فروخت کا عمل عموماٌ نمازِ عصر سے ذرا قبل شروع ہوتا ہے مگر ’فروٹ بائیکاٹ‘ کے دوسرے روز پھل فروشوں کے پاس زیادہ بھیڑ نظر نہیں آ رہی۔

شکیل احمد لاہور کے علاقے مغلپورہ کے ایک بازار میں آم بیچتے ہیں۔ بائیکاٹ کے آغاز سے لے کر دو دن سے ان کے پاس گاہک بہت کم آ رہے ہیں حالانکہ اب وہ آم ایک سو تیس روپے کلو بیچ رہے ہیں۔ رمضان کے آغاز کے دو دنوں میں یہی آم وہ دو سو روپے تک بھی بیچ چکے ہیں۔ بی بی سی بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ عصر کا وقت خرید و فروخت کے عروج کا وقت ہوتا ہے مگر وہ فارغ بیٹھے ہیں۔ ’آپ یہ دیکھ لیں کہ بائیکاٹ سے قبل میں ایک دن میں بیس ہزار روپے کا مال بیچ لیتا تھا مگر کل صرف آٹھ ہزار کمائی ہوئی اور آج بھی کام بہت ٹھنڈا ہے۔‘

تو کیا یہ کمی بائیکاٹ کی وجہ سے آئی ہے؟ شکیل احمد کے خیال میں ایسا ہی ہے۔ ’فرق تو پڑا ہے مگر اللہ مالک ہے۔ میں اسی لیے زیادہ مال لے کر نہیں آیا ورنہ خراب ہو جاتا ہے۔‘ اسی بازار میں محمد ارشد کی پھلوں کی ریڑھی ہے۔ ان کا بھی کہنا ہے کہ کاروبار اچھا نہیں ہے۔ ’بہت کم گاہک ہیں ان دنوں میں کیونکہ ریٹ بہت زیادہ تھا۔‘ تاہم علی رضا خربوزہ بیچتے ہیں اور ان کا کہنا ہے ان کو بائیکاٹ سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ ’میری خربوزے کی تین ریڑھیاں لگتی ہیں اور ہر روز شام کو افطاری کے وقت تک اللہ کا شکر ہے چالیس ہزار تک کا مال بیچ کر گھر چلے جاتے ہیں۔‘ تاہم اس وقت سنیچر کے روز دن کے چار بج چکے تھے اور ان کی ریڑھی پر کوئی گاہک دکھائی نہیں دے رہا تھا جبکہ ریڑھی خربوزوں سے لدی تھی۔

ایک اور صارف توقیر آم خریدنے آئے ہیں مگر خریدا نہیں کیونکہ مہنگا ہے۔ ’یہ ایک سو تیس کا دے رہے ہیں اور یہ ریٹ زیادہ ہے۔‘ تو کیا وہ نہیں خریدیں گے؟ ’خریدوں کا تو سہی مگر کہیں اور سے خرید لوں گا۔‘ ان کو ملک بھر میں جاری سوشل میڈیا پر کیے جانے والے بائیکاٹ کا علم نہیں اور اگر ہوتا بھی تو ان کا کہنا ہے وہ پھر بھی پھل خریدتے، ’کیونکہ ہمیں تو کھانا ہے۔ ہم تھوڑی بارگیننگ کر لیں گے، ایک دو جگہ گھوم لیں گے، پر اب پھل کھانا تو نہیں چھوڑ سکتے۔‘

نعیم عباس بھی اپنے گھر والوں کے لیے پھل خرید رہے تھے اور انھیں بھی بائیکاٹ کے بارے میں علم نہیں ہے۔ تاہم ان کی بھی شکایت ہے کہ رمضان کے آتے ہی فروٹ مہنگے ہو جاتے ہیں۔ ’تو مہنگا بھی خریدتے ہیں کیونکہ کیا کریں اب کھانا تو ہے نا۔‘ تو سوال یہ ہے کہ کیا اگر تین روز کے بائیکاٹ کا مقصد پھل فروشوں کو سبق سکھانا تھا تو اس میں کامیابی ہو گی؟ کیا انھوں نے سبق سیکھا ہے یا تین دن کی بعد پھر سے قیمتیں بڑھ سکتی ہیں؟ سعید احمد جو خود آم بیچتے ہیں کہتے ہیں کہ صرف پھل فروشوں کا بائیکاٹ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ اکیلے قیمتوں کا تعین نہیں کرتے۔ ان کا دعوٰی ہے کہ منڈی جہاں سے وہ مال خریدتے ہیں وہاں سے ان کو مہنگا بیچا جاتا ہے۔

’ہمارا منافع تو محض دس روپے تک ہوتا ہے۔ اس میں ہم نے سارا دن یہاں دہاڑی بھی کرنی ہے، شاپنگ بیگ کی قیمت بھی نکالنی ہے اور پھر خراب ہونے والے فروٹ کا نقصان بھی برداشت کرنا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ وہ مانتے ہیں کہ قیمتیں رمضان میں خصوصاٌ زیادہ ہو جاتی ہیں اور وہ خود بائیکاٹ کے حق میں ہیں مگر پھر بائیکاٹ منڈی میں بیٹھے ان آڑھتیوں کا بھی کیا جانا چاہیے جو مال مہنگا کرتے ہیں۔ ’جب بازار میں قیمتیں کم ہوتی ہیں تو آڑھتی مال روک لیتا ہے اور پھر جب دوبارہ اوپر جاتی ہیں تو مال دوبارہ لے آتا ہے اس طرح قیمتیں تو پھر بھی زیادہ ہی رہیں گیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اگر آڑھتیوں کا بائیکاٹ کیا جائے تو وہ بھی ساتھ دینے کو تیار ہیں مگر ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ مال اس کم از کم قیمت تک جس پر وہ منڈی سے خریدتے ہیں۔ انھوں نے آم بائیکاٹ شروع ہونے سے ایک دو دن پہلے کا خریدا ہوا ہے جو اب تیار ہو چکا ہے اور ان کے پاس اسے بیچنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں مگر وہ پھر بھی ایک سو تیس روپے کلو سے کم پر بیچنے کو تیار نہیں۔ ’ہم بھی غریب لوگ ہیں، اس سے کم کی تو ہماری خرید بھی نہیں۔‘ اور محمد طیب ان سے ایک سو تیس روپے کلو آم خرید چکے ہیں۔ ان کے خیال میں بائیکاٹ اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔

’یہ تو حکومت کا کام ہے کہ دیکھے کہ منڈی میں پھل کتنے میں بِک رہا ہے اور پھر باہر بازار میں کتنے کا بِکتا ہے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ قیمتیں یکساں رہیں۔‘ سیعد احمد کے مطابق اب منڈی میں مال نہیں ہے کیونکہ آڑھتی بائیکاٹ ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں اور جیسے ہی وہ ختم ہو گا، پھل شاید پھر اسی قیمت میں بکنا شروع ہو جائے گا۔

عمر دراز ننگیانہ
بی بی سی اردو، لاہور
 

Post a Comment

0 Comments