All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

مرحبا رجب طیب اردوان

ترکی کے صدر جناب رجب طیب اردوان عموماً اپنی لڑائیاں کھلے عام اور جم کر
لڑنے کے قائل ہیں اور ایسا کرتے وقت وہ کسی بھی قسم کی سفارتی آڑ کے پیچھے چھپنے میں یقین نہیں رکھتے۔ گزشتہ مارچ میں کئی یورپی ممالک بشمول جرمنی اور ہالینڈ نے ترک نژاد سیاسی اجتماعات پر مختلف بہانوں سے پابندی عائد کی تا کہ ان ممالک میں دہری شہریت والے ترک آئینی اصلاحات کے لئے جاری اردوان حمایتی لہر کو روکا جا سکے۔ ان معاندانہ اقدامات کے جواب میں ترک صدر نے یورپ کو خوب لتاڑا۔ انہوں نے جرمن حکومت کی جانب سے ترک جرمن باشندوں پر عائد کی جانے والی قدغنوں کو ’’نازی دور‘‘کے تجربات سے تشبیہ دی۔

اسی طرح جب ہالینڈ کی حکومت نے تمام سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ترک وزیر خارجہ مولیت چاوُش اوغلو کے ہوائی جہاز کا لینڈنگ پرمٹ آخر وقت پر ردّ کرتے ہوئے ان کوہوائی اڈے پر اترے بغیر واپس جانے پر مجبور کر دیا تو اردوان نے ڈچ حکومت کو ’’فاشسٹ‘‘ قرار دیا۔ اردوان نے اپنے ملک کے قریب ترین حلیف امریکہ کو بھی کئی بار کرد اور داعش سے وابستہ دہشت گردوں کی امداد کرنے پر کھلے عام تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کئی مواقع پر امریکیوں پر گزشتہ سال کی ناکام فوجی بغاوت کے ذمہ داروں کی بالواسطہ مدد کرنے کا بھی الزام لگایا۔ گزشتہ مہینےآئینی اصلاحات کے ریفرنڈم میں کامیابی کے ترک صدر کے رویےّ میں معنی خیز تبدیلی آئی ہے۔ وہ ملک کی سیاست اور سفارتی اقدار میں تبدیلی کے لئےکوشاں نظر آتے ہیں۔ کامیابی کے بعد ترک صدر نے اپنا پہلا بیرونی دورہ بھارت کا کیا۔ 
اس دورے میں وہ ایک نئے اعتماد کے ساتھ ملکی اکانومی کو مضبوط کرنے کیلئے اقتصادی اتحاد کیلئے کوشاں نظر آئے۔ دورے کے دوران جناب اردوان نے اپنے سیاسی داؤ بڑی مشاقی سے کھیلے اور سب کو کسی نہ کسی سطح پر خوش اور مطمئن رکھنے میں کامیاب ہو گئے۔ اپنی بھارت آمد سے دو دن قبل انہوں نےایک انٹرویو میں بھارتی ہٹ دھرمی کو چیلنج کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے کثیر جہتی مذاکرات کا مطالبہ کردیا۔ ان کے اس بیان سے بھارت میں کافی کھلبلی مچ گئی مگر چونکہ ان کے انٹرویو میں بھارت کے عالمی اور نیوکلیئر عزائم کے حق میں بھی کافی کچھ تھا اس لئےحکومتِ ہند نے عوامی سطح پر کسی قسم کی محاذ آرائی یا بیان بازی سے گریز کیا۔

صدر اردوان کے مسئلہ کشمیر کو کثیرالجہت مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے مطالبے کو مقبوضہ جموں کشمیر میں فوری پذیرائی ملی کیونکہ وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ بھارت پچھلی سات دہائیوں سے باہمی مذاکرات کی آڑ میں کشمیریوں، پاکستان اور عالمی برادری کو ٹرخا رہا ہے تا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اس کو آسانی سے دفن کیا جاسکے۔ تحریکِ آزادئ کشمیر کے نامور رہنما میرواعظ عمر فاروق نے جناب اردوان کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ’’ترک صدر پاک بھارت تعلقات میں مسئلہ کشمیر کی مرکزی نوعیت سے بخوبی واقف ہیں اور ترکی ہمیشہ کشمیریوں کے احساسات کو سمجھتے ہوئے اسلامی سربراہ کانفرنس میں ہمارے حق خود ارادیت کے مطالبے کا معاون رہا ہے‘‘۔ 

حکومت پاکستان کے خارجہ امور کے صلاح کار جناب سرتاج عزیز نے بھی ترک صدر کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے ہندوستان کے دو طرفہ مذاکرات کے الاپ کو ’’ناقابل اعتبار‘‘ قرار دیا۔ ترک صدر نے بھارت کے نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کے دیرینہ مطالبے کوسپورٹ کرتے ہوئے اس کو پاکستان کی ممبر شپ کے ساتھ نتھی کرتے ہو ئے کہا کہ یہ بھارت اور پاکستان دونوں کا حق ہے کہ وہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی ممبرشپ کی خواہش کریں۔ ماضی میں ترکی نے جو کہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا ایک اہم رکن ہے نے بھارت کی کوششوں کو ناکام کرنے میں کلیدی رول ادا کیا تھا۔ بھارت ایک طرف تو اپنی ممبرشپ کیلئے سرتوڑ کوششیں کرتا آیا ہے مگر دوسری طرف وہ پاکستانی کوششوں کو سبوتاژ بھی کرتا آیا ہے۔

 اردوان نے کھلے عام بھارت کو یہ صلاح دی کہ وہ پاکستان کے خلاف یہ معاندانہ روش ترک کرے۔ انہوں نے کہا:’’میں سمجھتا ہوں کہ بھارت کو ایسی روش سے احتراز کرنا چاہئے‘‘۔ ترک صدر نے مسئلہ کشمیر پر او آئی سی کے رول کا دفاع کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل میں اصلاحات کا بھی مطالبہ کر دیا۔ بھارت کشمیر کے او آئی سی کے کردار کی شدت سے مخالفت کرتا ہے لیکن سلامتی کونسل میں اصلاحات کی مانگ کرنے والے ممالک میں سرفہرست ہے تا کہ وہ عالمی سطح پر اپنے اثرورسوخ کو بڑھاوا دے کر اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کو آسان بنا سکے۔

صدر اردوان نے نئی دہلی کی مشہور یونیورسٹی جامعہ ملّیہ اسلامیہ میں اپنے خطاب کے دوران بھارت اور ترکی کے تاریخی اور گہرے روابط کا ذکر کرتے ہوئے مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان اشتراک اور تعاون کیلئے بے پناہ وسعتوں کی موجودگی کا ذکر کیا۔ انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ دونوں ممالک بدلتے حالات کی وجہ سے ایک دوسرے کے قریب آ گئے ہیں ۔ انہوں نے موجودہ ورلڈ آڈر کو غیرمنصفانہ قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ہدف تنقید بنایا۔ جناب اردوان نے کشمیر اور نیوکلیئر سپلائرز گروپ کے معاملات میں نہ صرف یہ کہ مکمل طور پر پاکستانی مؤقف کی تائید کی بلکہ ذاتی طور پر وزیراعظم جناب نواز شریف کی کھل کر تعریفیں کی اور انہیں امن کا داعی قرار دیا۔ ’’میں نے اپنے دوست اور وزیراعظم پاکستان جناب نوازشریف سے ان معاملات پر سیر حاصل گفتگو کی ہے اور میں جانتا ہوں کہ وہ اچھی نیت کے حامل شخص ہیں۔
میں نے ذاتی طور پر ان سے سنا ہے کہ وہ اس مسئلے کو جامع طورپر حل کرنے کے خواہاں ہیں اور اسمیں ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں‘‘۔ جناب اردوان کی جانب سے اس طرح کھل کر پذیرائی یقیناً نواز شریف صاحب کیلئے نفسیاتی طور پر طمانیت کا باعث ہو گی خاص کر ایک ایسے وقت میں جب چند دن پہلے ہی ڈان لیکس کے معاملے میں ان کو اس وقت خاصی سبکی اٹھانی پڑی جب ان کی حاکمیت کو کھلے عام چیلنج کرتے ہوئے اس معاملے میں جاری سرکاری نوٹیفکیشن کو نامکمل گردان کر مسترد کر دیا گیا۔ ترکی کے ایک اہم انگریزی روزنامے ’’صباح‘‘ کے مطابق صدر کی بھارت یاترا سے ’’ترکی کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں ارتعاش پیدا ہو گیا‘‘ کیونکہ وہاں کی کنسٹرکشن انڈسٹری کو بھارت سے بڑابزنس ملنے کی امید بندھ گئی۔

پرامیدی کے اس ماحول کی وجہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کا یہ بیان بنا جس میں انہوں نے ترک کنسٹرکشن کمپنیوں کے ساتھ ملکر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا تاکہ بھارتی حکومت کے 2022 عیسوی تک پچاس ملین گھروں کی تعمیر کا طے شدہ منصوبہ پایۂ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔ صدراردوان ملک میں مزید اقتصادی ترقی کیلئے ازحد کوشاں نظر آرہے ہیں کیونکہ ان کی نگاہیں 2019 کے صدارتی انتخابات پر جمی ہوئیں ہیں۔ اپنے ملک کے اقتصادی اہداف کیلئے بھارت کے ساتھ ان کا اشتراک معاون اور نفع بخش ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے دورے کے اختتام پر جاری اعلامیہ میں دونوں ممالک نے 2020 تک باہمی تجارتی حجم کو دس بلین تک لے جانے کا اعادہ کیا۔ مشترکہ اعلامیے میں دونوں ممالک نے دہشت گردی کے بارے میں ’’دہرے معیار‘‘ کی مذمت کی جو کہ کافی عجیب و غریب دکھائی دیا کیوں کہ دونوں ممالک کی اس حوالے سے فکر میں یکسراختلاف ہے۔ دونوں ملک دہشت گردی کی تعریف اور تشریح کے حوالے سے مختلف الخیال ہیں۔

مرتضیٰ شبلی


Post a Comment

0 Comments