All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

کیا کشمیر انڈیا کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے؟

انڈیا کا بدترین عدم استحکام کا شکار علاقہ اس کے زیر انتظام کشمیر جو ایک
تاریک گھاٹی کے دھانے پر کھڑا ہے اور جسے تجزیہ کار ایک اور 'پرتشدد موسم گرما' کا آغاز قرار دے رہے ہیں وہاں پھر تباہی کی پیش گوئی کرتی سرخیاں 'کیا کشیمر انڈیا کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے' نظر آنے لگی ہیں۔ مسلم اکثریتی والا یہ خطہ گذشتہ موسم گرما میں بدترین تشدد کا شکار رہا۔ نوجوان عسکریت پسند برہان الدین وانی کی گذشتہ برس جولائی میں ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کا سلسلہ چار ماہ پوری شدت سے جاری رہا اور ان مظاہروں میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے طاقت کے بھرپور استعمال سے سو سے زیادہ افراد کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ 

اس سال بھی حالات میں کوئی بہتری نظر نہیں آ رہی۔ اس ماہ سری نگر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات تشدد کا شکار ہو گئے اور ووٹ ڈالنے کی شرح انتہائی کم رہی۔ جلتی ہوئی پر تیل کا کام سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی اُن دل د ہلا دینے والی ویڈیوز نے کیا جس میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو نوجوان پر تشدد اور ان کی تذلیل کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ گلی کوچوں میں اب طلبا اور طالبات کی طرف سے شدید احتجاج کیا جانے لگا ہے اور اس احتجاج میں پہلی مرتبہ سکولوں کی بچیاں بھی شریک ہیں۔ سکولوں کی بچیوں کا سکیورٹی اہلکاروں کی گاڑیوں پر پتھراؤ کرنے اور نعرے لگانے کے منظر پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی جو بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ ایک غیر قدرتی اتحاد میں شامل ہیں گذشتہ پیر کو مرکزی حکومت کو مفاہمتی رویہ اختیار کرتے ہوئے مذاکراتی عمل شروع کرنے پر رضامند کرنے کے لیے دہلی گئیں۔
اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ان پر یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ علیحدگی پسندوں اور دیگر مشتعل عناصر کو مذاکرات کی دعوت نہیں دے سکتے اور خاص طور پر جب شدید تشدد اور عسکریت پسندوں کے حملوں کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آ رہا ہو۔ سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے سربراہ فاروق عبداللہ نے انڈیا کو خبردار کیا ہے کہ کشمیر ان کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔ جو کچھ فاروق عبداللہ نے کہا ہے اس پر کوئی عذر پیش نہیں کیا جا سکتا اور حکومت کو اس معاملے کے تمام فریقین بشمول پاکستان، عسکریت پسند تنظیموں، قومی اور علاقائی سیاسی جماعتوں، کشمیر میں اقلیتی ہندوؤں سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے اور فوجی حل کے بجائے کسی سیاسی راستے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

پانچ لاکھ سے زیادہ سکیورٹی اور فوجی اہلکاروں کی موجودگی میں کشمیر کا انڈیا کے ہاتھوں سے نکل جانا بعید از قیاس ہے۔ انڈیا کے معروف کالم نگار شیکر گپتا کا کہنا ہے کہ کشمیر کی جغرافیائی سرحدیں محفوظ ہیں لیکن انڈیا نفسیاتی اور ذہنی لحاظ سے کشمیر کھو رہا ہے۔ سری نگر میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں صرف سات فیصد لوگوں کا ووٹ ڈالنا اس امر کا آئینہ دار ہے کہ کشمیر میں انڈیا کی آہنی گرفت برقرار ہے لیکن لوگ ان کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں۔ لہٰذا کشمیر میں جو تبدیلی ہے وہ انڈیا کے لیے باعث تشویش ہے۔ یہاں تک کہ اعلیٰ فوجی حکام بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ حالت انتہائی سنگین اور نازک ہے۔
مقامی نوجوان جو شدید احساس محرومی کا شکار ہیں اور کسی حد تک بے پرواہ بھی وہ اب انڈیا کے خلاف علیحدگی کی تحریک کی قیادت کر رہے ہیں۔ کشمیر میں کُل آبادی کا 30 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی اکثریت شدید غم و غصے اور ابہام کا شکار ہیں۔

بڈگام کے 19 سالہ رہائشی اعجاز نے مجھے بتایا کہ ان کے نسل کے نوجوان بھارتی جبر اور تشدد سے شدید مایوس ہیں اور انھیں موت کا خوف نہیں رہا۔ لیکن جب میں انھیں ایک طرف لے گیا اور ان سے پوچھا کہ ان کا زندگی میں کیا کرنے کا ارادہ ہے تو انھوں نے کہا وہ سرکاری افسر بن کر کشمیر کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ نیشنل کانفرنس کے رہنما جنید عظیم مٹو نے کہا کہ 'یہ کہنا غلط ہے کہ کشمیر کا نوجوان بے خوف ہو گیا ہے۔ وہ صرف محرومی اور تذلیل کے احساس سے دوچار ہے۔ جب یہ احساس بڑھتا ہے تو خوف ختم ہو جاتا ہے اور وہ نڈر ہو جاتا ہے۔ اور یہ غیر دانشمندانہ رویہ ہے۔' دوئم یہ کہ عسکریت پسندوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور متومل خاندانوں سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

برہان الدین وانی گذشتہ سال ہلاک ہونے والے نوجوان عکسریت پسند کا تعلق ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور متومل خاندان سے تھا۔ ان کے والد ایک سرکاری سکول میں استاد ہیں۔ وانی کے چھوٹے بھائی خالد جو 2013 میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہوئِے وہ پولیٹکل سائنس کے طالب علم تھے۔ وانی کی جگہ علیحدگی پسند مسلح گروہ کے سربراہ بننے والے ذاکر رشید بھٹ نے شمالی بھارت کی ریاست چھتیس گڑھ سے انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے۔ سوئم یہ کہ دو سال پرانا حکمران اتحاد اپنے انتخابی نعرے اور وعدے پورے کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ایک ایسا اتحاد جو ایک علاقائی جماعت جو پرامن علیحدگی کی علمبردار رہی ہے اور ایک قومی اور انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل جماعت پر مشتمل ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ دونوں بظاہر متصادم نظریات کے حامل ہیں اور وہ ایک ایسے خطے میں مشترکہ راستہ تلاش کرنے کی کوشش میں ہیں جو تنازع اور جھگڑے کا شکار ہے۔

چہارم کشمیر کے لیے مرکزی حکومت کے پیغام کا الٹا اثر ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر حال ہی میں جب وزیر اعظم نریندر مودی نے کشمیری نوجوانوں کو دہشت گردی اور سیاحت میں سے ایک کا انتخاب کرنے کا پیغام دیا تھا تو کشمیریوں کی اکثریت سے مودی کے اس بیان کو کشمیریوں کی ایک طویل جدوجہد کے مذاق اڑانے کے مترادف قرار دیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے جنرل سیکریٹری رام مدہاو کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا کہ اگر حکومت کشمیر کے لوگوں کے خلاف ہوتی تو وہ وادی کے لوگوں کو گلا گھونٹ سکتی تھی۔ اس بیان پر بہت سے مقامی لوگ نے کہا تھا کہ یہ حکومت کے غرور اور تکبر کی عکاسی کرتا ہے۔

ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے نفرت انگیز بیانات اور گاؤ رکشک گروپوں کی طرف سے مسلمانوں پر بھارت کے اندر ہونے والے حملوں سے کشمیر کے لوگ مزید بدزن اور بداعتمادی کا شکار ہوں گے۔ ایک سرکردہ رہنما نے اس صورت حال پر مجھ سے کہا کہ خطرہ اس بات کا ہے کہ اعتدال پسند مسلمان بھی شدت پسندی کی طرف مائل ہوں گے اور ان میں احساس محرومی بڑھے گا۔ سکیورٹی فورسز کی سوچ ذرا مختلف ہے اور وہ اصل میں نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی سے پریشان ہیں۔ کشمیر میں ایک اعلیٰ ترین فوجی اہلکار لیفٹیننٹ جنرل جے ایس سدھو نے ایک اخبار کو بتایا کہ عوام میں مسلح علیحدگی پسندوں کے لیے بڑھتی ہوئی حمایت، ان کی مقبولیت اور عزت افزائی اور انتہا پسندی تشویش کا باعث ہیں۔

ایک اور فوجی اہلکار نے مجھے بتایا کہ پتھراؤ کرتے نوجوان سے زیادہ تشویش کی بات بڑھتی ہوئی انتہا پسندی ہے۔ انھوں نے کہا کہ کشمیر میں گذشتہ دس برس میں تین ہزار کے قریب وہابی فرقے کی مساجد بنی ہیں۔ اکثر کشمیریوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو مذہبی انتہا پسندی سے زیادہ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی سیاسی انتہا پسندی کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں خدشات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں ووٹ ڈالے جانے کی کم ترین شرح نے قومی سیاسی جماعتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ نیشنل پارٹی کے رہنما مٹو کا کہنا ہے کہ اگر قومی سیاسی جماعتیں اپنا اثر کھو دیتی ہیں اور عوام انھیں ووٹ دینے سے انکار کر دیتے ہیں تو قدرتی طور پر خلا غیر منظم گروہ پُر کریں گے۔ بھارتی خفیہ ادارے را کے سابق سربراہ امر جیت سنگھ دولت نے اپنی یاداشتوں میں لکھا ہے کہ کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی اور کشمیر بالکل بھی نہیں ہے۔ اور اس وقت جو حقیقت ہے وہ ہے نوجوان میں غصہ اور بھارت کے خلاف لوگوں کی بغاوت۔

سوتک بسواس
بی بی سی نیوز

Post a Comment

0 Comments