All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

گاڈ فادر

جج صاحب نے کہا تھا کہ پاناما کیس میں اُن کا فیصلہ صدیوں تک یاد رکھا جائے
گا۔ شاید اسی جملے کی کشش مجھے 20 اپریل کو کھینچ کر سپریم کورٹ لے گئی۔ فیصلہ دو بجے سنایا جانا تھا لیکن نسیم زہرہ نے ایک کاغذ پر چند الفاظ لکھے اور متوقع فیصلے کی نشاندہی کر دی۔ یہ فیصلہ پڑھ کر میرے جسم میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔ میں اور عامر متین ایک ہی کرسی پر پھنس کر بیٹھے ہوئے تھے اور ایک وکیل سرگوشی میں اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ یہ صحافی کرسی کو بانٹ سکتے ہیں تو سیاستدان کیوں نہیں؟ عامر متین میرے سمیت دیگر صحافیوں کو ذہنی طور پر تیار کر رہے تھے کہ زیادہ امیدیں نہ باندھو ہو سکتا ہے کہ ایسا فیصلہ آ جائے جس پر مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف دونوں بھنگڑے ڈالنے شروع کر دیں۔ اس دوران سپریم کورٹ کے گھڑیالوں نے دو بجا دیئے اور پانچ جج فیصلہ سنانے کے لئے تشریف لے آئے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلہ سنانے سے قبل نصیحت کی کہ کوئی رائے قائم کرنے سے قبل اس فیصلے کو غور سے پڑھ لیجئے گا۔ جب انہوں نے فیصلہ سنانا شروع کیا تو مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے کچھ لیڈر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ دونوں اطراف ایک دوسرے کے چہرے کے تاثرات سے فیصلہ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھیں اور دونوں اطراف نے اپنے چہروں پر عجیب سی مسکراہٹیں سجا رکھی تھیں۔ جب جج صاحب نے بتایا کہ بنچ کے دو ارکان نے وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ دیا ہے تو نسیم زہرہ اچھلتے اچھلتے رہ گئیں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ تین جج نااہلی کے حق میں فیصلہ کریں گے۔ جب جج صاحب نے بتایا کہ تین ججوں نے مزید تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی کی تشکیل پر زور دیا ہے تو میں نے عامر متین کو تھپکی دی۔ 
کمرہ عدالت سے باہر نکلتے ہوئے میں نے سنا کہ ایک سینئر وکیل ایک وزیر صاحب کو کہہ رہا تھا کہ آپ کی حکومت تو بچ گئی لیکن عزت نہیں بچی۔ سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر ٹی وی کیمروں کی بھرمار تھی جن پر مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف والے اپنی اپنی فتح کا اعلان کر رہے تھے۔ مجھے بھی دنیا بھر کے ٹی وی چینلز عدالتی فیصلے پر تبصرے کے لئے فون کر رہے تھے لیکن میں عدالتی فیصلے کی نقل کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں مجھے فیصلہ مل چکا تھا اور اس فیصلے کی پہلی ہی سطر میں ماریو پوزو کے ناول ’’گاڈ فادر‘‘ کا ذکر تھا جس میں ایک مافیا فیملی کی کہانی بیان کی گئی تھی۔ چوتھی سطر میں فرانس کے مشہور ادیب بالزیک کا یہ جملہ نقل کیا گیا تھا کہ ہر بڑی دولت کے پیچھے ایک جرم چھپا ہوتا ہے۔

ایسا لگا کہ کوئی آسمان سے گرا اور کھجور میں اٹک گیا ہے۔ یہ تمام الفاظ ایک ایسے جج نے لکھے تھے جن کی رائے سے تین ججوں نے اختلاف کیا تھا لیکن ان کی رائے سے فیصلے کا آغاز ہوا۔ صاف پتا چل رہا تھا کہ پانچ ججوں میں کوئی بڑا اختلاف نہیں تھا لیکن تین ججوں کا خیال تھا کہ ملک کے منتخب وزیراعظم کی نااہلی سے قبل مزید قانونی تقاضے پورا کرنا بہت ضروری ہے۔ میرے ذہن میں سوال پیدا ہو رہا تھا کہ اگر تین ججوں کے خیال میں وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کے لئے قانونی شواہد ناکافی تھے تو پھر انہی تینوں میں سے ایک معزز جج صاحب نے یہ کیوں کہا کہ اُن کا فیصلہ صدیوں تک یاد رکھا جائے گا ؟ مجھے جو کوئی بھی فیصلے کے متعلق پوچھ رہا تھا میں جواب میں صرف ایک ہی لفظ بولے جا رہا تھا ’’گاڈ فادر‘‘۔ 

میں اس فیصلے کے پیچھے کسی گاڈ فادر کو تلاش کر رہا تھا۔ آخر یہ جج صاحب اپنے فیصلوں میں دوستو وسکی کے ناول ’’جرم اور سزا‘‘ اور ماریو پوزو کے ناول ’’گاڈ فادر‘‘ کا حوالہ کیوں دیتے ہیں؟ انہیں بانو قدسیہ کے ناول ’’راجہ گدھ‘‘ یا عبداللہ حسین کے ’’اداس نسلیں‘‘ یا انتظار حسین کے ’’بستی‘‘ میں سے کوئی کردار کیوں نہیں ملتا ؟ سنا ہے بشریٰ رحمان ایک ناول لکھ رہی ہیں جس میں پاکستانی سیاست کے کچھ چہروں کو بے نقاب کیا جائے گا لیکن یہ چہرے نسوانی ہیں البتہ ان نسوانی چہروں کے پیچھے کوئی نہ کوئی گاڈ فادر ضرور ہے اور گھر کی بھیدی بشریٰ رحمان کو گاڈ فادر کے چہرے سے نقاب ہٹانے کے لئے اپنی جان خطرے میں ڈالنی پڑے گی۔

ماریو پوزو کے ناول ’’گاڈ فادر‘‘ پر ایک نہیں کئی فلمیں بن چکی ہیں۔ یہ اٹلی سے امریکہ آنے والے ایک خاندان کی کہانی ہے جس کا سربراہ ویٹو کارلیون جرم کی دنیا کا گاڈ فادر ہے۔ اس گاڈ فادر کی تین چار مافیا گروہوں کے ساتھ لڑائی ہے اور یہ ایک دوسرے کو ختم کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ ویٹو کارلیون دوستوں کا دوست ہے لیکن جو اس کی ذات کا وفادار نہیں واجب القتل ٹھہرایا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے داماد کو بھی معاف نہیں کرتا۔ جج صاحب نے اپنے فیصلے میں یہ نہیں کہا کہ پاناما کیس کے ملزمان ماریو پوزو کے ناول ’’گاڈفادر‘‘ کے کردار ہیں لیکن اُنہوں نے اپنے فیصلے میں یہ ضرور لکھ دیا کہ یہ مقدمہ بالزیک کے اس جملے کے گرد ضرور گھومتا ہے کہ ہر بڑی دولت کے پیچھے ایک جرم چھپا ہوتا ہے۔ پاکستان میں دولت مند لوگوں کی کوئی کمی نہیں۔

 ہو سکتا ہے کہ اکثر دولت مند لوگوں نے کوئی نہ کوئی جرم کیا ہو لیکن پاکستان کا قانون ان سب کو ایک نظر سے نہیں دیکھتا۔ مثلاً پیپلز پارٹی کے گاڈ فادر آصف زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کہا جاتا ہے۔ وہ کرپشن کے کئی مقدمات میں بارہ سال جیل میں گزار چکے ہیں لیکن اُن پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔ سابق صدر پرویز مشرف بھی بے پناہ دولت کے مالک ہیں۔ اُن پر آئین سے غداری کے علاوہ قتل کے مقدمات بھی قائم ہیں لیکن وہ کبھی ایک منٹ کے لئے بھی جیل نہیں گئے کیونکہ وہ بھی اپنی جگہ ایک ایسے گاڈ فادر ہیں جس کے سامنے ملک کا قانون بے بس ہے۔ اسی طرح سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ہیں۔ انکے برخوردار کیخلاف انکوائری شروع ہوئی تو ملک کا قانون برخوردار کے معاملے میں بے بس ہو گیا۔ میڈیا میں بھی بہت سے گاڈ فادر ہیں جو ایک دوسرے کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں اور ویٹو کارلیون کی طرح مخالفین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔

ہمارے اردگرد بہت سے گاڈ فادر ایک دوسرے سے لڑائی مارکٹائی میں مصروف ہیں اور قانون سب کے لئے ایک نہیں ہے۔ جب تک قانون سب کے لئے ایک نہیں ہو گا گاڈ فادر ختم نہیں ہوں گے۔ پاناما کیس کا فیصلہ ایک گاڈ فادر کو سامنے تو لے آیا ہے لیکن دیگر گاڈ فادر اس فیصلے کو اپنی فتح قرار دے رہے ہیں۔ وہ فیصلہ کس دن آئے گا جو ہر گاڈ فادر کی سانس خشک کر دے گا؟ جج صاحب نے تو کہا تھا کہ ان کا فیصلہ صدیوں یاد رکھا جائے گا۔ وہ فیصلہ کدھر گیا جسے ہمیں صدیوں یاد رکھنا تھا ؟ یہ وہ فیصلہ تو نہیں۔ ہو سکتا ہے صدیوں یاد رکھنے والا فیصلہ اس فیصلے کی کوکھ سے جنم لے۔ فی الحال تو یہ گاڈ فادر کے بارے میں فیصلہ ہے اور ہم گاڈ فادر کو صدیوں یاد رکھیں گے۔
 حا مد میر




Post a Comment

0 Comments