All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

اسلامی فوجی اتحاد اور پاکستانی پالیسی کے تقاضے

اسلامی ممالک کا فوجی اتحاد، مشرق وسطیٰ کی سیکورٹی کے منظر نامے میں
ایک اہم تبدیلی کا آغاز ہے۔ اس اتحاد اور اس میں پاکستان کی شمولیت کے مضمرات نے نہ صرف مشرق وسطیٰ میں ارتعاش پیدا کیا بلکہ اس کی گونج مغربی حلقوں میں بھی سنی گئی۔ پاکستان کو اس اتحاد میں شمولیت پر نکتہ چینی کا ہدف بناتے ہوئے کبھی اسے سنی اتحاد کے مترادف اور کبھی خطے میں سنی شیعہ اختلاف کو ہوا دینے کی کوشش قرار دیا گیا۔ ان اعتراضات کا بغور جائزہ لیتے ہوئے ان کا جواب دوسری نوعیت کے دلائل سے دیا گیا کہ یہ اتحاد عالم اسلام کی فورسز کی محض صورت گری کرے گا، اس میں زمینی چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت نہیں ہو گی۔

تاہم یہ اسلامی نیٹو تشکیل دینے کی نمائندگی ضرور کرے گا۔ دلائل کے تیسرے سلسلے میں یہ کہا گیا کہ پاکستان کو مشرق وسطیٰ کے سیکورٹی معاملات میں مبینہ کردار ادا کرنے کے بجائے اپنی اندرونی سرحدوں پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے اور اسے خطے کے کسی رسمی اتحاد میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔ اس دلیل میں اس امر پر بھی زور دیا گیا ہے کہ اتحاد میں پاکستان کی شمولیت سے ایران ناراض ہو جائے گا جس کے نتیجے میں پاکستان کے لیے سیکورٹی کا مسئلہ مزید الجھ سکتا ہے۔ آخری دلیل کے مطابق پاکستان کو ادراک ہے کہ جنوبی ایشیا کی سیکورٹی کا مشرق وسطیٰ کی سیکورٹی سے کوئی اشتراک نہیں۔

ان تمام دلائل سے بظاہر لگتا ہے کہ پاکستان کا اس فوجی اتحاد کا حصہ بننا شاید اس کی خارجہ اور دفاعی پالیسی کا بد ترین فیصلہ ہے، لیکن پوری صورتحال کا قریب سے جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ حقیقت اس اسٹرٹیجک لینڈ سکیپ کے برعکس ہے جس کی بنیاد پر یہ سب کچھ کہا جا رہا ہے ۔ اولاً، اسلامی فوجی اتحاد اساسی طور پر دولت اسلامیہ (داعش) سے لاحق خطرات اور خطے میں اس کے ممکنہ فوجی عواقب کے خلاف ہے۔ ثانیاً، داعش ایک ایسا نقطہ ہے جس پر سنی اور شیعہ سوچ یکساں ہے، یعنی یہ ایک ایسا خطرہ ہے جسے عالم اسلام کو لگام دینے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ یہ خوف بھی ہے کہ اس سے ایران اور سعودی عرب کے مابین اثر پذیری کی جنگ شروع ہو جائے گی جو شیعہ سنی خلیج کی شکل اختیار کر لے گی، لیکن اصل صورتحال یہ ہے کہ دونوں ریاستیں حقیقت پسند ہیں اور انہیں اچھی طرح ادراک ہے کہ داعش کے حوالے سے ایک دوسرے کے دائرہ اثر میں مداخلت کے نتیجے میں عالم اسلام میں ایک نئی مذہبی قیادت کو ابھرنے کا موقع ملے گا، جس کا کرتا دھرتا داعش اور حوثیوں کی طرح نان اسٹیٹ ایکٹرز ہوں گے، جن کی نوعیت اگرچہ قبائلی ہے مگرہ وہ مذہب کی ایک بہت سے مختلف شکل کی نمائندگی کرتے ہیں جس کا سعودی عرب اور ایران کے مستند سنی اور شیعہ مسالک سے کوئی تعلق نہیں۔
ثالثاً، مجموعی طور پر یہ گروہ کوئی کمتر خطرہ نہیں ، اس لیے کہ اس میں شامل مختلف گروپ ٹی 62 اور ٹی 72 ٹینکوں سے ہووٹزر(Howitzer) گنوں جیسے بھاری فوجی ہتھیار تک استعمال کرنے کے قابل ہیں، وہ اپنی مجموعی آمدنی کا 60 سے 70 فی صد عراق میں تیل اور گیس اپنے انٹرنیشنل پارٹنرز کے ہاتھ بیچ کر حاصل کرتے ہیں ان حالات میں مغرب کی سربراہی میں پورا فوجی اتحاد مبینہ طور پر اس کے ابھار کے خلاف لڑ رہا ہے۔ یہ صورتحال ان گروپو ں کی وسعت پذیر صلاحیت کو روکنے میں ناکامی کا پتا دیتی ہے، جس کی وجہ دور خاطرز عمل ہے جو مشرق وسطیٰ میں دہشت گرد گروپوں کی موجودگی اور عالم اسلام کے ضمن میں اختیار کیا جاتا ہے۔ ایک سطح پر انہیں عراق اور شام کی اعتدال پسند فورسز کے لیے خطرہ گردانا جاتا ہے اور دوسری جانب انہیں بشار الاسد اور روس کا اثر کنٹرول کرنے میں مغرب اور امریکا کا سٹریٹجک پارٹنر سمجھا جاتا ہے۔ لہذا جب تک بین الاقوامی برادری ان دہشت گرد گرپوں کے بارے میں حتمی فیصلہ نہیں کرتی، یہ خطے میں عسکری چیلنج بنے رہیں گے۔ اب تو وہ اپنے نظریات، مالی امداد اور سیاسی بنیادیں مختلف متصادم علاقوں اور اپنی اسٹرٹیجک ضرورت کے علاقوں کو برآمد بھی کر رہے ہیں۔

ان میں پہلے افغانستان اور جنوبی ایشیا ہیں، اس کے بعد ایشیائی بحر الکاہل کی باری آئے گی۔ اب تک مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے 15000 جنگجوؤں کو تربیت دی جا چکی ہے۔ ان کی ممکنہ رکنیت اور مقاصد تاحال غیر متعین ہیں لیکن ایک بات یقینی ہے کہ وہ اسلامی ممالک کی طرف سے انسداد دہشت گردی کی کوششوں کے لیے ایک واضح خطرہ ہیں۔ دوسرے، اسلامی فورسز اور ریاستوں کے مابین جوائنٹ انٹیلی جنس شیئرنگ کا کوئی میکنزم موجود نہیں ہے، ان کا انحصار مغرب پر ہے جو ان کا پارٹنر ہے، لہذا وہ اسی کی عینک سے دہشت گردی کو دیکھنے پر مجبور ہیں تیسرے، ان گروپوں کی بڑھتی ہوئی فوجی صلاحیت اور اس کے ساتھ ساتھ تنہا اپنے زور بازو پر پوری دنیا میں دہشت گردانہ حملے کرنے کی اہلیت بہت بڑا چیلنج ہے ۔عالم اسلام تو یقینی طور پر ان کے حملوں کی زد میں ہے، لہذا آئندہ قیادت کو اس کا خاطر خواہ جوا ب دینا ہو گا۔
فوجی اتحاد کی شکل میں مسلمان ممالک کا قریب آنا ایک قدرتی تقاضا ہے، اس سے خطرے کی گھنٹیاں نہیں بجنا چاہئیں، اس لیے کہ اگر تقریباً تمام مسلم ریاستوں کا مغرب کو مرکزی حیثیت دے کر انسداد دہشت گردی کے اتحاد میں شامل ہونا قابل تحسین ہے تو پھر داعش کے خلاف ان کے اسلامی فوجی اتحاد میں کیا قباحت ہے؟

اگر ایران پر عائد پابندیاں اٹھائی جا سکتی ہیں اور مغربی ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات ٹھیک ہو سکتے ہیں تو یہ کیوں سوچا جاتا ہے کہ ایران، داعش کے خلاف اتحاد میں شامل نہیں ہو گا۔ آخر ایران اسلامی تنظیم کانفرنس (او آئی سی) کا رکن ہے، اس کے باوجود کہ اس کے بیشتر رکن ممالک سنی ہیں۔ دراصل شیعہ سنی بحث تازہ ترین پیشرفت جہاں سعودی عرب کو کٹر یا سخت گیر سنی ریاست اور ایران کو جنونی شیعہ ریاست کہا جاتا ہے، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، اس لیے کہ دونوں ریاستیں مختلف مسالک کی حامل ہونے کے باوجود عملیت پسند بھی ہیں، وہ اپنے مسلکی رنگ سے بالا ہو کر اتحادوں میں شامل ہونے اور بین الاقوامی نظام کے ساتھ معاملہ بندی کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس لیے اگر پاکستان اس اتحاد میں شامل ہوتا ہے اسے شیعہ اور سنی کا رنگ دینے کی بجائے ایک ریاست اور حقیقی سیاسی صورت حال کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے۔

اگر یہ اتحاد شیعہ مخالف نہیں بلکہ داعش مخالف ہے تو ایک بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی اس میں شمولیت کو متنازع کیوں بنایا جا رہا ہے، بالخصوص اس حقیقت کے باوجود کہ تقریباً تیس لاکھ پاکستانی باشندے مشرق وسطیٰ میں مقیم ہیں یا ان وہاں کاروباری آنا جانا لگا رہتا ہے اور اگر اتحاد کا ایجنڈا بھی فطری ہے تو پھر مغرب کو کیوں فکر لاحق ہے؟ موجودہ دور میں پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے انسداد دہشت گردی کی مہم چلائی اور قومی وبین الاقوامی سطح پر کامیاب ہوا۔ پاکستان کی فوجی اہلیت مشرق وسطیٰ میں ٹریننگ، فوجی صلاحیت میں اضافے اور ممکنہ اسلامی نیٹو تشکیل دینے میں ممد ومعاون ثابت ہو سکتی ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان واحد ملک ہے جس کے ایران اور سعودی عرب دونوں کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں اس لیے وہ شیعہ سنی رنگ کو مدھم کر سکتا ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جو نہ صرف دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی فوجی مہم کی قیادت کر سکتا ہے بلکہ یہ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کو متاثر کرنے والے دہشت گرد گروپوں کے خلاف گیم چینجر کردار ادا کرنے کا دم خم بھی رکھتا ہے۔ پاکستان اور ترکی کی دفاعی پیداوار، مصری افواج کی پیشہ ورانہ صلاحیت اور پاکستان کی قیادت مل کر اسلامی نیٹو کو حقیقی روپ دے سکتے ہیں اور یہ مشرق وسطیٰ میں مغربی بالادستی ولے سیکورٹی نظام کے لیے چیلنج ثابت ہو سکتا ہے، اس لیے کہ وہاں سیکورٹی کے عصبی مرکز کی جگہ اسلامی ممالک کا نیا اتحاد لے لے گا۔

آخری بات یہ کہ پاکستان اور اس خطے کی سیکورٹی کا مشرق وسطیٰ کی سیکورٹی کے استحکام سے قریبی تعلق ہے جسے کسی بھی صورت میں مغرب کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا، اس لیے کہ ان کا ماضی ظاہر کرتا ہے کہ مغرب نے خطے میں صرف اپنے مفادات کو فوقیت دی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ علاقائی رہنما اور پوری اسلامی دنیا خطے اور عالمی سیکورٹی نظام میں اپنا جائز حق حاصل کرے۔ یاد رکھیں کہ پاکستان کا فیصلہ دوسرے ممالک نہیں بلکہ اس کے مفادات اور عالمی نظام سے اس کے روابط کی بنیاد پر ہو گا جو وہ خود کرے گا۔

ڈاکٹر ماریہ سلطان

بشکریہ روزنامہ 92 نیوز


Post a Comment

0 Comments