All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

علامہ احسان الٰہی ظہیر کی خوبصورت یادیں

دنیا کی بے ثباتی کا کون گواہ نہیں‘ زندگی کی بے وفائی کا کسے احساس نہیں‘ رنگ و بُو کے اس جہاں میں کیسے کیسے ذیشان لوگ آئے‘ آب وگل کی اس کائنات میں عظیم ہستیوں نے جنم لیا۔ ان کی جلائی ہوئی شمعیں اپنی ضوفشانیوں سے زندہ قوموں کو ہمیشہ راستہ دکھاتی رہتی ہیں۔ دعوت و عزیمت کے ایک ایسے ہی کارواں کے قائد کو دنیا احسان الٰہی ظہیر کے نام سے جانتی ہے۔ ان کا شمار ملک کے نامور علماء دین اور بے باک سیاستدانوں میں ہوتا تھا۔ وہ آج ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔ مگر ان کی شعلہ نوا خطابت‘ ان کی بے خوف سیاست اور ان کی دبنگ شخصیت کی مہک بیس برس کے بعد بھی ابھی تک وطن عزیز کی فضائوں میں رچی بسی ہے۔ 
چھیالیس سال کی مختصر سی زندگی میں وہ اپنے کردار وعمل سے صدیوں کا فاصلہ طے کر چکے تھے۔ وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ یہاں صر ف آقائے نامداررسول کریم ﷺ سے ان کی سچی محبت اور والہانہ عشق کے مختلف گوشوں اور شعلہ نوا خطابت کے تناظر میں کچھ گزارشات پیش ہیں۔ تحریک ختم نبوتؐ میں ان کا کردارپوری دنیا پر آشکار تھا۔ جس کا اعتراف لندن سے شائع ہونے والے ایک جریدے نے بھی کیا۔ اس نے برصغیر پاک وہند کے بارے ایک مضمون میں حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ‘ علامہ اقبال‘ پنڈت جواہر لال نہرو اور علامہ احسان الٰہی ظہیر کی تصاویر شائع کیں۔ علامہ اقبالؒ کی تصویر اس لئے شائع ہوئی کہ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے اسلامی مملکت کا تصور پیش کیا۔ حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی تصویر اس لئے کہ انہوں نے علامہ اقبالؒ کے تصور کو عملی جامہ پہنایا۔ پنڈت جواہر لال نہرو کی تصویر اس لئے شائع کی کہ انہوں نے انگریز کی سازش سے برصغیر کے مسلمانوں میں قادیانیت کے نام سے ایک فرقے کی بنیاد رکھنے والے غلام احمد قادیانی کی پس پردہ سرپرستی کی تھی اور علامہ احسان الٰہی ظہیر کی تصویر اس لئے شائع کی کہ اس نوجوان عالم دین نے قادیانیت کی سازش کو بے نقاب کر کے اسے خارج از اسلام قرار دلوانے میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ 

انہوں نے مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد وطن واپس آ کر وقت کی سیاسی تحریکوں اتحادوں اور مسجد چینیانوالی میں اپنی خطابت کے وہ جوہر دکھائے کہ انہیں لوگوں نے سید عطاء اللہ شاہ بخاری ثانی ؒ قرار دیا۔ وہ فِرق کے عالم تھے انہیں اپنی شعلہ نوا خطابت پر فخر تھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ’’ میں حضرت نبی اکرمؐ کے ختم الرسل ہونے پر مکمل یقین رکھتا ہوں ۔ میں نبوت کے جھوٹے دعویدار غلام احمد قادیانی کو مرتد اور کاذب کہتے وقت مصلحتوں سے کام کیوں لوں۔ میں اپنے ایمان اور عقیدے میں سیاسی مصلحتوں کی آلودگی قبول کر کے اپنی سیاست کی دکان نہیں چمکا سکتا۔ میں اس ملک میں قیامت تک اقتدار میں نہ آئوں مجھے کوئی غم نہیں ہو گا۔ میں کلمہ حق کہنے سے کبھی نہیں ہچکچائوں گا۔‘‘ وہ سچے عاشق حضرت رسول اکرمؐ تھے۔ ‘‘ ان کی ایمان افروز تقریروں نے جذبات اور احساسات کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔

ان کی یادیں دلوں میں خزاں کا عالم برپا کئے ہوئے ہیں۔ طلب ثروت ان کا مقصد حیات نہ تھا۔ بلکہ دنیا کی جاہ و حشمت کو ٹھوکر لگا کر وہ ہمیشہ آرزوئے مغفرت کے طلبگار رہے۔ آپ مدینہ یونیورسٹی کے طالب علم رہے‘ یہاں سے امتیازی شان کے ساتھ امتحانات میں کامیاب ہوئے تھے۔ مدینہ ان کا دوسرا گھر تھا۔ ان کی زندگی مدینے والے کے پیغام ہی کو عام کرنے کیلئے وقف تھی۔ وہ اسی شہر میں موت کی تمنا کرتے تھے ،ان کی یہ خواہش رب نے پوری کر دی۔ وہ جنت البقیع میں حضرت امام مالکؒ کے پہلومیں دفن کئے گئے ۔ توحید کا ترانہ انہوں نے اس شان سے گایا کہ سننے والا جھوم جھوم اٹھے۔ قادیانیوں کے خلاف انہوں نے معرکے کی تحریریں لکھیں۔ اس گروہ کے خلاف ان کا قلم تلوار بنا ہوا تھا۔ احسان الٰہی ظہیر کو اس کے معاصرین سے بھی خوب داد ملی۔ آغا شورش کاشمیری انکے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’انشاپردازی ان کی جیب کی گھڑی اور تقریر و خطابت ان کے ہاتھ کی چھڑی تھی‘‘۔

ممتاز عالم دین مولانا محمد یوسف بنوری مرحوم نے شاہی مسجد کے باطل شکن اجتماع میں ان کی خطابت کی جلوہ سامانیوں اور بگڑے ہوئے حالات پر قابو پانے کی عظیم قائدانہ صلاحیتوں پر آفرین کہتے ہوئے انہیں شیرقرار دیا۔ عرب کے شہرہ آفاق خطیب ڈاکٹر مصطفی السبائی نے کہا کہ ان کے لب و لہجے اور اسلوب بیان نے قدیم عرب کے خطباء کی یاد تازہ کر دی ہے اور ہم نے عالم اسلام میں ان سے بڑا خطیب نہ دیکھا اور نہ سنا ہے۔ ان کے الفاظ کا جادو مخالفین کے سر چڑھ کر بولتا رہا۔ ان کی تقریریں خوف نکال باہر کرتی تھیں۔ طاقتوروں کے خلاف لڑنے کا حوصلہ دیتی تھیں۔ کمزوروں کے دل سے کمزوری کااحساس ختم کر دیتی تھیں۔ وہ اسلام اور اپنے وطن سے بے حد محبت کرتے تھے۔

سانحہ مشرقی پاکستان پر وہ بہت رنجیدہ ہوئے۔ انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار سقوط ڈھاکہ کے اگلے روز چینیاںوالی مسجد میں تاریخی خطبہ جمعہ میں کچھ یوں کیا تھا۔ ’’کہ آج ہماری اٹھی ہوئی گردنیں جھک گئی ہیں ‘آج ہمارے تنے ہوئے سینے سکڑ کر رہ گئے ۔ ہماری آوازیں کجلا گئی ہیں ۔ آج ہماری روح مرجھا گئی ، آج ہمارے دل بیٹھ گئے اور ہمارے اعصاب ٹوٹ گئے ۔ آج ہمارے جسم چھلنی ہو گئے ۔ آج ہمارے دل زخمی ہو گئے اور آج ہمارے جگر پھٹ کر رہ گئے ہیں۔ آج یہ سب کچھ کیوں ہے ؟ اس لئے کہ آج ڈھاکہ کی مسجد بیت المکرم ہمارے پاس نہیں رہی۔ آج ہم اس لئے اپنی آنکھوں کے سامنے جالے محسوس کرتے ہیں کہ آج چٹاگانگ کی عید گاہ ہم سے چھن گئی ہے۔ ‘‘

انہوں نے سلطانی جمہور کا پرچم بلند کئے رکھا اورکتاب وسنت کے نفاذ کیلئے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کیا۔ وقت کے حاکموں کے ظالمانہ اقدامات کوزبان و قلم کے وار سے روکنے کی پوری کوشش کی۔ حریت فکر کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ عزت سے لیا جائے گا۔ انہوں نے جوانوں میں عقابی روح پیدا کی۔ اپنی ولولہ انگیز خطابت سے ان میں بے باکی پیدا کی۔ سیاسی پنڈتوں کے جال توڑنے میں کبھی شکست نہ کھائی اور ہمیشہ اذان حق بلند کی۔ وہ شرک وبدعت کے قاطع اور قرآن وسنت پر فاتح نظر آئے۔ ان کے اعمال میں سنت تھی، توحید تھا۔ سیاست کے نشیب وفراز میں انہیں جہاد اور شہادت کی امنگ رہتی۔ قرآن و سنت کی تعلیمات کے پھیلانے اور پھر اپنے اس پاکیزہ مقصدکے حصول کیلئے ہمہ تن مقابلہ کرنا ان کا شغف عین تھا۔ ان کی زبان میں زہر نہیں تھا لیکن تاثیر اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ شہد مخالفین کے دل میں زہر بن کر انہیں گھائل کر دیتا۔ ان سے جواب نہ بن پاتا تو تخریب کاری کا راستہ اختیار کرتے۔ 

انہیں موت کی دھمکیاں ملتیں ۔ لیکن احسان الٰہی ظہیر نے آخری لمحے تک باطل سے مفاہمت نہ کی۔ سچ کا ساتھ نہ چھوڑا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ :’’ آگ اور خون کا ایک دریا ہے‘ جس پر ہمیں حق اور سچائی کا پل تعمیر کرنا ہے‘ پھر اسے پاٹنا ہے تب جا کے ایک انقلاب آئے گا‘ نہ جانے اس جدوجہد میں ہم سے کون اس دریا کی نذر ہو جائے۔‘ ‘ وہ کہا کرتے تھے کہ ’’میں کسی بزدل کا بیٹا نہیں مجھے اس ماں نے جنا ہے جو مجھے تختہ دار پرلٹکتا دیکھ کر یہ کہے گی کہ ابھی اس خطیب کے منبر سے اترنے کا وقت نہیں آیا۔‘‘

بن یوسف

 

Post a Comment

0 Comments