All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

موبائل فون ایک متعدی بیماری بھی ہے ؟

آج کا لکھا پڑھا ہر پاکستانی نہ چاہتے ہوئے بھی میڈیا کی یلغار کی زد میں ہے۔ دنیا جہان کی خبروں پر ’’تسلط‘‘ حاصل کرنے کا جنون ہمارے دل و دماغ پر مسلط رہتا ہے۔ آج اوسط آمدنی والے ہر پاکستانی کے پاس ایک اوسط قیمت کا موبائل فون ضرور موجود ہے۔ کہنے کو تو یہ ٹیلی فون ہے اور ہم اس کے ذریعے ہر آن اپنے جاننے والوں سے منسلک رہتے ہیں لیکن اس انسلاک کے علاوہ بھی اس سیل فون کے استعمالات اتنے زیادہ ہیں کہ ہمیں کبھی تنہائی کا غم نہیں ستاتا۔ ذرا سی فراغت ملی اور ہم نے جھٹ موبائل نکال کر بٹن دبایا اور معلومات اور حیرت کا ایک پورا آفاق ہمارے سامنے پھیل گیا!

سکول ہو یا کالج یا یونیورسٹی آپ کسی بھی مضمون کے کسی بھی درجے کے سٹوڈنٹ ہوں آپ کے سارے سوالوں کے جواب موبائل پر موجود ہیں۔ آپ خدانخواستہ بیمار ہوں تو مختلف عوارض کی وجوہات اور ان کا علاج بمعہ پرہیز موجود ہے۔ حتیٰ کہ مختلف ادویات کی قیمتیں اور وہ جہاں جہاں سے دستیاب ہیں، سب کچھ آپ کی دسترس میں ہے۔ اگر آپ کا ڈاکٹر کے پاس جانے کا موڈ نہیں تو نہ سہی، موبائل آپ کی مدد کے لئے تیار ہے۔ آپ کسی بھی شعبے میں ہوں ،کسی بھی مضمون کے استاد، لیکچرار یا پروفیسر ہوں، آپ کو آپ کی استطاعت اور مبلغِ علم و ہنر کے مطابق ہر قسم کا مواد اس 3"x5" حجم والے موبائل میں مل جائے گا۔ زیادہ پڑھا لکھا ہونا بھی شرط نہیں۔ میں نے اَن پڑھ لڑکوں، لڑکیوں، مردوں اور خواتین کو اس آلے سے حسبِ توفیق مستفید ہوتے دیکھا ہے۔
اس کے اندر معلومات و اطلاعات کا جو خزانہ مدفون ہے اس کو کھود کر باہر نکالنے کے لئے کسی جسمانی مشقت یا محنت وغیرہ کی ضرورت بھی نہیں۔ آپ کو اگر دماغ سے کام لے کر انگلیاں چلانی آتی ہیں تو کوئی نہ کوئی دوست یار آپ کو ضرور بتا دے گا کہ فلاں بٹن کو دباؤ تو فلاں چیز سامنے آ جائے گی۔ یعنی اس ایکسرسائز میں زیادہ تعلیم و تعلّم کی کوئی ضرورت نہیں۔ اور کچھ نہیں تو صرف پانچ سات روپے روزانہ میں آپ جس سے جتنی دیر چاہیں بات چیت کر سکتے ہیں۔۔۔۔ پیکیج زندہ باد۔۔۔

ہرکس و ناکس کی جیب میں یہ آلہ موجود ہے۔ پھر یہ سہولت بھی موجود ہے کہ اگر آپ نہ چاہیں تو آپ کی خلوت و جلوت میں اس آلے کے دخیل درمعقولات ہونے کی کوئی گنجائش نہیں۔ آپ اسے شٹ اپ کال دے کر ’’سلا‘‘ سکتے ہیں اور پھر جب دل چاہے، جگا بھی سکتے ہیں۔ ایسا بندۂ بے دام آپ نے ماضی میں کسی الف لیلوی داستان میں بھی شاید ہی پڑھا سنا ہو گا۔ اگر یہ کہیں گم ہو جائے یا گر کر ٹوٹ جائے تو کوئی غم نہیں۔ بازار سے دوسرا مل جائے گا۔ یہ آپ کی جیب پر منحصر ہے کہ آپ کتنا مہنگا یا کتنا سستا موبائل افورڈ کر سکتے ہیں۔ ایک ڈیڑھ ہزار سے لے کر ایک ڈیڑھ لاکھ تک کے موبائل عام بِک رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ایک ڈیڑھ ہزار والا موبائل صرف ٹیلی فون ہے لیکن اس کے بعد ’’فروعات‘‘ کی اتنی طویل قطار ہے کہ سارے ’’اصول‘‘ پسِ پشت دھکیل دیئے جاتے ہیں۔۔۔ یہی وہ ’’مسئلہ‘‘ ہے جس پر کچھ عرض کرنے کیلئے میں نے اس کالم کا سہارا لیا ہے۔

ہماری قوم کو بالعموم یہ معلوم نہیں کہ اس موبائل کے، ٹیلی فون کے علاوہ، جتنے اضافی فوائد گنوائے جاتے ہیں وہ فائدے کم اور نقصانات زیادہ ہوتے ہیں۔ فائدوں کی طرف تو میں نے سطور بالا میں کچھ اشارے کر دیئے ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی قسم کے گفتنی اور ناگفتنی فوائد اور نقصانات بھی ہیں جن کے استعمال سے پوری قوم اگر فائدہ لے رہی ہے تو ساتھ ساتھ ایسے نقصانات بھی خرید رہی ہے جن کے اثرات گہرے اور مستقل بلکہ انمٹ ہوتے ہیں۔آج نہیں تو آنے والے کل میں اگر آپ کو نہیں تو آپ کی آئندہ نسل کو لگ پتہ جائے گا! ویسے ان فوائد و نقصانات کی گوناگونی کا حصول آپ کے اپنے بس میں ہے۔ لیکن میں نے اس ذیل میں جس قدر سوچا ہے مجھے معلوم ہوا ہے کہ نقصانات کا تناسب فوائد کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

ان نقصانات کو گنوایا جائے تو بعض مرئی (Visible) ہیں اور بعض غیر مرئی (Invisible) ۔۔۔ مرئی نقصانات کی اگرچہ کوئی حد نہیں لیکن اصل نقصان یہ ہے کہ آپ ان مرئی نقصانات کو پلک جھپکنے میں اپنے دوستوں میں بھی ’’مفت‘‘ تقسیم کر سکتے ہیں۔۔۔ یہ متعددی المتعدی مرض ہے۔۔۔کچھ مہذب لوگ، اس کے ذریعے مہذب ویڈیوز اور مرئی تصاویر کو اپنے احباب میں تقسیم کر کے عند اللہ ماجور ہو جاتے ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو غیر مہذب بلکہ انتہائی ناگفتنی ویڈیوز کو چشم زدن میں درجنوں لوگوں تک بانٹ بانٹ کر ایک گونہ نشاط سے سرشار رہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں آپ کا موبائل ایک دو دھاری تلوار ہے۔ آپ اسے دشمن کے خلاف بھی استعمال کر سکتے ہیں اور خود اپنا گلا بھی کاٹ سکتے ہیں۔ لیکن آپ کا دشمن چونکہ آپ کی زد میں نہیں ہوتا اور بالعموم دوست ہی نشانے پر ہوتے ہیں اس لئے یہ تلوار دوستوں کو زیادہ کاٹتی ہے۔ ایک بار جب آپ کے احباب اس قسم کی یلغاروں کے عادی ہوجاتے ہیں تو وہ نت نئی یلغاروں کے منتظر رہتے ہیں۔

یہ چند الفاظ جو میں اس کالم میں لکھ رہا ہوں یہ محض مختصر ترین اشارے ہیں۔ بس تھوڑے لکھے کو زیادہ جانئیے گا۔ ان کی تفصیلات کی کوئی حد نہیں اور اس میں یہ تخصیص بھی نہیں کی جاتی کہ کس کو کیا دنیا سے اور کس سے کیا لینا ہے۔ یہ ’’لین دین‘‘ بعض حالات میں اتفاقی اور حادثاتی بھی ہو جاتا ہے۔ آپ کے موبائل میں ’’فیس بک‘‘ اور ’’واٹس آپ‘‘ دو ایسی Apps ہیں جو بیک وقت مضرت رساں بھی ہیں اور فائدہ مند بھی۔ لیکن فائدہ ہو یا نقصان ’’وقت کا ضیاع‘‘ ایک ایسا مشترک سٹرٹیجک عنصر ہے جس کی طرف ہماری توجہ نہیں جاتی۔ ہم فیس بک کھولتے ہیں تو اپنے دوست احباب کے علاوہ پوری دنیا کے مناظر نگاہوں تلے گھوم جاتے ہیں۔ ایک کے بعد ایک منظر زیادہ جاذبِ توجہ نظر آتا ہے۔ بعض باکمال تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں اوربعض لاجواب تحریریں پڑھنے کو۔ ان کے علاوہ لاتعداد Apps ہیں جو آپ کوچونکا دینے والی ہوتی ہیں۔

اس نظری چکاچوند میں آپ کو احساس نہیں رہتا کہ آپ اپنی زندگی کی سب سے قیمتی متاع یعنی ’’وقت‘‘ کو ضائع کر رہے ہیں۔ آ پ کے وقت کا ایک ایک لمحہ کتنا قیمتی ہے، آپ کو اس کا احساس نہیں۔ یہ ایک فلسفیانہ موضوع ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جس ’’لمحے ‘‘یا جن لمحات میں آپ کو تفکر اور تدبر کرنا ہوتا ہے وہ اوقات مختلف فضول تصاویر و تحاریر کو دیکھنے اور پڑھنے میں گزر جاتے ہیں۔ اگر اس نکتے پر ذرا اور بلند نگاہی سے غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ’’فیس بک‘‘ اور ’’واٹس آپ‘‘ وغیرہ کے تماشوں نے آپ کو تفکر و تدبر کے جذبہء ایجاد سے غافل کر دیا ہے۔ کوئی ایجاد، کوئی نیا آئیڈیا، کوئی نادر نکتہ یا کوئی اچھوتا خیال اس وقت تک آپ کے ذہن میں نہیں آتا جب تک ذہن کو خلوت کی دولت میسر نہیں آتی ۔آپ کا یہ موبائل آپ کی متاعِ خلوت کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ آپ کی ظاہری نگاہیں جب موبائل کی سکرین پر تیر رہی ہوتی ہیں تو تفکر و تدبر کی سکرین اُس ایک باطنی نگاہ کو سامنے نہیں لاتی جس کو انگریزی زبان کے ایک مشہور شاعر نے ’’عطائے خلوت‘‘ کا نام دیا ہے۔

ورڈز ورتھ کی ایک مشہور نظم ’’کنول کے پھول‘‘ کے نام سے آپ کی نگاہوں سے گزری ہو گی۔ اگر اب تک ایسا نہیں ہوسکا تو آپ اپنے موبائل پر ورڈز ورتھ اور ڈیفوڈل (Daffodils) ٹائپ کر کے اس نظم کا آخری بند ضرور پڑھئیے جس کا اردو ترجمہ یہ ہے :’’ میں اکثر اوقات جب بھی اپنے بستر پر لیٹتا ہوں اور مجھ پر تفکر و تدبر کا موڈ طاری ہوتا ہے تو کنول کے یہ پھول میری ان باطنی آنکھوں تلے پھیل جاتے ہیں جن کو تنہائی کی عطا کہا جاتا ہے۔۔۔۔ اس تنہائی کے لمحے کو پا کر میرا دل مسرت سے معمور ہو جاتا ہے اور میں کنول کے ہمراہ (بے خود ہو کر) ناچنے لگتا ہوں‘‘۔ 

چلئے میں آپ کو نظم کی تلاش کی زحمت نہیں دیتا اور اسی بند کو یہاں درج کر دیتا ہوں جو اس طرح ہے:
For oft when on my couch I lie
In vacant or in pensive mood
They flash upon that inward eye 
Which is the bliss of solitude
And then my heart with pleasure fills 
And dances with the daffdills

مجھے 101 فی صد یقین ہے کہ اگر آپ کے ہاتھ میں موبائل پکڑا ہوا ہے تو آپ کو وہ مسرت میسر نہیں آسکتی جو صرف اور صرف ’’خلوت کی عطا‘‘ ہے۔ یہ خلوت صرف خدا کے برگزیدہ بندوں کو نصیب ہوتی ہے ہر کسی کو نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ عہد حاضر کی نسل کو چونکہ موبائل فون نے خلوت کی دولت سے تقریباً فارغ کر دیا ہے اسی لئے وہ تفکر و تدبر کرنا نہیں جانتی اور جب تک تفکر و تدبر کسی انسان کو نصیب نہیں ہوتا وہ افکارِ تازہ کا خیال دل و دماغ میں نہیں لاسکتا۔ آج کے انسان کا المیہ یہی ہے کہ ان مشینوں اور ان مکینیکل کھلونوں نے ہم جیسی پس ماندہ (یا زیادہ سے زیادہ ترقی پذیر قوم ) کو کسی جذبہء ایجاد سے عاری اور کسی تصورِ جدیدہ سے فارغ کر رکھا ہے۔ اہل مغرب کی بات اور ہے۔ انہوں نے یہ کھلونے ہم جیسی اقوام کے ہاتھوں میں دے کر ہماری رہی سہی قوتِ ارتکاز (Power of Concentration) کو بھی منتشر کر دیا ہے۔

پاکستانی قوم میں یہ شعور پیدا ہونے میں شائد بہت وقت لگے کہ موبائل فون جیسے میڈیا ئی کھلونوں کو ہم نے اپنے بچوں اور جوانوں کے ہاتھوں میں دے کر ان کے اندر رہی سہی استعدادِ ایجاد بھی ختم کر دی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر کبھی یہ شعور بیدار ہو بھی جائے تو تب شائد اس ’’چمکتی دمکتی بیماری‘‘ کا علاج ممکن نہ رہے!

لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان 

Post a Comment

0 Comments