All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

بھارتی فوجیوں میں’’ بغاوت‘‘ کی کہانی

بھارتی میڈیا میں ایک فوجی تیج بہادر کی اچھا کھانا نہ ملنے کی ایک چھوٹی سی ’’بہادری ‘‘یعنی شکایت کو انکے اعلیٰ فوجی حکام اور حکومت نے کتنی ’’ بزدلی یعنی سختی سے لیا اس کا اندازہ ان خبروں سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہلدی ملی دال، جلے ہوئے پراتھے اور رات کو بھوکے پیٹ سونے کی دہائیاں دینے والا بھارتی فوجی تیج بہادر تا حال لاپتہ ہے ۔ یہ پاکستانی میڈیا نہیں بلکہ غیر ملکی میڈیا کہہ رہا ہے کہ ظلم کی انتہا دیکھئے کہ تیج بہادر کے اہل خانہ حبس بے جا زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، تیج بہادر کی بیوی دہائیاں دے رہی ہے ، شوہر کو ایک نظر دیکھنے کیلئے اس نے ہاتھ جوڑ لئے ہیں ۔ تیج کے خاندان نے عدالت میں حبس بے جا کی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے ۔

فی الحال بھارت میں تیج بہادر اور اس کے مظلوم خاندان کو انصاف ملنے کی دور دور تک کوئی’’ آشا ‘‘نہیں ہے ۔ تیج بہادر کی ’’بہادری ‘‘ کو دیکھتے ہوئے بھارتی سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے جوان نے بھی افسروں کے رویے کیخلاف وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کو خط لکھ دیا ہے ۔ اب دیکھتے ہیں اس خط کا ’’جواب کب اور کیسے آتا ہے ۔ ان واقعات نے سیکولر ازم کے دعویدار بھار تی معاشرے میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے ،بھارت کے اندر پڑھا لکھا ، غیر جانبدار طبقہ اس سوچ میں مبتلا ہے کہ جہاں فوجیوں کو پیٹ بھر ، صاف ستھرا کھانا دستیاب نہیں وہاں ’’خفیہ نیو کلیئر سٹی ‘‘ کے خواب دیکھنا کہاں کی دانشمندی ہے ، بیشتر تو اسے ’’بغاوت ‘‘ سے تشبیہہ دے رہے ہیں ۔ ایک بھارتی لکھاری نے تیج بہادر اور ان جیسے کئی فوجیوں کی اچھا کھانا نہ ملنے کی شکایت پر کچھ اس طرح سے بزور قلم احتجاج کیا کہ ہم بھی مجبور ہو گئے کہ ان کے الفاظ ان ہی کی زبانی آپ تک پہنچا دیں ۔
یہ بھارتی لکھاری ایک پروفیسر ہیں اور مسلمان بھی ہیں اس لئے ہم یہاں ان کا نام ظاہر کر کے ان کی مشکلات میں اضافہ کرنا نہیں چاہتے ، مقصد ان کی تحریر میں چھپا کرب اور نا انصافی بتانا ہے لہٰذا ہم اپنا کام کئے دیتے ہیں ۔ بھارتی پروفیسر لکھتے ہیں ’’ہم اپنی بیٹی کیساتھ ٹیلی ویژن دیکھ رہے تھے کہ اچانک ایک منظر پر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ، سکرین پر ایک کٹورا نظر آ رہا تھا جس میں تھوڑی سی دال تھی، بیٹی نے فوراً پوچھا ’’یہ دال اتنی پتلی کیوں ہے ؟ ‘‘میں نے جواب دیا ، نہیں بیٹا وہ تو کیمرے کی آنکھ سے پتلی نظر آ رہی ہے۔ بیٹی نے جواب دیا ’’ آپ غور سے دیکھیں کٹورے میں صرف پانی ہی پانی نظر آ رہا ہے۔‘‘ جی چاہا ہم کٹورے میں کو د جائیں اور پانی کے درمیان تیرنے والی دال کے کچھ ذروں کو نکال کر اپنی بیٹی کو پیش کر دیں ۔ اتنے میں کیمرے نے روٹی کو فوکس کیا جو جل کر تقریباً سیاہ ہو چکی تھی ۔ ’’یہ یا ہے ابو ؟‘‘شاید روٹی ہے جو اتفاق سے کچھ زیادہ پک گئی ہے ۔ ’’نہیں ، ابو ، یہ جلی ہوئی روٹی ہے ۔‘‘ میرا خیال ہے کیمرے میں کچھ خرابی ہے۔’’ابو ، سنئے یہ رپورٹر کیا کہہ رہا ہے ‘‘ہم نے تصویروں سے آنکھیں بند کر کے کمنٹری سننے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ بارڈر سیکیورٹی فورس (بی ایس ایف ) کے کوئی تیج بہادر یادو ہیں جنہوں نے اپنے موبائل فون کے کیمرے سے دال اور روٹی کو فیس بک پر وائرل کر دیا ہے اور یوں ساری دنیا کو بتا رہے ہیں کہ سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں کو کیسا کھانا دیا جاتا ہے ۔

ہم نے اپنی بیٹی کے کان مین سرگوشی کی ’’یہ ضرور ہمارے دشمنوں کی سازش ہے ، بھلا کوئی حکومت اپنے فوجیوں کو اتنا خراب کھانا کیسے دے سکتی ہے ؟ لیکن کیمرہ تو دال اور روٹی کی شکل صاف صاف بتا رہا ہے’’ بیٹا ، دشمن کچھ بھی کر سکتے ہیں ‘‘ ابو کیمرہ ہمارے اپنے فوجی کا ہے اور لگتا ہے کہ وہ اس طرح حکومت تک اپنی شکایت پہنچانا چاہتا ہے ’’ وہ اپنے سینئرز سے بھی تو کہہ سکتا تھا ’’ ہو سکتا ہے کہا ہو مگر دال اور روٹی ویسی ہی ملتی رہی ہو تو بیزار ہو کر اپنی شکایت وائرل کر دی ہو ۔‘‘بیٹا ، آپ بہت دور کی سوچنے لگتی ہیں کہیں اپنی شکایتیں نہ وائرل کر دینا ۔ پتلی سی دال اور جلی ہوئی روٹی کے مناظر اتنے تکلیف دہ تھے کہ ٹیلی ویژن بند کرنے کے بعد بھی ہمیں نظر آتے رہے ۔ کیا واقعی سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں کو ایسا کھانا دیا جاتا ہے ؟ پتہ نہیں یہ بے چارے کب سے ایسا کھانا کھا رہے ہوں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی شکایت پر کسی نے کان نہ دھرا ہو ۔

پتہ نہیں ماضی میں موسموں کی شدت نے ان پر کیا قیامت ڈھائی ہو ۔ ویسے فوجی محکمے کے آڈیٹر صاحبان نے یہ منکشف کیا ہے کہ فوجیوں کو جس معیار کا کھانا دیا جاتا ہے اس سے وہ مطمئن نہیں ہیں بلکہ انہوں نے دو باتیں ایسی بتائیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ اتنی اہم سرکاری رپورٹ کے بعد بھی بھارتی حکومت بیدار کیوں نہیں ہوئی ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جو راشن فوجیوں میں تقسیم کیا گیا اس کی Expiry Date تین ماہ پہلے ختم ہو چکی تھی ۔ دوسرے فوجیوں کے کھانے سے سبزیاں اور پھل مجوزہ مقدار سے 74 فیصد کم کر دئیے گئے ہیں (اور اس پر پتلی دال اور جلی ہوئی روٹی ) یہ اتنی تکلیف دہ بات ہے کہ جس کسی کو اس بد دیانتی کی خبر لگے گی وہ حیران ہوگا کہ جس کرپشن کو ختم کرنے کیلئے بھارتی وزیر اعظم نریند رمودی اپنی ساری طاقت صرف کر رہے ہیں ، وہ کرپشن فوج میں جاری و ساری ہے ۔ وہ فوج جس کے متعلق آج تک یہ خیال کیا جا تا تھا کہ یہ ادارہ بد عنوانی سے پاک ہے ، وہاں بھی بے ایمانی نے اپنے گھر بنا لئے ہیں ۔

اب جبکہ ’’پنڈورہ بکس ‘‘ کھل ہی چکا ہے تو جان لیجئے کہ سیکیورٹی فورس اور بیوروکریسی میں ایک عرصے سے سرد جنگ جاری ہے. معذور فوجیو ں کیخلاف حکومت نے عدالت میں مقدمہ دائر کر رکھا ہے ، پنشن، چھٹی کی تنخواہ کینٹین کی سہولت ، میڈیکل سہولت اور شہید کہلانے کا حق یہ سب عام فوجیوں کو جھولی میں اتنی آسانی سے ڈال دیا گیا ہے کہ دیگر فوجیوں میں احساس کمتری جنم لینے لگا ہے ۔ بارڈر سیکیورٹی فورس کا کوئی جوان اس تعصب کی شکایت کر دے تو اسے فوری طور پر کسی پُر خطر مقام پر پوسٹ کر دیا جاتا ہے ۔ حال ہی میں ایک بی ایس ایف جوان پر الزام لگایا گیا تھا کہ اس نے نشے کی حالت میں اپنے سینئر افسر پر گولی چلا دی تھی ۔ اولاً تو اس کے پاس پستول کیسے برآمد ہوا یہ آج تک معلوم نہیں ہو سکا ۔ رہا شرابی ہونے کا الزام لگا کر سزا دینے کی بات تو یہ نسخہ اتنے برسوں سے آزمایا جا رہا ہے کہ اس الزام کو سنتے ہی لوگ حقیقت بھانپ جاتے ہیں ۔

بہر حال ہمیں شکایت ہے تو ایسے عام لوگوں سے جو حب الوطنی اور دیش بھگتی کی باتیں کرتے نہیں تھکتے اور جہاں کسی نے حکومت کیخلاف ایک لفظ بھی منہ سے نکالا کہ اسے باغی اور دشمن قرار دے کر اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ۔ شاید تیج بہادر یادو کا بھی وہ حشر ہو ا (انہیں لاپتہ کر دیا گیا ہے ، گھر والے پریشان ہیں لیکن ان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ) اس طرح ہر فوجی تک یہ پیغام پہنچ گیا کہ سوشل میڈیا کا استعمال کرو گے یا حکومت کیخلاف زبان چلائو گے تو یہی حشر تمہارا ہو گا ۔ جو ملتا ہے ، چپ چاپ کھالو ، جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے، برداشت کر لو اگر شکایت کی تو سزا کیلئے بھی تیار ہو جائے ۔ دوسری طرف نریندرمودی بھارت کو ڈیجیٹل ملک بنانا چاہتے ہیں ، کرپشن ختم کر کے ایک کیش لیس ملک کی شکل دینا چاہتے ہیں ، وہی وزیر اعظم ایسے اہم ترین ادارے کی بدعنوانیاں دیکھ کر چپ ہے ۔ کیا انہیں اندازہ نہیں ہو گا کہ یہ کھچڑی برسوں سے پک رہی ہو گی اور جب کوئی راستہ نظر نہیں آیا ہو گا تو ابل پڑی ہو گی ۔

انہیں تو یہ بھی اندازہ ہو گا کہ ان فوجیوں کی ایک بڑی تعداد بے روزگاری سے نجات حاصل کرنے کیلئے فوج میں بھرتی ہوئی ہے ۔ اور ایک انسان ہونے کے ناطے انہوں نے ایک حد تک ذلت برداشت کی ہے یہ مصلحتوں کا دبائو تھا کہ ابھی تک خاموش رہے تھے ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت فوج کے بظاہر پر سکون ماحول میں اٹھنے والی آندھیوں پر قدغن لگائے اور ان کی جائز شکایتوں کا ازالہ کر کے فوج کا امیج درست کرے، لیکن یہ سب کیسے کیا جائے ؟ اس تعلق سے کچھ کہنے کا مطلب ہو گا اپنی خامیوں کا اعتراف کرنا اور اپنی خامیوں کا اعتراف تو دور کی بات رہی ان کا ذکر کرنا بھی ہمیں منظور نہیں ۔ ابھی ہماری سوچوں کا سلسلہ جاری تھا کہ ہمارے لئے کھانا چنا گیا اور ہم بھول گئے کہ کسی تیج بہادر یادو نے دال روٹی کی شکایت کی تھی ۔ ہم کھانے پر ایسے ٹوٹ پڑے جیسے کوئی دشمن پر ٹوٹ پڑتا ہے ۔ دراصل بھوک میں کھانا نظر آ جائے تو آدمی سب کچھ بھول کر صرف کھانے کا ہو جاتا ہے اور خوش قسمتی سے کھانا ذائقہ دار ہو تو پھر کب رکنا چاہئے ، یاد نہیں رہتا ۔ اس دوران ہماری بیٹی نے یاد دلایا کہ ابو جی ، کبھی ان کو بھی یاد کر لیا کریں جنہیں ذائقہ دار کھانا میسر نہیں کٹورے میں دال تو ہے مگر اس پر صرف دال کا گمان ہوتا ہے ، روٹی ہے مگر جلی ہوئی ۔ 

ہم نے فوراً اپنی بیٹی کو روکا کہ کیا دال روٹی کا ذکر اسی وقت کرنا ضروری تھا ؟ ابو، ابھی چند دن بھی نہیں گزرے کہ بھارت اس غریب کی دال روٹی بھول گیا ، کم از کم آپ تو نہ بھولیں ۔‘‘ جنگی جنون اور برتری کے غرور میں مبتلا ممالک میں کچھ ایسی ہی کہانیاں جنم لیتی ہے جن کا جھوٹ یا خوابوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ تیج بہادر جیسے لوگ تو اس کہانی کا ایک صفحہ ہیں پوری کہانی پڑھی جائے تو نا جانے کیا کیا تلخ حقیقتیں سامنے آئیں ۔

طیبہ بخاری

 

Post a Comment

0 Comments