All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

دل دل پاکستان جو دوسرا قومی ترانہ بنا

نرم آواز اور ملائم لہجے والے جنید جمشید کی تمام زندگی ایک پڑاؤ سے دوسرے
 پڑاؤ کی جانب سفر سے عبارت رہی۔ وہ سفر جو کنسرٹ ہال سے شروع ہو کر مختلف موڑ مڑتا، کہیں یو ٹرن لیتا، کہیں رکتا، پلٹتا، بالآخر سات دسمبر کو حویلیاں کے قریب ایک پہاڑی پر ہمیشہ کے لیے انجام پذیر ہو گیا۔ جنید جمشید خود کہتے ہیں کہ میں فائٹر پائلٹ بننا چاہتا تھا، نہیں بن سکا، ڈاکٹر بننا چاہتا تھا، نہیں بن سکا۔ انجینیئر بننا چاہتا تھا، نہیں بن سکا۔ گلوکار نہیں بننا چاہتا تھا لیکن بن گیا۔
جنید گلوکار بنے اور ایسے گلوکار بنے کہ 2003 میں بی بی سی کے ایک سروے کے مطابق ان کا ملی نغمہ 'دل دل پاکستان' دنیا کا تیسرا مقبول ترین گیت قرار پایا۔
لیکن جنید گلوکاری کے پڑاؤ پر بھی نہیں رکے۔ اس میدان میں شہرت، عزت اور دولت کمانے کے بعد انھوں نے ایک بار پھر اپنی سمت بدل دی اور شوبزنس کی چکاچوند چھوڑ کر مذہب کی دنیا کی طرف نکل گئے۔ ان کی سیمابی فطرت نے انھیں وہاں بھی ٹکنے نہیں دیا، اور وہ واپس آ گئے۔ انھوں نے ایک فلم میں کام کرنے لیے داڑھی بھی ترشوا دی۔ البتہ ان کی واپسی مختصر مدت ثابت ہوئی اور ایک بار پھر دین کی جانب لوٹ گئے۔ اسی دوران انھوں نے جے ڈاٹ کے نام سے ملبوسات کا کاروبار بھی شروع کر دیا جو آج پاکستان کے نمایاں ترین فیشن برینڈز میں سے ایک ہے۔

دوسرا قومی ترانہ

1987 میں پاکستانی ٹیلی ویژن پر ایک گانا سنائی دیا۔ چار لڑکے ایک کھلی جیپ میں بیٹھ کر ایک سبزہ زار میں آتے ہیں اور گانا شروع کر دیتے ہیں۔ انھی کے درمیان سبز شرٹ اور سفید پتلون میں ملبوس ایک دبلا پتلا نوجوان بھی ہے، جس کی آواز دھیمی اور ملائم ہے، لیکن اس کے باوجود آواز، شاعری، موسیقی، اور ان سب سے بڑھ کر کچھ ایسا جوش و جذبہ ہے کہ ساری چیزیں مل کر ایسی کیمسٹری پیدا کرتی ہیں کہ یہ گانا ملک کے ہر دل میں دھڑکنے لگتا ہے۔ آج دل دل پاکستان کو ملک کا دوسرا قومی ترانہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ بالی وڈ نے 'دل دل ہندوستان' کے روپ میں مکھی پر مکھی مارنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔

ظفر سید
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

Post a Comment

0 Comments