All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

پیکر علم و عمل علامہ شبیر احمد عثمانی

مولانا شبیر احمد عثمانی ،دارالعلوم دیو بند میں درس و تدریس کی خدمت انجام دیتے ہوئے کتب حدیث کا درس دیتے رہے۔ 1911ء یا اس کے پس و پیش کے زمانہ میں مراد آباد میں بہت بڑا جلسہ ہوا، اس جلسہ میں مولانا شبیر احمد عثمانی نے ’’العقل والنقل‘‘ کے نام سے اپنا ایک کلامی مضمون پڑھ کر سنایا، حاضرین نے بڑی داد دی۔ دیوبند کے حلقہ میں اس زمانہ میں یہ بات برملا کہی جاتی تھی کہ مولانا شبیر احمد عثمانی کو حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی کے علوم و معارف پر پورا حتوا ہے، وہ حضرت نانوتوی کے مضامین و معانی کو لے کر اپنی زبان اور اپنے طرزادا میں، اس طرح ادا کرتے تھے کہ وہ دل نشین ہوجاتے تھے۔ یہ خیال رہے کہ مولانا محمد قاسم صاحب کے مضامین نہایت غامض، دقیق اور مشکل ہیں، جن تک عوام کی پہنچ نہیں ہوسکتی۔ اس لیے ان کے مضامین اور حقائق کو سمجھنا، پھر زمانہ کی زبان میں اس کی تعبیر و تفہیم کوئی آسان بات نہ تھی اور اسی لیے مولانا شبیر احمد عثمانی کی تقریر و تحریر کی تعریف کی جاتی تھی۔ موصوف عربی تحریر و تقریر پر بھی اچھی طرح قادر تھے۔ مولانا محمود حسن جب مالٹا سے چھوٹ کر واپس آئے، تو عقیدت مندوں نے ہر سمت سے ان کو بلایا، مگر وہ خود تشریف نہ لے جا سکے، اپنے قائم مقام یا ترجمان کی حیثیت سے مولانا شبیر احمد عثمانی ہی کو بھیجا، ان مقامات میں سے خاص طور سے دہلی کے جلسہ میں ان کی نیابت نہایت یادگار اور مشہور ہے.

مولانا محمود حسن کی طرف سے مولانا عثمانی نے نہایت وَاشگاف تقریر فرمائی تھی اور اپنے اکابر دیوبند کے عقائد اور فقہی مسلک پر اچھی اور شستہ گفتگو کی۔ یہ ترجمانی اور نیابت مولانا شبیر عثمانی کے لیے نہ صرف فخر و شرف کا باعث بلکہ ان کی سعادت اور ارجمندی کی بڑی دلیل ہے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی بڑے خطیب و مقرر تھے، عالمانہ استدلال کے ساتھ بڑے دلچسپ قصے اور لطیفے بھی بیان کرتے تھے، جس سے اہلِمحفل کو بڑی دلچسپی ہوتی تھی اور ظریفانہ فقرے اس طرح ادا کرتے تھے کہ خود نہیں ہنستے تھے، مگر دُوسروں کو ہنسا دیتے تھے، اُن کی تقریروں میں کافی دلائل ہوتے تھے اور سیاسی و علمی وتبلیغی اور واعظانہ ہر قسم کے بیان پر اُن کو قدرت حاصل تھی، ذہانت و طباعی اور بدیہہ گوئی ان کی تقریروں سے نمایاں ہوتی تھی۔ اکبرؔ کے ظریفانہ اور فلسفیانہ شعر ان کو بہت یاد تھے، وہ ان کو اپنی تقریروں میں عُمدگی سے کھپاتے تھے۔ 

ان کی تحریر بھی صاف شستہ تھی اور اِس عصر کے اَچھے لکھنے والوں کے لٹریچر کو غور سے پڑھا تھا اور اُس سے فائدہ اُٹھایا تھا۔ جمعیۃ و خلافت کے جلسوں میں علماء کی بعض تجویزوں کی انگریزی بنانے میں بڑی دقت ہوتی تھی اس موقع پر مولانا محمد علی جوہر نے کہا تھا کہ: مولانا شبیر احمد عثمانی کی عبارت کی انگریزی بنانے میں بڑی آسانی ہوتی ہے کیونکہ اُس کی ساخت انگریزی طرز پر ہوتی ہے۔ موصوف کے مضامین اور چھوٹے رسائل تو متعدد ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اُن کے تصنیفی اور علمی کمال کا نمونہ اُردو میں ان کے قرآن کے حواشی ہیں، جو مولانا محمود حسن کے ترجمہ قرآن کے ساتھ چھپے ہیں، اُن حواشی سے مولانا مرحوم کی قرآن فہمی اور تفسیروں پر عبور اور عوام کے دل نشین کرنے کے لیے اُن کی قوت تفہیم حد بیان سے بالا ہے۔ 

مجھے اُمید ہے کہ اُن کے اُن حواشی سے مسلمانوں کو بڑا فائدہ پہنچا ہے، ان حاشیوں میں انہوں نے جا بجا اپنے ایک معاصر کی تصنیف کا حوالہ صاحب ارض القرآن کے نام سے دے کر اس بات کا ثبوت بہم پہنچایا ہے کہ و ہ معاصرانہ رقابت سے کس قدر بلند تھے۔ میں نے اپنے حلقہ درس میں اُن کے حواشی کی افادیت کی ہمیشہ تعریف کی ہے اور اُن کے پڑھنے کی ترغیب دی ہے۔ ان حواشی کی افادیت کا اندازہ اس سے ہو گا کہ حکومت افغانستان نے اپنے سرکاری مطبع سے قرآنی متن کے ساتھ مولانا محمود حسن کے ترجمہ اور مولانا شبیر احمد عثمانی کے حواشی کو افغانی مسلمانوں کے فائدہ کے لیے فارسی میں ترجمہ کروا کے چھاپا ہے۔ 

مولانا مرحوم نے کراچی پہنچ کر گو کوئی سرکاری عہدہ حاصل نہیں کیا، مگر مذہبی معاملات میں اُن کی حیثیت مشیر خاص کی تھی، اس لیے زبانِ خلق نے اُن کو ’’شیخ الاسلام‘‘ کہہ کر پکارا، جو اسلامی سلطنتوں میں عموماً قاضی القضاۃ کا لقب رہا ہے اور زیادہ تر اس لقب کی شہرت دولت عثمانیہ میں رہی، اسی حیثیت سے مولانا مرحوم پاکستان کی مجلس آئین ساز کے رکن بھی تھے اور اس جماعت کے روح رواں تھے، جو اس آئین کو اسلامی قالب میں ڈھالنا چاہتی ہے اور اس راہ میں مولانا مرحوم ہی کی ابتدائی کوشش کی کامیابی کا وہ نتیجہ تھا، جس کو پاکستان کی آئینی اصطلاح میں ’’قرار دادِ مقاصد‘‘ کہتے ہیں۔ مولانا مرحوم گو مستقل طور سے پاکستان چلے گئے تھے ،مگر تعجب ہو گا کہ انہوں نے نہ تو اپنا کوئی خاص گھر بنایا، نہ کسی کی ذاتی کوٹھی پر قبضہ کیا بلکہ بعض عقیدت مند اہل ثروت کے مکان میں رہے اور اسی مسافرت میں اس مسافر نے اپنی زندگی بسر کردی۔ مولانا مرحوم کی صحت آخری دنوں میں اچھی نہ تھی۔

1949ء میں پاکستان سے خیر سگالی کا ایک وفد حجاز جارہا تھا، اُس کے ممبروں میں مولانا مرحوم کا نام بھی تھا، مگر وہ اسی علالت کے سبب نہ جا سکے اور اُن کی جگہ مولانا ظفر احمد عثمانی گئے۔ مولانا مرحوم پر فالج کا اثر تھا، جس سے اُن کے دل و دماغ اور جسمانی قویٰ پر بڑا اثر تھا، اتفاقِ وقت یا تقدیر کا تماشہ دیکھیے کہ 17 صفر 69ھ مطابق 8 دسمبر 49ء میں جب سردی انتہائی نقطہ پر تھی، وہ جامعہ عباسیہ کی تعلیمی ضرورت سے ایک تقریب میں شرکت کے لیے کراچی سے بھاولپور گئے، جہاں سے سنا ہے کہ اُس وقت بڑی سردی تھی۔ 22 صفر 69ھ مطابق 13؍ دِسمبر 49ء کی صبح تک طبیعت بالکل ٹھیک ہی معلوم ہوتی تھی، خلاف معمول اس روز ایک پیالی کی بجائے دو پیالیاں چائے پی اور فرمایا رات کو کچھ حرارت رہی چنانچہ اسی وقت ڈاکٹر کو ٹیلی فون کر کے طلب کیا گیا۔

 ڈاکٹر نے بہت خفیف حرارت بتائی اور دوا دے دی۔ 10 بجے کے قریب سینہ میں غیر معمولی گھبراہٹ محسوس ہوئی، دوبارہ ڈاکٹر کو بلایا گیا، نبض کی رفتار اس وقت اپنی طبعی رفتار سے کچھ کم تھی، ایک طبیب اور دوسرے ڈاکٹر کو بھی طلب کرلیا گیا۔ بہاولپور کے وزیر تعلیم اور وزیر مال بھی پہنچ گئے، چار پانچ انجکشن دئیے گئے، مگر نبض کی رفتار کم ہوتی گئی، آخر 11 بج کر 50 منٹ پر یہ آفتاب علم غروب ہوگیا۔ میت اُسی روز شام کو بذریعہ پاکستان میل 7 بجے کے قریب بہاولپور سے کراچی روانہ کی گئی، اُسی روز شام کو پاکستان کے اس مایۂ ناز عالم باعمل کو لاکھوں اشک بار آنکھوں اور سوگواروں نے سپرد خاک کیا۔ ڈیرہ نواب کے اسٹیشن پر نواب صاحب بہاولپور نے میت کی زیارت کی اور اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ کراچی کے اسٹیشن پر مسلمانوں کے بہت بڑے مجمع نے میت کو اُتارا اور پہلے مولانا مرحوم کی قیام گاہ پر لائے اور وہاں سے اُن کی قیام گاہ کے سامنے ایک زمین میں جس کو عامل کالونی کہتے ہیں، دفن کیا گیا۔  

Post a Comment

0 Comments