All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

کیوبا سے سیکھنے کو بہت کچھ

گزشتہ اتوار امریکی صدر بارک اوباما کا ہوانا کے ہوزے مارتی ائیرپورٹ پر اترنا
اور تین دن کیوبا میں گزارنا اس صدی کے چند اہم واقعات میں شمار ہو گا۔ عالمی میڈیا پر یہ تاریخ ساز دورہ بیس تا بائیس مارچ چھایا رہا۔ پاکستانی میڈیا بھی ضرور اہمیت دیتا اگر کولکتہ میں بھارت کے ہاتھوں شکست خوردہ پاکستانی ٹیم کو کوسنے سے فرصت ملتی۔ امریکی ریاست فلوریڈا سے محض نوے میل کی دوری پر کیوبا بحیرہ کیربین کا سب سے بڑا جزیرہ ہی نہیں بلکہ پچھلے ستاون برس سے  ایسا مزاحمتی جہاز ہے جس پر گیارہ ملین ملاح سوار ہیں۔ کہنے کو کیوبا آج بھی براعظم جنوبی امریکا کا سب سے غریب ملک ہے مگر سب سے زیادہ خود دار اور معیارِ زندگی  کے اعتبار سے تیسری دنیا کے بہترین ممالک میں ہے۔

نام نہاد مہذب دنیا کو کیوبا کے بارے میں چودہ سو بانوے میں علم ہوا جب کرسٹوفر کولمبس یہاں اترا۔ تب سے اگلے ساڑھے چار سو برس تک کیوبا ہسپانوی نوآبادی رہا اور ہسپانویوں نے اسے غلاموں کی منڈی اور گنے اور تمباکو کے بڑے سے کھیت کی شکل میں برقرار رکھا۔ اٹھارہ سو اٹھانوے میں اسپین سے جنگ کے نتیجے میں کیوبا پر امریکا نے قبضہ کر لیا اور چار برس بعد اسے کٹھ پتلی مقامی حکمرانوں کی شکل میں ایک ہاتھ سے آزادی کا سراب تھمایا اور دوسرے ہاتھ سے جزیرے کے ایک کونے پر بحری اڈہ قائم کرنے کے لیے گوانتانامو کا لگ بھگ پینتالیس مربع میل کا ٹکڑا پٹے پر حاصل کر لیا۔ اس قطعہِ اراضی کا کرایہ چار ہزار پچاسی ڈالر سالانہ طے پایا۔ لیکن انیس سو انسٹھ کے بعد سے کیوبا نے گوانتانامو پر امریکی قبضہ کو ناجائز قرار دیتے ہوئے مارے خودداری کے کرائے کا سالانہ چیک وصولنے سے انکار کر دیا۔
جب انیس سو انسٹھ میں فیدل کاسترو کے چھاپہ ماروں نے امریکی کٹھ پتلی صدر فلجینکیو بتستا کا تختہ الٹا اور کیوبائی معیشت کو آکٹوپس کی طرح جکڑنے والی امریکی کمپنیوں اور اثاثوں کو قومیا لیا تو امریکا نے اس دو ٹکے کے  ملک کو اوقات یاد دلانے کا فیصلہ کیا۔ انیس سو اکسٹھ میں سی آئی اے کی مدد سے مفرور کیوبائیوں کی ایک فوج بنا کے کیوبا کے ساحل پر اتارا گیا مگر کاسترو کے دستوں نے اس کا تُرنت صفایا کر دیا۔ امریکا نے اثاثوں کی واگزاری تک کیوبا کی اقتصادی ناکہ بندی کر دی۔ یہ ناکہ بندی اتنی سخت تھی کہ اگر کسی ملک یا کمپنی کا بحری جہاز کیوبا میں لنگر انداز ہو گا تو اس کا کسی بھی امریکی بندرگاہ میں داخلہ حرام ہو گا۔

کاسترو قوم پرست ضرور تھا مگر جس روز امریکا نے ناکہ بندی کی کیمونسٹ بھی ہو گیا۔ سوویت یونین نے چینی کی پوری پیداوار خریدنے اور اس کے عوض تیل، غلہ اور بھاری مشینری دینے کااعلان کیا۔ جب انیس سوباسٹھ میں جزیرے پر سوویت ایٹمی میزائلوں کی موجودگی کا انکشاف ہوا تو امریکا اور سوویت یونین میں ایسی ٹھن گئی کہ دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر پہنچ گئی۔ کینیڈی انتظامیہ نے کیوبا کی فوجی ناکہ بندی کر دی۔ امریکی پچھواڑے میں سوویت پہنچ کا مظاہرہ دکھانے اور اس کی عالمی پبلسٹی کا آنند لینے کے بعد سوویت کیمونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل خروشچیف نے یہ میزائیل ہٹانے کا اعلان کر دیا۔
جیسے جیسے امریکی رویہ سخت ہوتا گیا کیوبا بھی لوہے کا چنا ہوتا گیا۔ سی آئی اے نے فیدل کاسترو کو ہلاک کرنے کی خفیہ کوششیں ستر کے عشرے تک جاری رکھیں۔ اس عرصے میں  کیوبا نے نہ صرف جنوبی امریکا میں واشنگٹن مخالف بائیں بازو کی نظریاتی و مسلح قوتوں کی ہر طرح سے مدد کی بلکہ افریقہ میں بھی سرد جنگ کے دوران ایتھوپیا سے انگولا تک امریکی مفادات کے خلاف ہراول دستے کا کردار نبھایا۔

افریقہ میں کاسترو کو سب سے بڑا مداح نیلسن منڈیلا کی شکل میں مل گیا۔ جب پورا مغرب جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کی علمبردار گوری اقلیتی حکومت کی پشت پر تھا کیوبا افریقن نیشنل کانگریس کی مدد کر رہا تھا۔ منڈیلا نے ستائیس برس کی قید سے رہائی کے بعد جن دو ممالک کا سب سے پہلے دورہ کیا وہ قذافی کا لیبیا اور کاسترو کا کیوبا تھا۔ منڈیلا نے دونوں سے کہا ’’اگر تم نہ ہوتے تو ہمیں جلد آزادی نہ ملتی‘‘۔ سوال یہ ہے کہ صدر اوباما کو اس وقت کاسترو کے کیوبا میں اترنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کچھ بنیادی وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ سرد جنگ کا زمانہ قصہِ پارینہ ہو چکا اور اس کی جگہ گلا کاٹ عالمی معاشی مقابلے نے لے لی ہے۔

دوم یہ کہ امریکا نے انسٹھ برس کے دوران ہر طرح سے ہر کوشش کر دیکھی مگر کیوبا کو قدموں پر نہ جھکا سکا۔ سوم یہ کہ کاسترو کے انقلاب کے بعد جو ہزاروں کیوبائی فرار ہو کر امریکا پہنچے وہ کاسترو کے کٹر سیاسی مخالف اور ریپبلیکنز اور ڈیموکریٹس کے لیے ایک اہم ووٹ بینک ضرور تھے مگر اب اس معدوم ہوتی نسل کی جگہ اس جوان کیوبائی نسل نے لے لی ہے جو سیاسی پناہ سے زیادہ معاشی وجوہات کے سبب کیوبا سے امریکا منتقل ہوئے ہیں۔ چنانچہ کاسترو حکومت سے ان کی مخالفت میں پہلی نسل جیسا کٹر پن نظر نہیں آتا۔
چہارم یہ کہ امریکی صدر اپنی دوسری اور آخری مدتِ اقتدار میں کچھ ایسا کرنے کی کوشش ضرور کرتا ہے کہ تاریخ کے حافظے میں محفوظ رہے۔ اوباما مسئلہ فلسطین یا شام کی خانہ جنگی کا معاملہ حل نہیں کرا سکے مگر کیوبا سے تعلقات معمول پر لانے کا کریڈٹ یقیناً انھی کو ملے گا۔ ایک برس پہلے کون تصور کر سکتا تھا کہ کوئی امریکی صدر ہوانا میں چی گویرا کے میورل کے سامنے فیملی گروپ فوٹو کھچوا رہا ہو گا۔

کیوبا کو بھی امریکیوں سے جپھی ڈالنے کی اتنی عجلت نہیں تھی۔ مگر دنیا بدل رہی ہے تو کیوبا کے کٹر رویے پر بھی اثر تو پڑنا تھا۔ دونوں ممالک کے بیچ غلط فہمیاں دور کرانے میں پوپ فرانسس نے کلیدی کردار ادا کیا اور کینیڈا نے دونوں ممالک کے درمیان خفیہ مذاکرات کی میزبانی کی۔ ویسے بھی کیوبا عملاً ثابت کر چکا تھا کہ تمنا ہو تو ہر طرح کے حالات میں سر اٹھ کے عزت سے جیا جا سکتا ہے۔ کہنے کو کیوبا کی فی کس آمدنی آج بھی سو ڈالر ماہانہ ہے۔ لیکن تمام آبادی کو صحت، صاف پانی اور سینی ٹیشن کی سہولتیں میسر ہیں۔ چنانچہ اوسط عمر اٹھتر برس ہے جو امریکا سے بھی زیادہ ہے۔ کیوبا کے تیس ہزار ڈاکٹر اس وقت دنیا کے سو سے زائد ممالک میں رضاکارانہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ جنوبی امریکا کے متعدد ممالک میں کیوبا کے ماہرِینِ امراض چشم مفت آئی کیمپ لگا کے پچھلے دس برس میں لگ بھگ ساڑھے تین لاکھ مریضوں کو بینائی لوٹا چکے ہیں۔

مغربی افریقہ کے چودہ ممالک میں کیوبا ملیریا کے خلاف جہاد میں مصروف ہے۔ سن دو ہزار آٹھ کے زلزلے میں پاکستان کی مدد کے لیے کیوبا نے جان بچانے کے آلات سے مسلح تین سو ڈاکٹر بھیجے۔ گزشتہ اٹھارہ برس میں کیوبا تیسری دنیا کے بیس ہزار طلبا کو اپنے طبی اداروں میں پری وینٹو طریقہِ علاج کی تربیت دے چکا ہے۔ کیوبا تیسری دنیا میں سستی اور موثر دواؤں کی ریسرچ پر سب سے زیادہ پیسہ خرچ کرتا ہے اور اس بابت ملٹی نیشنل ڈرگ کمپنیوں کے چنگل سے آزاد ہے۔ تعلیم پر قومی بجٹ کا تیرہ فیصد خرچ ہوتا ہے۔ پرائمری تا یونیورسٹی مفت اور چھ سال سے سولہ برس کی عمر تک لازمی ہے لہذا شرح خواندگی سو فیصد ہے۔ سوشل سیکیورٹی کے نظام کے تحت ہر خاندان کی قومی انشورنس، ہر کارکن کی انفرادی انشورنس اور ہر معذور کے لیے ڈس ایبلٹی الاؤنس میسر ہے۔ تنخواہیں کم ہیں مگر کام سے کوئی محروم نہیں۔ بیس فیصد افرادی قوت چھوٹا ذاتی کاروبار کرتی ہے۔

چنانچہ جب بارک اوباما نے ہوانا کے پیپلز پیلس میں  کھڑے ہو کر کیوبا میں انسانی حقوق کے احترام اور انفرادی آزادیوں کی بحالی کی بات کی تو صدر راؤل کاسترو نے امریکا کا نام لیے بغیر چوٹ کی کہ جو ملک اپنے تمام شہریوں کو صحت، تعلیم، روزگار اور سماجی تحفظ فراہم نہ کر سکے وہ کیسی مثالی جمہوریت ہے۔ انسانی حقوق اور کیا ہوتے ہیں؟ جمہوریت میں سب شہریوں کی شراکت ہونی چاہیے نفع و نقصان سمیت۔ جدید کیوبا کے بانی فیدل کاسترو کئی برس سے علیل ہیں۔ دو ہزار آٹھ میں انھوں نے عنانِ اقتدار چھوٹے بھائی راؤل کے سپرد کر دی۔ راؤل نے ون پارٹی سسٹم کے اندر شہریوں کو محدود پیمانے پر نجی کاروبار کی گنجائش فراہم کی ہے۔ اوباما کی فیدل کاسترو سے ملاقات نہیں ہو سکی۔ ان کے دورے سے قبل فیدل سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ذاتی طور پر میں امریکیوں پر اعتبار نہیں کرتا مگر کیوبا کو کس سمت جانا ہے یہ فیصلہ حکومت اور لوگ کریں۔

اوباما کے قیام کے دوران میڈیائی فوج کے علاوہ لگ بھگ بارہ سو امریکی سرمایہ کار اور تاجر بھی کیوبا آئے۔ کیوبا کے پسماندہ انٹر نیٹ نظام کو فعال بنانے اور سیاحت کی صنعت میں امریکی سرمایہ کاری کے کچھ سمجھوتوں پر بھی دستخط ہوئے۔ دہشت گردی کو فروغ دینے والے ممالک کی امریکی فہرست سے کیوبا سال بھر پہلے خارج ہو چکا ہے مگر کیوبا کے خلاف  امریکی اقتصادی پابندیاں ہٹانے کا فیصلہ امریکی کانگریس کو کرنا ہے اور کانگریس میں فی الحال ری پبلیکنز کی اکثریت ہے۔ ویسے بھی امریکا میں یہ الیکشن کا سال ہے۔ مگر جو پیشرفت ہو چکی اسے پیچھے دھکیلنا کسی بھی نئی امریکی انتظامیہ یا کانگریس کے لیے خاصا مشکل ہو گا۔ اصل چیلنج اب کیوبا کو درپیش ہو گا کہ وہ امریکی سرمایہ دار سے گلے ملتے ہوئے شیروانی کے بٹن کیسے بچاتا ہے۔ فی الحال تو ہوانا میں امریکی سفارتخانے کے سامنے کی دیوار پر عرصے سے سرخ جلی حروف میں ’’سوشلزم یا موت‘‘  لکھاہے جسے دیکھ دیکھ کے بالکونی میں کھڑے امریکی سفارتکاروں کے منہ میں دبے ہوانا سگار کا کش اور گہرا دھواں چھوڑتا ہے۔

 وسعت اللہ خان

Post a Comment

0 Comments