All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

’انڈین مسلمانوں میں بے روزگاری کا موذی چکر‘

وقار احمد 15 سال پہلے غربت زدہ مشرقی اترپردیش میں اپنا گھر بار چھوڑ کر
پڑھنے کے لیے دلی آئے تھے۔ آنکھوں میں بہتر مستقبل کے خواب تھے اور دل میں محنت کرنے کا عزم لیکن ان کی زندگی نہیں بدلی اور اب امید کا دامن بھی چھوٹتا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ '2006 میں اپنا ایم بی اے مکمل کرنے کے بعد محسوس ہوا کہ ہم مارکیٹ میں قدم جما سکتے ہیں اور گھر والوں کو بھی بہت امید تھی اس لیے لاکھوں روپیہ خرچ کر کے دہلی جیسے مہنگے شہر میں رکھا بھی اور پڑھایا بھی۔ دس سال ہو گئے ایم بی اے کیے ہوئے۔ چھوٹی موٹی کئی نوکریاں کیں، لیکن کچھ سالوں سے تو یہ مسلسل جاری ہے کہ ہمارے پاس بالکل جاب نہیں ہے اور اب تو یہ حالت ہے کہ امید ہی ختم ہوتی جا رہی ہے۔' وقار کی کہانی انڈیا میں لاکھوں مسلمان نوجوانوں کی کہانی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 'پہلے میں سوچتا تھا کہ صرف میں ہی بے روزگار ہوں لیکن ایک حالیہ رپورٹ سے پتہ چلا کہ انڈیا کے مسلمانوں میں تو دو تہائی سے زیادہ لوگ کسی معاشی سرگرمی کا حصہ نہیں ہیں اور ایک طرح سے بے روزگار ہیں۔'
ان کے مطابق یہ مسئلہ اب فرد واحد کا نہیں بلکہ اس سے کہیں بڑا ملکی اور ملی سطح کا مسئلہ ہے۔'ملک کی کسی بھی سرگرمی مسلمانوں کو شامل نہیں کیا جا رہا ہے، چاہے وہ بیوروکریسی ہو، چاہے عدلیہ ہو چاہے سیاست ہو، کہی ہماری شراکت داری نہیں ہے۔' انڈیا میں بےروزگاری ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن مسلمانوں کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے۔ اپنی زبوں حالی کے لیے بہت سے لوگ حکومت اور مذہبی تعصبات کو ذمہ دار مانتے ہیں تو بعض مسلمانوں میں تعلیم کی کمی کو۔ دہلی میں طلبہ کی سرگرم کارکن اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی طالبہ راحیلہ پروین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں میں جدید تعلیم کی کمی اس کا سبب ہے۔ وہ مدرسے کے روایتی نظام میں تبدیلی چاہتی ہیں کیونکہ ان کے خیال میں جدید دور میں مقابلہ سخت ہے اور مدرسے سے تعلیم حاصل کرنے والے کہیں پیچھے رہ گئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ مدرسے کے تعلیمی نظام پر ایک لمبی بحث جاری ہے کہ اسے کس طرح جدید بنایا جائے اور سائنس اور ٹیکنالوجی سے جوڑا جائے۔ ان کے مطابق جدید تعلیم کے بغیر مدرسے سے پڑھ کر آنے والے طلبہ و طالبات ماڈرن کانونٹ سکول کے جدید تعلیم حاصل کیے ہوئے طلبہ سے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں اور پھر وہ اس دوڑ میں کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ تاہم دہلی کی معروف جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں شعبۂ سماجیات کے استاد تنویر فضل ان سے اتفاق نہیں کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ سکول جانے والی عمر کے مسلمان بچوں میں سے صرف چار فیصد ہی مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ سچر کمیٹی (سابقہ حکومت کی قائم کردہ کمیٹی) کے بعض جائزوں میں وہ بھی شامل تھے اور 'ہم نے دیکھا کہ مسلمانوں کے انھی علاقوں میں مدارس زیادہ ہیں جہاں ان کے لیے سکول دستیاب نہیں ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان کے اکثریتی آبادی والے علاقوں میں سکول قائم کرے کیونکہ مسلمان ان کی عدم موجودگی میں ہی مدرسوں کا رخ کرتے ہیں۔' تاہم ان دونوں ماہرین اس بات پر متفق تھے کہ مسلمانوں میں تعلیم ادھوری چھوڑنے والوں کا تناسب بہت زیادہ ہے اور دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم ترک کر دینے کی شرح لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ جبکہ شہروں میں یہ تناسب کم ہے۔

سنہ 2015 میں انڈیا کے نائب صدر حامد انصاری نے مسلمانوں کے حالات بہتر بنانے کے لیے حکومتی اور معاشرتی سطح پر مثبت اقدامات کیے جانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ اس سے پہلے حکومت کی قائم کردہ رنگناتھ مشرا کمیٹی نے مسلمانوں کو دس فیصد ریزرویشن دینے کی تجویز دی تھی۔ لیکن ان سفارشات پر کبھی عمل نہیں کیا گیا۔ حکومت کی قائم کردہ ایک نئی کمیٹی کا کہنا ہے کہ ملازمتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی بڑھی ہے لیکن خاطر خواہ نہیں۔ اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں تو اس میں اضافہ ہی نہیں دیکھا گیا ہے۔ کارپوریٹ شعبے میں بھی مسلمانوں کی نمائندگی بہت کم ہے لیکن عام تاثر یہ ہے کہ تعصب کی وجہ سے نہیں۔ ایک بین الاقوامی کمپنی کے لیے کام کرنے والے نوجوان محمد عبدالحفیظ کا کہنا ہے کہ وہ بھی بے روزگاری سے پریشان رہے ہیں لیکن اس شعبے میں تعصبات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ انھوں نے کہا: 'کارپوریٹ میں اگر آپ کے پاس صلاحیت ہے تو آپ کو کام مل جاتا ہے لیکن پھر بھی وہاں مسلمانوں کی نمائندگي بہت کم ہے۔'

ڈاکٹر تنویر فضل کا کہنا ہے مسلمانوں کی حالت زار کی بنیادی وجہ غربت ہے
تنویر فضل کا کہنا ہے کہ مسلمان روایتی طور پر ہنر اور کاریگری کے شعبے سے منسلک رہے ہیں۔ اور وہ جدید معاشی نظام کا حصہ نہیں بن پائے۔ ان کے خیال میں مسلمانوں میں بے روزگاری ایک ایسا موذی چکر ہے جس کا حل نہیں۔ یعنی مسلمانوں میں بے روزگاری اس لیے ہے کہ ان میں تعلیم نہیں اور تعلیم اس لیے نہیں کہ ان میں غربت ہے اور غربت کی وجہ بے روزگاری ہے۔ انھوں نے کہا کہ 'بنیادی مسئلہ غربت کا ہے اور اس کا تدارک کیے بغیر مسلمان کو مرکزی دھارے میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔'

دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے پاس ایک چائے خانے میں بیٹھے ایک نوجوان نے کہا کہ 'مسلمانوں کی ہر نسل صفر سے اپنا سفر شروع کرتی ہے۔ اور ہر نسل ایک ہی طرح کی جدوجہد کرتی نظر آتی ہے۔' وقار احمد کا کہنا ہے کہ 'مسلمان میں صلاحیت کی کمی نہیں، وہ اپنی صلاحیت، اپنا ہنر، اپنی تعلیم، اپنی وطن پرستی ہتھیلی پر لیے کھڑا ہے اور کہتا ہے کہ مجھ سے کام لو لیکن کوئی دست گیری کرنے والا نہیں، کوئی پرسان حال نہیں۔ نہ ہی حکومت اور نہ ہی کوئی اور۔'
گو کہ مسلمانوں کے لیے منزل ابھی دور ہے اور راستہ دشوار گزار ہے لیکن ان نوجوانوں نے ابھی ہمت نہیں ہاری ہے تاہم انتظار کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔

مرزا اے بی بیگ
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دہلی

Post a Comment

0 Comments