All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

کشمیر ڈائری : ’یہ برابری کی جنگ نہیں ہے‘

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں تقریباً چار ماہ سے جاری احتجاج کی لہر، تشدد اور
کرفیو کا کشمیریوں پر کیا اثر پڑا ہے؟ بی بی سی اردو نے سرینگر کی رہائشی ایک خاتون سے رابطہ کیا جن کے تجربات و تاثرات کی دسویں کڑی یہاں پیش کی جا رہی ہے۔ کشمیر میں مواصلاتی بلیک آؤٹ جزوی طور پر ختم ہوا ہے۔ لینڈ لائن اور موبائل فون کی سہولت تو بحال کر دی گئی ہے لیکن موبائل انٹرنیٹ سروس بدستور بند ہے جس کی وجہ سے یہ تحریریں آپ تک بلاتعطل پہنچانے میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ کشمیر میں سنہ 2016 کی مزاحمت پانچویں مہینے میں داخل ہو گئی ہے۔ آج اس کا 128 واں دن ہے۔ اس دوران ہماری ثابت قدمی اور ہمارے ارادوں کی مضبوطی کے کئی امتحان ہوئے۔ ہم تو امتحانوں کے عادی ہو گئے ہیں۔ اس دوران ہندوستان نے بھی بربریت کے نئے مقام سر کر لیے جس کے شکار چار سالہ بچے سے لے کر 80 سالہ بوڑھے بھی ہو گئے۔

جہاں ہندوستانی فوجیوں نے لوہے کی سلاخوں، چاقو اور ڈنڈے لے کر رات کے اندھیرے میں گھروں میں گھں کر بچوں اور بڑوں کی شدید پٹائئ کی، عورتوں کی بے عزتی کی اور سامان تہس نہس کیا، وہاں ہمارے رضاکاروں نے زخمیوں اور ان کے تیماداروں کے لیے ہسپتالوں میں مہینوں کھانا نہ کھایا۔ جہاں ہندوستانی فوجیوں نے ایک مہینے کے اندر 13 لاکھ چھرے نہتے لوگوں پر داغے اور سینکڑوں لوگوں کو اندھا بنایا، وہاں ہمارے ڈاکٹروں نے آنسو گیس سے بھرے ہسپتالوں میں دن رات ان چھروں اور گولیوں سے زخمی لوگوں کے علاج کیے۔
جہاں ایک طرف سے زخمیوں سے بھری ایمبولینس کے ڈرائیور پر گولی چلائی گئی وہاں اسی ڈرائیور نے اپنے زخموں کا خیال نہ کرتے ہوئے پہلے ایمبولینس میں پڑے زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا پھر اپنے زخموں کا علاج کروایا۔
جہاں حکومت نے لگاتار کرفیو لگا کر چھوٹے بچوں کو دودھ سے اور بیماروں کو ان کی دوا سے محروم کیا وہاں ہم نے ایکسیڈنٹ میں زخمی ہندوستانی یاتریوں کے زخموں پر مرہم لگائی۔ ہماری آزادی کی یہ جنگ برابری کی جنگ نہیں ہے۔ جہاں ہم اپنے جائز حق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں وہاں انڈیا کی سرکار کشمیر پر اپنے ناجائز قبضے کو قائم رکھنے کے لیے وحشیانہ طرز عمل کے سبب حدیں پار کر رہی ہے۔ کچھ دن پہلے ایک کتاب پڑھنے کے دوران اس میں ایک فقرہ نظر سے گزرا جسے پڑھ کر غصہ بھی آیا اور دکھ بھی ہوا۔ کشمیر کے سابقہ گورنر جگموہن نے سنہ 1990 میں کہا تھا 'کشمیر کا حل صرف گولی ہے۔' یہ وہی جگموہن ہیں جن کی بطور گورنر حلف اٹھانے کے ایک دن بعد سرینگر میں 'گو کدل' کا قتل عام ہوا جس میں 52 نہتے شہریوں کو ہندوستانی فوجیوں نے گولیاں برسا کر مار ڈالا۔

جگموہن کا دور کشمیر کا ایک سیاہ دور تھا۔ یہی جگموہن جو سابقہ افسر شاہی کا فرد تھا اب بی جے پی کے ممبر بن گئے ہیں۔ انھیں کو سنہ 2016 کے شروع میں بی جے پی سرکار نے ہدوستان کے دوسرے بڑے اعزاز پدما ویبھوشن سے بھی نوازا۔ جس ملک کی سرکار اور اس کے حرکاروں کی ایسی سوچ ہو اس ملک سے جمہوریت یا انسانیت کی آپ کیا امید کر سکتے ہیں؟ جیسا کہ میں نے کہا یہ برابری کی جنگ نہیں ہے۔


Post a Comment

0 Comments