All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

لُڈن...ضلع وہاڑی کا مشہور قدیم قصبہ

ضلع وہاڑی کا مشہور قدیم قصبہ۔ دریائے ستلج سے قریباً ۸ کلومیٹر کے فاصلے پر شمال کی طرف وہاڑی حاصل پور روڈ، بوریوالہ اور کرم پور کے سنگم پر واقع ہے۔ پرگنہ لڈن میں اسلام کی اشاعت ۷۱۳ء میں محمد بن قاسم کی آمد ہی سے شروع ہو گئی تھی، جب محمد بن قاسم نے کھوتو وال موجودہ دیوان صاحب کے راجہ کو شکست دی اور شیخ چاولی مشائخ دیوان حاجی شیر صاحب مشرف بہ اسلام ہوئے۔ بعدازاں بابا فرید شکر گنج کی برکات سے علاقے کے تمام قبائل اسلام کی روشنی سے منور ہوئے۔ لُڈن میں مقیم دولتانہ خاندان جوئیہ قبیلہ کی مشہور شاخ ہے ۔ یہ خاندان یہاں کا قدیم رہائشی ہے۔ جوئیہ ان قبائل میں سے ہے، جو سکندر اعظم کے حملہ سے بھی پہلے دریائے ستلج کے کنارے آباد ہوئے۔ ماضی میں میلسی سے ۹ میل جنوب کی طرف دریائے ستلج کے قریب اکبری عہد میں فتح پور کا قصبہ جوئیہ خاندان کی ریاست کا صدر مقام تھا۔
اس ریاست میں موجودہ ضلع وہاڑی کا بھی سارا علاقہ شامل تھا۔ لُڈن اس دور سے بھی پہلے کا آباد شدہ قصبہ ہے۔ شیر شاہ سوری کے زمانے میں صوبہ ملتان اور دارالخلافہ دہلی کو ملانے والی جرنیلی سڑک لُڈن کے مقام سے گزر کر جاتی تھی اور یہاں جامع مسجد کے قریب ان کی ڈاک چوکی تھی۔ ۱۷۷۹ء میں نواب مظفر خان ملتان کا صوبیدار بنا تو اس نے زیر قبضہ علاقوں کو ۱۳پرگنوں میں تقسیم کیا، ان پرگنوں میں شجاع آباد، کروڑپکا، میلسی، تلمبہ، مظفر گڑھ کے ساتھ ساتھ ایک تعلقہ لڈن بھی تھا۔ بعدازاں یہ علاقہ سکھوں کے قبضہ میں آگیا۔ ۱۸۴۹ء میں جب انگریزوں نے اس سارے علاقے پر قبضہ کیا تو میلسی کو تحصیل کا درجہ دے کر ضلع ملتان میں شامل کیا گیا اور لُڈن ضلع ملتان کی سب تحصیل قرار پائی۔ یہ انتظام ۱۹۴۲ء تک قائم رہا، جب وہاڑی کو تحصیل میلسی سے علیحدہ کر کے نئی تحصیل بنائی گئی اور لُڈن کی سب تحصیل کی حیثیت ختم کر کے اسے وہاڑی میں ضم کر دیا گیا۔ اس علاقے کی زمین بہت زرخیز ہے۔ گندم، گنا اور کپاس اس کی اہم فصلیں ہیں۔ اس کے علاوہ سورج مکھی، مکئی، سبزیاں اور چارہ جات پیدا ہوتے ہیں۔ کہیں کہیں کیلے، آم، امرود اور بیری کے باغات بھی پائے جاتے ہیں۔ لُڈن میں زرعی پیداوار کا لین دین وسیع پیمانے پر ہوتا ہے۔

اردگرد کئی جننگ فیکٹریاں کام کر رہی ہیں۔ جبکہ مقام طور پر مٹی کے برتن، زرعی آلات، زیورات اور لکڑی کے کام سے متعلقہ شعبوں سے بہت سے لوگ وابستہ ہیں۔ گھریلو دستکاریوں میں کپڑوں کی سِلائی کڑھائی کے علاوہ یہاں پر جوتے بنانے کی صنعت بہت اہم ہے۔ خصوصاً یہاں کے ’’کُھسّے‘‘ اور تِلہ کا کام بہت مشہور ہے۔ نیزشالیں، چادریں اور لاچے وغیرہ بھی بنائے جاتے ہیں۔ لُڈن کے علاقہ کی نیلی نسل کی بھینسیں بہت مشہور ہیں۔ خصوصاً سنپال قبیلہ کی بھینسیں اپنی پہچان آپ ہیں۔ یہاں ہر گھر میں بھینسیں، گائیں، بھیڑ بکریاں اور مرغیاں پالی جاتی ہیں۔ لُڈن میں ہر بدھ کو ایک منڈی مویشیاں لگتی ہے، جہاں پر سینکڑوں مویشیوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ جہاں تک علاقے کے ذرائع آبپاشی کا تعلق ہے تو ماضی میں غلام محمد خان دولتانہ نے دریائے ستلج سے نہر غلام واہ نکلوائی اور غلام مصطفی خاکوانی نے نہر حاجی واہ (دیوان واہ) نکلوائی تھی۔

علاو ہ ازیں کرم خان دا دپوترہ نے کرم واہ نکلوائی تھی جو کہ انگریزی نہری نظام آنے تک جاری رہیں۔ جن کی خشک گزرگاہیں آج بھی موجود ہیں۔ ہیڈ سلیمانکی اور ہیڈ اسلام بننے کے بعد ۱۹۲۹ء میں اس علاقے کو نہر پاکپتن کی ایک برانچ کھادر نہر اور اس کے سب مائنر سیراب کرنے لگے۔ جدید نظام آبپاشی کی بدولت علاقے میں خوشحالی اور ترقی کا دور دورہ ہوا۔ لُڈن دریائے ستلج کے کنارے پر واقع بہت قدیم گزرگاہ ہے، جہاں پر بہادر نڈر اور بے باک قومیں آباد ہیں جنہوں نے ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں اور غیر حکمرانوں سے پنجہ آزمائی کی اور علاقائی سلامتی کے لئے ہمیشہ افرادی قوت فراہم کی جن میں سرفہرست جوئیہ، دولتانہ، خاکوانی، سیّد، ارائیں، ورک، لنگڑیاں، سنپال، کملانہ، نونازی، سہو، بھٹی ، چدھڑا ور جٹ قبائل شامل ہیں۔ لُڈن کی قابل ذکر عمارات میں یہاں کی جامع مسجد، ڈیرہ میاں ممتاز خاں دولتانہ اور ڈیوڑھی میاں ریاض خاںدولتانہ شامل ہیں۔ ڈیرہ میاں ممتاز خاں دولتانہ کا لکڑی کا بہت بڑا گیٹ ہے جس پر بہت خوبصورت پچی کاری کی گئی ہے۔ گیٹ کے اندر رہائشی عمارتیں اور مہمان خانہ ہیں۔ جاگیردارانہ انتظام کے دور کی یادگار قید خانے کے کمرے ا ور ملحقہ باغ ہے۔ جبکہ ڈیوڑھی میاں ریاض دولتانہ میں خانگی رہائش گاہیں ہیں۔ جامع مسجد خوبصوت ٹائلوں سے مزین ہے جبکہ اس میں بہت بڑے محرابی گیٹ نصب ہیں۔ قریباً دس ہزار نمازیوں کے لئے گنجائش ہے۔

اسد سلیم شیخ

 (کتاب ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبس) 

Post a Comment

0 Comments