All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

چیچہ وطنی : ضلع ساہیوال کا ایک شہر اور تحصیل

ضلع ساہیوال کا ایک شہر اور تحصیل ۔ ساہیوال سے 45 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے راوی کے کنارے پر واقع ہے۔ اس دریا کے پُل کے ذریعے یہ ضلع فیصل آباد، ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ اور ضلع جھنگ سے مربوط ہے۔ یہ علاقہ قدیم تہذیبوں کا حصہ رہا۔ ہڑپہ یہاں سے ۲۰ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، جو قریباً چار ہزار سال قدیم تہذیب کی نشانی ہے۔ چیچہ وطنی کو صدیوں پہلے ’’چچ‘‘ قبیلے نے آباد کیا تھا۔ اس لیے اسے چیچہ وطنی کہا جانے لگا۔ کئی مرتبہ یہ دریا کی نذرہوا۔ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ پرانی چیچہ وطنی کا جغرافیہ بھی تبدیل ہو گیا اور اس بستی نے آگے بڑھ کر جرنیلی سڑک کوچھو لیا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے پرانی بستی کے مکینوں نے جرنیلی سڑک کے دونوں اطراف میں ایک نئی بستی آباد کرلی، جسے ’’چیچہ وطنی روڈ‘‘پکارا جانے لگا۔

انگریزوں کے ابتدائی عہد میں ۱۸۶۴ء میں لاہور تا کراچی ریلوے لائن پُرانے شہر سے پانچ کلومیٹر دور بنائی گئی تو ضرورت کے مطابق ایک ریلوے سٹیشن چیچہ وطنی روڈ کے نام سے بنایا گیا،جس کے جنوب میں ۱۹۱۸ء میں آباد کاری سکیم کے تحت نیا شہر بنایا گیا۔ ۱۹۱۹ء تک یہاں ریلوے سٹیشن کے علاوہ ڈسپنسری، ڈاکخانہ اور ٹیلیگراف آفس بن چکے تھے۔ پہلے یہاں جنگل تھا، جسے صاف کر کے آبادکاری کا آغاز ہوا۔ اردگرد اور دُور دراز کے علاقوں سے لوگ آکر آباد ہوئے، جن میں زیادہ تر گجر، آرائیں اور جاٹ قوموں سے تعلق رکھتے تھے۔ گجر زیادہ تر فیروز پور سے آکر آباد ہوئے۔ ۱۹۴۷ء میں قیامِ پاکستان کے بعد کئی مہاجر گھرانے بھی یہاں آگئے، جو گوجر اور راجپوت قوموں سے تعلق رکھتے تھے۔ موجودہ شہر اٹھارہ رہائشی بلاکوں کے علاوہ گئوشالہ، احمد نگر، حیات آباد، بہار کالونی، مہر آباد، علی نواز ٹائون، درویش پورہ کے علاوہ ہائوسنگ کالونی کی گنجان آبادیوںپر مشتمل ہے۔
آج اس شہر کی حدود میلوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ شہر کے شمال میں قریباً ۹ہزار ایکڑ پر مشتمل وسیع جنگل ہے۔ یہاں کی عمدہ شیشم فرنیچر سازی میں بے حد پسند کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سفیدہ، سنبل اور شہتوت کے درخت بکثرت پائے جاتے ہیں۔ چھانگا مانگا کے بعد اس جنگل میں سب سے زیادہ درخت لگائے گئے ہیں۔ یہاں ضلعی حکومت نے تفریح کے لئے فاریسٹ پارک بنایا ہے۔ جنگل میں گیسٹ ہائوس کے علاوہ لوئرباری دوآب کا کینال ریسٹ ہائوس بھی موجود ہے۔ یہ جنگل زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے تحقیقی مقاصد کے لئے استعمال ہوتا ہے جبکہ شکاری شکار بھی کھیلتے ہیں۔

یہاں کی منڈی مویشیاں کا شمار ملک کی بڑی منڈیوں میں ہوتا ہے۔ گوادر سے کراچی تک کے تاجر یہاں مویشیوں کی خریدوفروخت کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ یہ منڈی ہر ماہ کے آخری دس دنوں میں لگتی ہے۔ چیچہ وطنی میں کبڈی کا کھیل بہت مقبول ہے۔ قومی سطح کے کئی مقابلے یہاں منعقد ہو چکے ہیں۔ انڈیا اور پاکستان کی ٹیموں کے مابین بھی یہاں مقابلے ہوئے۔ یہاں فلڈ لائٹس کی سہولت سے آراستہ کبڈی سٹیڈیم موجود ہے۔ چیچہ وطنی کو ایک اعزاز یہ بھی حاصل ہے کہ یہاں کی خاتون کھلاڑی شازیہ ہدایت نے ۲۰۰۴ء کے سرمائی اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔ یہاں عیسائی بھی معقول تعداد میں آباد ہیں معروف نرس ایستھر جان کا تعلق بھی چیچہ وطنی سے تھا۔

چیچہ وطنی کا ریلوے سٹیشن شہر سے دُور تھا، جس وجہ سے مسافر طویل فاصلہ طے کرکے وہاں پہنچتے تھے۔ پاکستان ریلوے نے شہرکے دائیں طرف جولائی ۲۰۰۷ء میں نیا ریلوے سٹیشن تعمیر کیا ہے۔ چیچہ وطنی کے بلاک ۱۲ میں واقع جامع مسجد کے اندر ایک جہادی مدرسہ مدرسہ خالدیہ کے نام سے قائم تھا۔ بعدازاں یہ مدرسہ چک ۲۔۱۲/۴۰ میں منتقل کر دیا گیا۔ صدر مارکیٹ یہاں کا معروف بازار ہے جبکہ آئس کریم کے متعدد مشہور پارلر ہیں۔ گندم، کپاس اور گنا علاقے کی اہم فصلیں ہیں۔ اس کی زرخیز زمین کپاس کا سفید سونا اُگاتی ہے۔ یہاں ایک سوجی مل، ۳۵ کے قریب آئل ملز، ۵۰۰ کے قریب جننگ فیکٹریاں ہیں جبکہ گھی کی کریسنٹ فیکٹریز لمیٹڈ صنعت کی دنیا میں نمایاں حیثیت کی حامل ہے۔ یہاں طلبا وطالبات کے ڈگری کالج، کامرس کالج، ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ، سٹیڈیم، متعدد سرکاری و غیر سرکاری ہائی اور مڈل سکول، تحصیل سطح کے دفاتر، ہسپتال اور عدالتیں، تھانہ صدر اور تھانہ سٹی موجود ہیں۔ 

اسد سلیم شیخ

(کتاب ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبس)
 

Post a Comment

0 Comments