All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

سعودی عرب کی ایشیا کے لیے شاہراہ پاکستان سے ہو کر گذرتی ہے؟

سعودی عرب کے نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے ایشیا کے دورے کے پہلے مرحلے میں اتوار کی شب اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر اُترے تو اس سے قبل ایک لاکھ سے زیادہ پاکستانی حج کا فریضہ ادا کرنے کے لیے سعودی عرب پہنچ چکے تھے۔ اس کو علامتی قرار دیجیے ،قریبی گہری دوستی یا خیرسگالی سمجھیے ،یہ دونوں ملکوں کے درمیان طویل اور منفرد تعلقات کی ایک مثال ہے۔
الریاض اور اسلام آباد کے بہت سے شعبوں میں باہمی مفادات مشترکہ ہیں۔ اگر پاکستان کی توانائی کی ضرورت اہمیت کی حامل اور دیرینہ ہے تو سعودی عرب میں پندرہ لاکھ سے زیادہ پاکستانیوں کی موجودگی دونوں ملکوں کے لیے سود مند ہے۔ دہشت گردی ان دونوں کی مشترکہ دشمن ہے اور یہ سکیورٹی کے شعبے میں مسلسل تعاون اور سیاسی افہام وتفہیم کی متقاضی ہے۔ اس محاذ پر دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کو اس طرح کے دوروں سے تقویت ملے گی۔

اس دورے سے دونوں ملکوں کی قیادت کے درمیان دلچسپ ربط وتعلق کا منظر سامنے آتا ہے۔ دنیا کے نوجوان وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان سعودی عرب میں داخلی اصلاحات پر توجہ مرکوز کررہے ہیں اور وہ سعودی مملکت کے بیرون ملک تعلقات کو از سرنو استوار کرنے کی بھی کوشش کررہے ہیں۔ انھوں نے پاکستان میں ایک ایسے وزیراعظم سے ملاقات کی ہے جو سعودی عرب میں قریباً ایک عشرہ جلا وطنی کی زندگی گزار چکے ہیں۔ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تعلقات اور اپنے سیاسی کیرئیر کی اونچ نیچ سے قطع نظر پاکستان کے وزیراعظم میاں نوازشریف الریاض کو خصوصی درجہ دینے کے پابند ہیں جس کا وہ حق دار ہے۔ وزارت خارجہ کا قلم دان بھی وزیراعظم کے پاس ہی ہے جس کی وجہ سے ان کی حیثیت زیادہ منفرد ہو گئی ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ گرم جوشی کے معاملے میں میاں نواز شریف کو ملک کی طاقتور مسلح افواج کی جانب سے کسی قسم کی مزاحمت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اسلام آباد سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق سعودی نائب ولی عہد نے نواز شریف سے مسلح افواج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی موجودگی میں ملاقات کی ہے۔
بہت سے تجزیہ کار یہ توقع کر رہے تھے کہ پاکستانی پارلیمان میں یمن میں سعودی عرب کی قیادت میں اتحاد کی کارروائیوں میں ملک کو فعال شرکت سے روکنے کے لیے قرارداد کی منظوری کے بعد دو طرفہ تعلقات کو دھچکا لگے گا لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔ اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات اور اب اس دو روزہ دورے سے دونوں ملکوں میں بیشتر امور درست سمت میں استوار ہو جائیں گے۔
شہزادہ محمد بن سلمان سعودی عرب کی کونسل برائے اقتصادی اور ترقی امور (سیڈا) کے سربراہ ہیں۔ ان کے اس کردار سے دونوں ملکوں میں اقتصادی تعاون کے فروغ کو ترجیح حاصل رہے گی۔ فوڈ سکیورٹی سمیت مختلف شعبوں میں دونوں ممالک کو باہمی مفاد میں تعاون جاری رکھنا چاہیے۔ فوڈ سکیورٹی میں وہ ماضی میں بھی تعاون کرتے رہے ہیں۔

سعودی عرب نے پاکستان کو گذشتہ برسوں کے دوران فراخدلانہ انسانی امداد مہیا کی ہے اور توقع ہے کہ یہ عمل آیندہ بھی جاری رہے گا۔ دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ برسوں کے دوران دو طرفہ تجارت میں بھی اضافہ ہوا ہے مگر ابھی ایسے بہت سے شعبے ہیں جن میں دوطرفہ تعاون کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ اس وقت توازن تجارت سعودی عرب کے حق میں ہے کیونکہ پاکستان اپنی ضروریات کے لیے زیادہ تر تیل سعودی مملکت سے ہی درآمد کرتا ہے۔ سعودی نائب ولی عہد کا پاکستان کا یہ دورہ اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس کے بعد وہ اگلے مرحلے میں چین گئے ہیں جس کے ساتھ پاکستان کے شاندار تعلقات استوار ہیں۔چین کی پاکستان کے ساتھ دیرینہ دوستی اور طویل المیعاد شراکت کی ایک وجہ اس کی خلیج تک رسائی کی خواہش ہے۔ اس دورے سے اس حوالے سے تعلقات مزید مضبوط ہوں گے اورمزید تعاون کے نئے امکانات بھی پیدا ہوں گے۔

سعودی عرب نے خطے اور اس سے ماورا تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی جغرافیائی سیاسی صورت حال کے تناظر میں ایشیا کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کا انتخاب کیا ہے۔ ان حالات میں الریاض کے لیے یہ بات درست نظر آتی ہے کہ وہ ان ممالک سے آغاز کرے جو اس کے قریب تر ہیں اور جو ایشیائی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کی استواری میں پُل کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ پاکستان الریاض کی ''مشرق کی جانب دیکھو'' حکمتِ عملی کے لیے ایک سنگِ بنیاد مہیا کرتا ہے اور یہ ملک اس حیثیت سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ اگر یہ دورہ پہلے سے موجود کثیرالجہت تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے مزید پرتوں کا اضافہ کرتا ہے تو دونوں ممالک یقیناً اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔

احتشام شاہد

احتشام شاہد العربیہ انگلش کے مینیجنگ ایڈیٹر ہیں۔ وہ گذشتہ قریباً دو عشروں کے دوران خلیج کے خطے اور بھارت میں مختلف اخباری اداروں اور خبررساں ایجنسیوں کے ساتھ مدیر ،نامہ نگار اور بزنس لکھاری کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں۔ ان سے ٹویٹر پر اس پتے پر برقی مراسلت کی جا سکتی ہے۔ @e2sham.
احتشام شاہد

Post a Comment

0 Comments