All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

ذہنی مریضوں کی آخری اُمید ؟

صفیہ بی بی اپنے اکلوتے بیٹے کے لیے دوا نہیں خرید سکتیں اور دعا ہی ان کی آخری اُمید ہے۔ اُن کا 20 سالہ بیٹا سہمی سہمی آنکھوں سے کبھی انھیں اور کبھی اپنے ٹخنے پر بندھی زنجیر کو دیکھ رہا ہے۔ وہ ادھار مانگ کر بیٹے کو گوجرانوالہ سے بورے والا تک لائی ہیں اور تمام رقم سفر میں خرچ ہو چکی ہے۔ تپتی دھوپ میں پسینے کے ساتھ ساتھ صفیہ بی بی کے آنسو بھی بہہ رہے ہیں۔
’دو سال ہو گئے مجھے اس کے پیچھے پھرتے ہوئے، میرے پیروں کے تلوے تک پھٹ گئے ہیں۔ گلیوں میں پھرتا تھا اور بچے پتھر مارتے تھے میرے بچے کو، ہم سے برداشت نہیں ہوتا تھا۔ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں کہ اس کا علاج کروا سکیں۔‘ پنجاب میں بورے والا کے قریب صوفی بزرگ بابا حاجی شیر کے مزار پر ملک بھر سے لائے گئے ذہنی مریض اپنی زندگی کے کئی موسم زنجیروں میں درختوں سے بندھے بسر کر رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے بیشترً افراد قابل تشخیص اور قابل علاج ذہنی امراض کا شکار ہیں لیکن یہاں پر زیادہ تر دیہی علاقوں سے آنے والے لوگوں کا ماننا ہے کہ یہاں آ کر ان کے پیارے ایک دن صحت یاب ہو سکتے ہیں۔  مزار کے قریب ہی ایک ہسپتال بھی تعمیر ہے لیکن مزار پر سینکڑوں لوگوں کی موجودگی پاکستان میں ابھرتی جدید سائیکایٹری اور مذہبی نظریات کے درمیان تنازعے کی عکاسی کر رہی ہے۔ 
ایک بزرگ زنجیروں سے خود کو آزاد کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیے اور اس دوران مسلسل وہ کچھ بڑبڑا رہے تھے۔ ان کے پاس ہی بیٹھی ان کی اہلیہ نے بتایا کہ ’یہ پاگل نہیں ہے ، جادو ٹونہ کرتا تھا اور اس پر جن کا سایہ ہے۔‘ تپتی دھوپ میں یہ افراد درختوں کے ساتھ جکڑے رہتے ہیں اور ان کے خاندانوں کو کسی معجزے کی امید نے جکڑ رکھا ہے۔ مزار پر دو دہائیوں سے کام کرنے والے نگران عطا محمد نے بتایا کہ گذشتہ چند سالوں سے یہاں آنے والے ’پاگلوں‘ میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’ان کو ہم لنگر دیتے ہیں، جگہ دیتے ہیں اور کیا سہولیات دیں، یہ تو پاگل ہیں۔ انھیں اسی طرح زمین پر بیٹھنا ہے اور جب ٹھیک ہو جائیں گے تو زنجیریں اپنے آپ کھل جائیں گی۔ یہ بابا جی کی دعا ہے۔‘ پاکستان میں ذہنی صحت کے بڑھتے ہوئے مسائل کا اندازہ عالمی ادارہ صحت کے ان اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق ملک میں ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں۔

 ماہرین نفسیات کے مطابق ملک میں بگڑتے ہوئے ماحول جیسے سکیورٹی، غربت اور بے روزگاری جیسے سماجی عناصر کی وجہ سے آبادی کی بڑی تعداد کسی نہ کسی ذہنی مرض یا دباؤ کا شکار ہے۔ حکومتی ترجیحات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ 18 کروڑ سے زیادہ آبادی کے لیے صرف پانچ ایسے سرکاری ہسپتال ہیں جہاں نفسیاتی امراض کا علاج ہوتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات کی تعداد 300 کے قریب ہے اور ایسے میں مجبور افراد اکثر پیری فقیری کو اپنی آخری امید مانتے ہیں۔ گو کہ بڑے شہروں میں نجی سطح پر نفسیاتی علاج کی سہولیات موجود ہیں لیکن عوام کی اکثریت یہ مہنگا علاج نہیں کروا سکتی۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں ذہنی صحت کا مسئلہ جتنا بڑا ہے، اس سے نمٹنے کے ادارے اور وسائل اتنے ہی محدود ہیں اور سہولیات کے ساتھ ساتھ شعور کی واضح کمی ہے۔

لاہور میں نفسیاتی اُمراض کے علاج کے لیے فلاحی ادارے فاؤنٹین ہاؤس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عثمان رشید نے بتایا ’ہمارا معاشرہ ذہنی مرض میں مبتلا شخص کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ تو پاگل ہو گیا ہے، مینٹل کیس ہے وغیرہ وغیرہ اور گو کہ اکنامک فیکٹر بھی ایک رکاوٹ ہے لیکن سب سے پہلے آگاہی کے ذریعے اس سوچ کو بدلنا بہت اہم ہے۔‘ پنجاب کہ اس مزار پر بندھے ہوئے لوگ شاید پاکستان میں کروڑوں ذہنی مریضوں کی کیفیت کی عکاسی کرتے ہیں کہ جو اپنی دماغی اضطراب کی زنجیروں سے تب تک آزاد نہیں ہو پائیں گے جب تک معاشرتی اور ریاستی سطح پر ان کو قبولیت نہیں ملے گی۔ مزار پر لائے جانے والوں کے ساتھ اکثر ان کے لواحقین بھی پناہ گزینوں کی طرح وہیں بسیرا کر لیتے ہیں لیکن کئی مریض مزار کے ہی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ امید شاید ان کے گھر والوں کا ساتھ چھوڑ جاتی ہے اور گھر والے ان کا۔ ایسا ہی ایک نوجوان مزار پر ہونے والی قوالی کی گونج میں دھمال ڈال رہا تھا۔ گلے میں لٹکتی زنجیروں کی آواز کے ساتھ اس کے پیر چل رہے تھے اور آنکھیں بند کیے وہ جھومے جا رہا تھا۔ ایک نگراں نے بتایا ’پتہ نہیں کب سے اسے یہاں چھوڑ گئے ہیں ، کس کا بیٹا ہے، اب یہ بس مزار کا ملنگ ہے۔

صبا اعتزاز
بی بی سی اردو ڈاٹ کام
بورے والا، پنجاب

Post a Comment

0 Comments