All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

پاکستانی فوج کے کتنے کاروبار ہیں ؟

گیارہ سال قبل بھی کِسی سیاستدان نے پارلیمنٹ میں یہ بیہودہ سوال اُٹھایا تھا کہ پاکستانی فوج کے کتنے کاروبار ہیں۔ اُس وقت کے وزیر دفاع مرحوم راؤ سکندر نے تحریری جواب دیا تھا کہ 55۔ اِس ہفتے پارلیمنٹ میں پھر سوال اُٹھایا گیا کہ کُل کتنے دھندے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے جواب دیا 50۔ دھندہ مندہ ہونے پر پریشانی تو اپنی جگہ لیکن جو چیز اُس وقت بھی پریشان کن تھی اور اب بھی ہے کہ پارلیمنٹ میں دی گئی فہرست کے مطابق پاکستان نیوی کے پاس اپنی کوئی ہاؤسنگ سوسائٹی نہیں ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ایک خاندان کے ایک سو سے زیادہ کاروبار بھی ہیں پاکستانی افواج کا پچاس پچپن بزنس چلانا کوئی اچنبے کی بات نہیں لیکن پاکستان نیوی کے پاس اپنی ایک بھی ہاؤسنگ سکیم نہ ہونا لمحہ فکریہ ہے۔

پاکستان نیوی ایک مدبر ادارہ ہے اِس پر نہ کبھی کوئی جنگ شروع کرنے کا الزام لگا ہے نہ کوئی جنگ ہارنے کا۔ اکثر مارشل لاء بھی بغیر اِسے بتائے لگا دیے جاتے ہیں۔ جہوریت آئے یا مارشل لاء بحریہ سمندری سرحدوں کی حفاظت میں مصروف رہتی ہے۔ بحریہ پاکستانی فوج میں وہ سفید پوش بھائی ہے جو ہو سکتا ہے اپنے بھائیوں کی خوشحالی دیکھ کر دِل میں کڑھتا ہو لیکن بظاہر اُن کی مال و دولت دیکھ کر ماشا اللہ ہی کہتا ہے۔ کبھی بھی کھل کر اپنا حصہ نہیں مانگتا کہ محلے والے کیا سوچیں گے۔ اگر پارلیمنٹ میں پیش کی جانے والی فہرست پر نظر ڈالیں تو پاکستان کی بّری فوج اور فضائیہ نے آپ کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے ایسی ایسی سہولیات فراہم کر دی ہیں کہ آپ کو کسی سویلین سیٹھ کو منہ لگانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ آپ ایک ملٹری ہسپتال میں پیدا ہو سکتے ہیں جہاں پر ملٹری میڈیکل کالج کے تربیت یافتہ ڈاکٹر مناسب معاوضے پر آپ کی ابتدائی صحت یقینی بنائیں گے۔ بچے سیریل شوق سے کھاتے ہیں تو فوجی سیریل پیش خدمت ہے۔ اِس کے لیے دودھ چاہیے ہو گا تو نُور پور کا خالص دودھ دستیاب ہے۔
چینی بھی چاہیے؟ آرمی ویلفیئرشوگر مل سے لے لیں۔ بچہ تھوڑا بڑا ہو گا تو اُسے عسکری پراجیکٹ سے جوتے اور کپڑے دلوا دیں۔ سکول بھیجنا ہے تو فضائیہ ویلفیئر ایجوکیشن سسٹم میں ڈال دیں اُس کے بعد کئی یونیورسٹیوں میں معیاری تعلیم کا بندوبست ہے۔ کاشتکاری کا رجحان ہے تو اوکاڑہ سیڈز سے بیج خریدیے، فوجی فرٹیلائزرز سے لے کر کھاد ڈالیے۔ گوشت کی ضرورت ہے تو فوجی میٹ سے خریدیے۔ باہر کھانے کا چسکا ہے تو بلیو لیگون ریسٹورنٹ آ جایے، گھر چاہیے تو ڈی ایچ اے میں پلاٹ خریدیے، عسکری سیمنٹ لیں۔ پیسے کم پڑ رہے ہیں تو عسکری بینک حاضر ہے۔

ذاتی حفاظت کے لیے اگر پولیس اور رینجرز سے اعتبار اُٹھ گیا ہے تو عسکری گارڈز یا فوجی سکیورٹی سروسز میں کسی کا اِنتخاب کر لیں۔ اور اگرچہ پارلیمنٹ میں اِس کا ذکر نہیں کیا گیا اگر کوئی چوری چکاری ہوئی ہے تو تربیت یافتہ سراغ رساں کتوں کی خدمات بھی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ یا عسکری جنرل انشورنس سے پالیسی خریدیں اور اِن سب جھمیلوں سے نجات حاصل کریں۔ اگر آپ پاکستان کی پھلتی پھولتی معیشت کو دیکھیں تو یہ کافی چھوٹے چھوٹے دھندے ہیں۔ اصل کاروبار جائیداد کا ہے جس میں فوج نے بڑا نام کمایا ہے۔ آٹھ ڈی ایچ اے بن چکے ہیں اور جو پہلے سے بنے تھے اُن کی حدیں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ کراچی ڈی ایچ اے کا فیز 8 اِتنا بڑا ہے کہ اِس میں پہلے ساتوں فیز سما جائیں۔

پاک فضائیہ نے اِس کاِر خیر میں دیر سے حصہ ڈالنا شروع کیا لیکن چھوٹتے ہی گوجرانوالہ میں رہائشی سکیم بنا ڈالی۔ گوجرانولہ میں فضائیہ کا کوئی بیس نہیں ہے لیکن شاہین جب آشیانہ بنانے پر آتا ہے تو اِن باتوں کی پرواہ نہیں کرتا۔ اب کراچی میں شاہینوں کے آشیانے کے نام پر لگژری فلیٹ بن رہے ہیں اور دھڑا دھڑ بِک رہے ہیں۔ اب اِس پلاٹوں اور فلیٹوں کی ریل پیل میں نیوی کے پاس کیا ہے۔ کچھ نہیں۔ بس کراچی میں دو تین بلڈنگیں جہاں دفاتر کرائے پر دے کر گزارا ہوتا ہے۔ ایک کشتیاں بنانے کی ورکشاپ، کچھ پٹرول پمپ اور شاید ایک آدھ ایل این جی ٹرمینل کا وعدہ۔

بُرا ہو ملک ریاض کا جو 1996 میں نیوی سے ایک معاہدہ کر کے اِس کا نام لے اُڑا۔ تب سے پورے ملک میں بحریہ ٹاؤن کے نام سے گھر، پلاٹ اور اُن کی فائلیں بیچ بیچ کر اربوں کما چکا ہے۔ پاکستان کی اصلی بحریہ 20 سالوں سے عدالتوں کے چکر لگا رہی ہے کہ ہمارا نام ہمیں واپس دلوایا جائے لیکن عدالتیں اُس کے ساتھ وہی کر رہی ہیں جو سفید پوشوں کے ساتھ کرتی ہیں۔ کوئی ہے جو پاکستان کی بحریہ کو اُس کا نام واپس دِلوا سکے تا کہ وہ بھی اپنے دوسرے وردی پوش افسر بھائیوں کی طرح مستقبل کی فکر سے آزاد ہو سکے۔ اب تو ایئر پورٹ سکیورٹی فورس نے بھی اپنی ہاؤسنگ سکیم بنا ڈالی۔ کیا ہمارے سفید وردی والے محافظوں کی اِتنی بھی عزت نہیں؟

محمد حنیف
مصنف اور تجزیہ نگار

Post a Comment

0 Comments