All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

’’آنسورُلارہی ہیں کشمیر کی فضائیں‘‘

وہ ان سب کا محبوب ساتھی تھا جسے جبرمسلسل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی پاداش میں ظالم حکام نے محبوس کررکھا تھا۔ اب اس کے ساتھی اس کی رہائی کے لئے فراہمی انصاف کے منتظر تھے، مگر جب قاتل ہی منصف بن جائیں تو عدل نا پید ہو جاتا ہے۔ ریاستی حکام نے عبدلقدیر کا مقدمہ بند کمرے میں چلانے کا فیصلہ کررکھا تھا، مگر عبدالقدیر کے ساتھی اس غیر منصفانہ فیصلے پر معترض ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ انہوں نے مقدمہ کھلی عدالت میں چلانے کا فیصلہ کر ڈالا۔ یوں کہہ لیجئے کہ نشے میں بدمست ریاستی حکام نے اس اصولی مطالبے کونظرانداز کر کے ثابت کردیا کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ قدرت مسلمانوں کی طرف سے پیش کی جانے والی ایک عظیم قربانی کے لئے میدان سجارہی تھی۔

دراصل جموں و کشمیر کے مسلمان محکومین طویل مدت سے ظلم کی چکی میں پستے چلے آرہے تھے۔ انگریز راج اور پھر 1846ء میں معاہدۂ امر تسر کے تحت ریاست کی ایک ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت، دونوں مسلمانان جموں و کشمیر اور ان کے مذہبی عقائد کے لئے پیام اجل ثابت ہوئے تھے، مگر 1925ء میں جب مہاراجہ سنگھ جیسا عیار، مکار اور بدکار شخص تخت حکومت پر براجمان ہوا تو ستم اپنی انتہا کو جاپہنچا۔ ہری سنگھ کے زیرِ سایہ ڈوگرہ ہندو ملازمین نے مسلمانان جموں وکشمیر کے مال ودولت اورجان وعزت پر خوب ہاتھ صاف کئے اور ان پر عرصۂ حیات تنگ کردیا، مگر یہ ریاست گردی اس وقت بامِ عروج کو جاپہنچی جب مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر بھی قدغن لگائی جانے لگی۔
1931ء میں پہلے ایک مسجد شہید کی گئی، مسلمانوں کے امام منشی محمد اسحاق کو ڈوگرہ ڈی آئی جی رام چند نے زبر دستی نماز عید کے خطبے کی ادائیگی سے روکا، پھر جب ایک پولیس کانسٹیبل نے جان بوجھ کر قرآن پاک کی بے حرمتی کی تو مسلمانوں کے غصے کا آتش فشاں پھٹ پڑا۔ ریاست گیر مظاہروں میں مسلمانوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ عبدالقدیر نامی نوجوان نے جگہ جگہ جلوسوں میں تقاریر کیں، جن سے ڈوگرہ حکومت بوکھلا گئی اور اسے گرفتار کر کے اس کے خلاف مقدمے کی کارروائی کا آغاز کردیا۔ ریاست کے مسلمان کھلی عدالت میں مقدمے کی سماعت چاہتے تھے، مگرریاستی حکام بند کمرے میں ہی عبدالقدیر کا کام تمام کرنا چاہتے تھے، لہٰذا 13جولائی 1931ء کو اپنے اس مطالبے کے حق میں مسلمانانِ ریاست نے جیل کا محاصرہ کرکے مظاہرہ کیا۔

مظاہرے کے دوران نمازِ ظہر کا وقت آن پر پہنچا۔ ایک مسلمان نوجوان نے کھڑے ہوکر اذان دینا شروع کی، ابھی ایک کلمہ بھی مکمل نہیں ہونے پایا تھا کہ ایک ڈوگرہ سپاہی نے نوجوان پر گولی چلا دی اور وہ نوجوان وہیں شہید ہوگیا، مگر سبحان اللہ! وہ کیا جذبہ تھا کہ ہجوم میں سے ایک اور نوجوان اُٹھ کھڑا ہوااور وہیں سے اذان کا سلسلہ شروع کیا جہاں سے اس کے ساتھی کی شہادت پر منقطع ہوا تھا۔ دوبارہ گولی چلی اور یہ جانباز بھی شہید ہوگیا، پھر ایک اور نوجوان نے اٹھ کر وہیں سے اذان شروع کی جہاں اس کا پچھلا ساتھی چھوڑ گیا تھا، ایک اور گولی چلی جو اس کے سینے کا مقدر ٹھہری اور اس نوجوان کو بھی منصبِ شہادت پر فائز کر گئی۔

چشمِ فلک تادیر شہادتوں کا یہ منظر دیکھتی رہی۔ بعض راویانِ روایاتِ سلف کے نزدیک تکمیل اذان تک اکیس (21)،جبکہ بعض حاکیانِ حکایاتِ شاہانِ خلف کے نزدیک ستائیں(27) مسلمان قرآنی آیت (ترجمہ:اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں، انہیں مردہ مت کہو، بلکہ وہ تو زندہ ہیں، مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں) کی عملی تفسیر بن کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے۔ مجاہدین آزادی کی اس فقید المثال قربانی کی یاد میں اب بھی ہر سال 13جولائی کو ’’یومِ شہدائے کشمیر‘‘ منایا جاتا ہے۔ تحریک آزادی، کشمیر اپنے دامن میں اس طرح کی بے شمار قربانیوں کو سمیٹے ہوئے ہے اور ان میں روز بروز اضافہ بھی ہوتا چلا جارہا ہے۔ ہندو بنئے، بالخصوص انتہا پسند بھارتی جنتا پارٹی کے شرپسند غنڈوں کی حکومت کا عالمی دہشت گرد ریاست اسرائیل کے نقش قدم پر چلنا عین فطری عمل ہے۔ ’’گیدڑ کی موت آئے تو وہ شہرکی طرف بھاگتا ہے‘‘کے مصداق بھارتی حکومت بھی کشمیر میں اسرائیل کی طرز پر ہند وپنڈتوں اور سابقہ فوجیوں کے لئے الگ رہائشی کالونیاں تعمیر کرنے کے لئے 350 کنال اراضی حاصل کر رہی ہے۔ حقائق سے چشم پوشی تو اختیار کی جاسکتی ہے، مگر انہیں بدلا ہر گز نہیں جاسکتا ۔

اسرائیل کی پیروی میں کالونیاں تعمیر کر کے بھارت جلتی پر تیل ڈال رہا ہے، مگر بھارت کو شاید یہ ادراک نہیں مجھے اسی آگ میں نئی دلی کے محلات جلتے نظر آرہے ہیں۔ یوں گمان ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت اپنی قبر آپ کھودنے پر تُلی ہوئی ہے، جبکہ ریاست کی کٹھ پتلی حکومت جوبی جے پی کی اتحادی بھی ہے، اس شرمناک فعل کی انجام دہی میں مرکزی حکومت کے شانہ بشانہ کام کررہی ہے۔ کبھی کبھی تو دل چاہتا ہے کہ بھارتی حکومت کی ان ظالمانہ پالیسیوں کو بہ نظر استحسان دیکھوں کہ انہی کی بدولت آج تحریک آزادی اپنے جوبن پر ہے اور کامیابی کے بہت قریب ہے۔ انشاء اللہ! اب دیکھئے ناں کہ بھارتی مظالم کے ناجائز قبضے کے خلاف مزاحمت کرنے والے وہ کشمیری مسلمان قائدین جو گزشتہ کافی عرصے سے ہزار جتن کے باوجود متحد نہیں ہو رہے تھے،سب آج ان مجوزہ کالونیوں کے خلاف متحد ہوگئے ہیں۔ اس اتحاد کا سہرا بھارتی حکومت ہی کے سر ہے۔

بھارت اس طرح کے منصوبوں کے بدلے میں مسلمانانِ کشمیر سے کیا توقع رکھتا ہے۔۔۔ کہ وہ ان مجوزہ کالونیوں کے رہائشیوں کے راستے میں ناریل پھوڑیں؟ انہیں پھولوں کے ہار پہنائیں؟ یا ان کی آرتی اتاریں؟ یقیناً نہیں! مسلمانانِ کشمیر ان کالونیوں کو فوجی چھاؤنیاں سمجھنے میں صدفیصد حق بجانب ہیں۔ سینک کالونیوں کی شکل میں دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ اگر بھارت کی نیت درست ہے تو کشمیری پنڈتوں کو ان کے گھروں میں کیوں نہیں آباد کیا جارہا ، حالانکہ ان کی جان واموال کو بھی کوئی خطرات لاحق نہیں؟ جبکہ کشمیری مسلمان ان پنڈتوں کو خوش آمدید کہنے کو بھی تیار ہیں؟ اب تو کئی ہندو پنڈت خود ان رہائشی کالونیوں کی مخالفت میں میدان میں نکل آئے ہیں؟ لامحالہ کہنا پڑتا ہے کہ اس مذہبی اقلیت کو زبر دستی اس لئے الگ رکھا جارہا ہے تاکہ مسلمان آبادیوں کو بے خوف وخطر نشانہ بنایا جاسکے۔ چانکیہ نے پراپیگنڈے کو سیاست کی بنیاد قرار دیا تھا، پس ہندو بنیا اس کا خوب استعمال کرتا ہے۔ بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس کے ایک افسر نے کمال بے شرمی کے ساتھ مجاہدین آزادی پر یہ شرمناک الزام لگایا کہ وہ امرناتھ یا ترا کے یاتریوں پر حملے کا ارادہ رکھتے ہیں، غالباً وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ کشمیر میں مذہبی اقلیتیں غیر محفوظ ہیں، مگر حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی چند روز قبل منظر عام پر آنے والی ویڈیو نے بھارتی حکام کے اس بے بنیاد پراپیگنڈے کی قلعی کھول کررکھ دی ہے۔

اس ویڈیو میں برہان نے یاتریوں پر حملے کے ارادے کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یاتری اپنی مذہبی رسومات ادا کررہے ہیں، جن سے ہمیں کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندو پنڈت باہر گئے ہوئے ہیں، وہ واپسی پر ہمیں اپنا محافظ پائیں گے، مگر مجوزہ کالونیاں ہمیں قبول نہیں۔ مجاہدین آزادی مذہبی آزادی پر مکمل یقین رکھتے ہیں، جبکہ بھارت کی دہشت گرد حکومت ان پر انتہا پسندی کا الزام دھرتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتی۔ بھارتی گجرات کے مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنے والے شدت پسند بھارتی وزیر اعظم نے چند روز قبل اپنے ان داتا امریکہ بہادر کی سرزمین پر خطاب کرتے ہوئے بالواسطہ پاکستان کے خلاف خوب زہر اگلا اور کہا کہ ’’ہمارے ہمسایہ ملک میں دہشت گردی پروان چڑھ رہی ہے‘‘۔ حقائق کو بری طرح مسخ کرنے والے بھارتی وزیر اعظم مودی پاکستان پر الزام تراشی کرتے ہوئے غالباً یہ بھول گئے کہ سات لاکھ بھارتی مسلح فوج کشمیر میں لُڈو نہیں کھیل رہی، بلکہ وہاں کے مسلمانوں کا جینا حرام کئے ہوئے ہے۔

محترم قارئین! اگر بھارت کو مکمل تباہی سے بچنا ہے تو اسے تاریخ سے ضرور سبق سیکھنا چاہیے۔ تقریباً دو صدیاں قبل فرانس نے محض تیس ہزار کے لشکر سے الجیریا پر قبضہ کیا، مگر چونکہ یہ قبضہ الجریا کے سوادِ اعظم کی خواہشات کے برعکس تھا، لہٰذاایک و قت ایسا بھی آیا جب فرانس کی چھ لاکھ نفوس پر مشتمل فوج بھی اس قبضے کو قائم رکھنے میں ناکام ہوگئی۔ بھارت کو سمجھنا چاہیے کہ وہ سات لاکھ کجا، سات کروڑ فوجی درندے بھی مقبوضہ وادی کے مظلوم مسلمانوں پر مسلط کردے، تب بھی بالآ خر آزادی کشمیریوں کا مقدر بن کر رہے گی! انشاء اللہ! ۔۔۔برسبیل تذکرہ یہ کہنا بھی معقول ہوگا کہ بھارت کشمیری مسلمانوں کے خلاف جتنی دولت استعمال کررہا ہے، اگر اسی دولت سے اپنے بھوکے ننگے عوام کی حالت سنوارنے کے منصوبے شروع کرلے توکچھ اور نہیں تو کم از کم کلکتہ کی سڑکوں سے آدھے بھکاری بآسانی ختم ہو سکتے ہیں۔کشمیری مسلمان ہمیشہ سے سامرا جیت کے خلاف ناقابلِ تسخیر سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوتے چلے آئے ہیں۔ بندوق کی گولی اورخون کی ہولی سے بندۂ مومن کے افکار کا قبلہ ہرگز نہیں بدلا جاسکتا، البتہ جبروتشدد سے اس کے نظریات ضرور مستحکم ہو جاتے ہیں۔ 1931ء کے عبدالقدیر سے لے کر 1984ء کے مقبول بٹ، مقبول بٹ سے لے کر 2013ء کے افضل گرو تک ، افضل گرو سے لے کر 2016ء کے برہان وانی تک مجاہدین آزادی نے ہمیشہ یہی ثابت کیا کہ ظالم چاہے انگریز ہو، چاہے ڈوگرہ راج ہویا بھلے ہی بھارت ہو۔۔۔ وادی کشمیر کے غیور مسلمان امن و آزادی سے کم کسی شے کو قبول نہیں کریں گے۔ انشاء اللہ!

حمزہ حفیظ

Post a Comment

0 Comments