All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

'' بلیئر عراق جنگ سے پہلے ہی صدر بش سے پیمان کرچکے تھے''

سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کو مارچ 2003ء عراق پر چڑھائی سے آٹھ ماہ قبل ہی یہ یقین دہانی کرادی تھی کہ ''جو کچھ بھی ہوجائے ،میں آپ کے ساتھ ہوں گا''۔ انھوں نے عراق جنگ میں کودنے کے لیے ناقص انٹیلی جنس معلومات اور قانونی مشوروں پر انحصار کیا تھا۔ یہ بات برطانیہ کی عراق جنگ سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ میں کہی گئی ہے۔ سات سال کی تحقیقات کے بعد بدھ کو یہ رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ اس میں ٹونی بلیئر کو مختلف ایشوز پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے عراقی آمر صدام حسین کے مبینہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا اور مابعد جنگ کی منصوبہ بندی بالکل ناکافی اور نامناسب تھی۔

ٹونی بلیئر نے اس رپورٹ کے ردعمل میں کہا ہے کہ انھوں نے جنگ میں شریک ہونے کا فیصلہ ''نیک نیتی'' (اچھے عقیدے) کی بنیاد پر کیا تھا اور انھیں اب بھی یقین ہے کہ صدام حسین کو ہٹایا جانا ایک اچھا فیصلہ تھا۔ ان کے خیال میں ان کی عراق میں کارروائی آج مشرق وسطیٰ یا دنیا میں کہیں بھی ہونے والی دہشت گردی کا سبب نہیں تھی۔ سابق برطانوی وزیراعظم نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''اس وقت جنگ لڑنے کے لیے وضع کردہ انٹیلی جنس جائزے بعد میں غلط ثابت ہوئے تھے۔ مابعد جنگ حالات ہمارے تصور سے بھی زیادہ خراب اور خونیں ہوگئے تھے۔ اس سب کے لیے میں زیادہ افسوس اور معذرت کا اظہار کرتا ہوں''۔
واضح رہے کہ ٹونی بلئیر لیبر پارٹی کے واحد وزیراعظم تھے جو تین انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے ۔ وہ 2007ء تک مسلسل دس سال تک وزیراعظم رہے تھے مگر عراق جنگ نےان کی شہرت کو بری طرح تار تار کردیا تھا اور انھیں اقتدار سے سبکدوش ہونا پڑا تھا۔ تحقیقاتی رپورٹ حجم میں بائبل سے تین گنا بڑی ہے لیکن اس میں عراق جنگ کو غیر قانونی قرار نہیں دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ٹونی بلیئر کے بہت سے ناقدین کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عراق جنگ کی تحقیقات کرنے والے اس کمیشن کے چئیرمین جان شلکوٹ نے اپنے حاصلات کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے:''ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں جن حالات میں فوجی کارروائی کے قانونی ہونے کا فیصلہ کیا گیا تھا،وہ ہرگز بھی اطمینان بخش نہیں تھے''۔

ٹونی بلیئر نے مزید کہا ہے کہ انھیں رپورٹ میں جھوٹ بولنے اور بدنیتی وغیرہ کے حوالے سے الزامات سے بری الذمہ قرار دیا جانا چاہیے تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ مجھ سے اتفاق کریں یا نہ کریں میں نے صدام حسین کے خلاف کارروائی کا فیصلہ نیک نیتی اور ملک کے مفاد میں کیا تھا۔ عراق جنگ کے دوران مارے گئے 179 فوجیوں کے رشتے داروں نے سابق برطانوی وزیراعظم پر جھوٹا ہونے کا الزام عاید کیا تھا۔ عراق میں ہلاک ہونے والے بعض برطانوی فوجیوں کے رشتے داروں نے کہا ہے کہ وہ رپورٹ کا اس پہلو سے جائزہ لیں گے کہ آیا اس کی بنیاد پر ذمے داروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے یا نہیں۔

بش،بلیئر مراسم
اس رپورٹ میں عراق جنگ میں کودنے سے قبل ٹونی بلیئر اور جارج ڈبلیو بش کے درمیان نامہ وپیام اور عہد وپیمان کی تفصیل بھی منظرعام پر لائی گئی ہے۔عراق پر امریکا اور برطانیہ کی فوجوں کی چڑھائی سے آٹھ ماہ قبل 28 جولائی 2002ء کو ٹونی بلئیرنے ایک میمو میں لکھا تھا کہ ''میں آپ کے ساتھ ہوں گا ،خواہ کچھ ہی ہوجائے۔ لیکن اس مرحلے پر مشکلات کے دقت نظر سے جائزے کی ضرورت ہے''۔ ''اس پر منصوبہ بندی اور حکمت عملی وضع کرنا بہت ہی مشکل ہے کیونکہ یہ کوسوو نہیں ہے۔ یہ افغانستان بھی نہیں ہے اور خلیجی جنگ بھی نہیں ہے''۔ انھوں نے مزید لکھا تھا۔ شلکوٹ کے مطابق بلیئر نے برطانیہ کی جانب سے حمایت کی پیش کش کرتے ہوئے بش کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی لیکن ان کا کہنا ہے کہ بلیئر نے امریکا کے عراق جنگ سے متعلق فیصلوں پر اثرانداز ہونے کے لیے اپنی صلاحیت کا غلط اندازہ لگایا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عراق پر مارچ 2003ء میں فوجی چڑھائی کے وقت صدام حسین سے کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا۔ اس کے بعد عراق اور خطے میں جو بدامنی اور طوائف الملوکی پیدا ہوئی ہے،اس کا اندازہ کیا جانا چاہیے تھا۔ یاد رہے کہ 2009ء تک عراق میں جنگ کے نتیجےمیں کم سے کم ڈیڑھ لاکھ عراقی شہری ہوگئے تھے اور دس لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوگئے تھے۔ رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ برطانیہ نے مسئلے کے پُرامن حل کے تمام آپشنز کو بروئے کار لائے بغیر ہی جنگ میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ اس طرح اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اتھارٹی کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔

ناقص انٹیلی جنس
شلکوٹ نے لکھا ہے کہ ''اب یہ واضح ہوچکا ہے کہ عراق کے بارے میں پالیسی ناقص انٹیلی جنس معلومات اور غلط جائزے کی بنیاد پر بنائی گئی تھی''۔ انھوں نے مزید کہا کہ بلیئر حکومت کے عراق کے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے متعلق فیصلے غیر منصفانہ انداز میں پیش کیے گئے تھے۔ جنگ کے بعد عراق سے اس طرح کے کوئی ہتھیار نہیں ملے تھے۔ شلکوٹ کا کہنا تھا کہ بعد میں ٹونی بلیئر نے عراق کے غیر قانونی ہتھیاروں کے وسیع ذخیرے سے متعلق موقف کو بھی تبدیل کر لیا تھا اور انھوں نے یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ صدام حسین ایسے خطرناک ہتھیار حاصل کرنا چاہتے تھے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کررہے تھے حالانکہ جنگ میں کودنے سے قبل وہ کوئی اور وضاحتیں پیش کررہے تھے۔ لیبر پارٹی کے موجودہ لیڈر جریمی کاربائن نے پارلیمان میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ عراق جنگ ایک جارحانہ کارروائی تھی۔ یہ ایک غلط بنیاد لڑی گئی تھی اور اس کی وجہ سے بعد میں پورے مشرق وسطیٰ میں دہشت گردی پھیلی اور اس کو ہوا ملی ہے۔

Post a Comment

0 Comments