All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

کیا پاکستانی عوام اس امریکی چال سے باخبر ہیں؟

امریکی صدر اوباما فرما رہے تھے: ’’مجھے پختہ یقین ہے کہ یہ بات ہمارے
قومی مفاد میں ہے کہ ہم اپنے افغان ساتھیوں کو کامیاب ہونے کا بہترین موقع فراہم کریں۔ بالخصوص اِس تناظر میں کہ ہم نے سالہا سال تک افغانستان میں خون پسینہ بہایا ہے اور بے بہا سرمایہ لگایا ہے۔ مَیں آج جو فیصلہ کر رہا ہوں وہ میرے جانشین کو نہ صرف یہ کہ مستقبل کی مسلسل پیشرفت کے لئے ایک ٹھوس بنیاد فراہم کرے گا، بلکہ دہشت گردی کے خطرے کو، وہ جہاں سے بھی سر اُٹھا رہا ہو، جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی لچک مہیا کرے گا۔ بطور صدر اور بطور کمانڈر انچیف میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں دوبارہ اپنی قوم پر دہشت گردانہ حملے کی پلاننگ کے لئے افغانستان کو ایک محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دوں گا۔ میں اِس بات پر بھی پختہ یقین رکھتا ہوں کہ افغانستان کا دفاع کرنے کا فریضہ افغانوں کا اپنا ہے۔ ہم صرف ان کی صلاحیتوں کو ٹریننگ دینے پر زور دے رہے ہیں۔ ہم اس ملک میں زمینی جنگ کو ختم کر چکے ہیں اور یہاں سے اپنے90 فیصد ٹروپس واپس امریکہ لا چکے ہیں، لیکن جہاں ہم امن کے لئے کوشاں ہیں وہاں ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ دُنیا میں رونما ہونے والے حقائق کا ادراک کریں۔ ہم یہ نہیں بھول سکتے کہ افغانستان میں ہماری ایک بہت بڑی چیز داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ یہ وہ مُلک ہے جہاں القاعدہ دوبارہ قدم جمانے کی کوشش کر رہا ہے اور جہاں داعش (ISIS) اپنی موجودگی میں اضافہ کر رہی ہے۔‘‘
جب چند روز پہلے امریکی صدر یہ نوید اپنی قوم کو (بلکہ ساری دُنیا کو) سنا رہے تھے تو ان کے دائیں طرف وزیر دفاع آش کارٹر کھڑے تھے اور بائیں جانب چیئرمین جوائنٹ چیف، جنرل جوزف ڈن فورڈ ہاتھ باندھے کھڑے اپنے کمانڈر انچیف کے ہر جملے پر سر ہلا ہلا کر اس کی توثیق کر رہے تھے۔ صدر نے یہ بھی کہا کہ: ’’میرے قومی سلامتی کے مشیر نے سفارش کی ہے کہ میں اپنے اس سابق وعدے کے برعکس کہ جس میں، میں نے کہا تھا کہ 2016ء کے اواخر تک امریکی ٹروپس کی تعداد 9800 سے گھٹا کر 5500 کر دی جائے گی، نظر ثانی کروں۔ آج کل جنرل جان نکلسن جونیئر، افغانستان میں امریکی (اور ناٹو) فورسز کے کمانڈر ہیں، ان کا بھی تجزیہ ہے کہ حالیہ ایام میں افغانستان میں طالبان کے حملے تیز تر ہونے لگے ہیں۔ اس بنا پر فیصلہ کیا گیا ہے کہ افغانستان سے صرف 1400 ٹروپس کو امریکہ واپس بلا کر باقی 8400 کو وہاں مقیم رکھا جائے۔ افغان سیکیورٹی فورسز کو ٹریننگ دینے کا مشن فی الحال ادھورا ہے اس لئے امریکی تربیتی ٹروپس کی تعداد میں یکدم زیادہ کمی نہیں کی جا سکتی۔‘‘

قارئین کو یاد ہو گا کہ گزشتہ ماہ اوباما نے یہ احکامات بھی صادر کئے تھے کہ افغانستان میں جب بھی ناٹو/ امریکی فورسز کو خطرہ ہو تو خواہ وہ سپیشل آپریشن مشن ہو یا نہ ہو یا کوئی تربیتی مشن ہو تو موقع کا کمانڈر امریکی فضائیہ کو طلب کر سکتا ہے۔ پاکستانی میڈیا میں اس پہلو پر کبھی بحث مباحثہ نہیں کیا جاتا کہ افغانستان میں ایک امریکی مشیر جان سپوکو (John Spoko) بھی ایک عرصے سے کام کر رہے ہیں۔ اپنے عہدے کے لحاظ سے وہ ’’انسپکٹر جنرل برائے تعمیر نو افغانستان‘‘ کہلاتے ہیں۔ ان کی ایک حالیہ رپورٹ جو کانگریس کو پیش کی گئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ نہ خود امریکہ اور نہ ہی کوئی امریکی اتحادی یہ جانتا ہے کہ فی الوقت افغانستان میں آرمی اور پولیس سولجرز کی اصل تعداد کتنی ہے، ان میں کتنے ہیں جو روٹین کے عسکری فرائض کی انجام دہی کے لئے دستیاب ہوتے ہیں اور اس بات کا بھی کچھ علم نہیں کہ ان کی آپریشنل صلاحیتوں کا کیف و کم کیا ہے۔

قارئین کرام! میں نے امریکہ کے ماضی و حال کے جو تاریخی حقائق پڑھے ہیں ان کی روشنی میں کہہ سکتا ہوں کہ امریکہ جتنا عسکری لحاظ سے طاقتور مُلک ہے، اتنا ہی اخلاقی اعتبار سے کمزور ہے۔ جتنی صفائی ستھرائی اور معاشرتی چکا چوند ہمیں امریکی قوم میں نظر آتی ہے، اتنی ہی وہ قوم مختلف اقسام کے حد درجہ آلودہ عوارض میں مبتلا ہے۔ یہ امریکی جتنی بھی ترقی کر رہے ہیں، نئی دنیاؤں کو تلاش اور مسخر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا جتنے بھی انسانی اقدار کے علمبردار بنتے ہیں،اندر سے اتنے ہی کھوکھلے، جاہل اور بے وقوف ہیں۔ اول اول میں بھی امریکی قوم کی صلاحیتوں کا معترف بلکہ قصیدہ خواں تھا لیکن جب ان کی گزشتہ اور موجودہ تاریخ کے گہرے اور معروضی مطالعے اور مشاہدے کا موقع ملا تو میں اس قوم سے اتنا ہی متنفر ہو گیا۔ اس قوم کے عمائدین میں بظاہر آپ کو متضاد صفات کے حامل بھی چند لوگ ملیں گے۔ لیکن اگر آج کوئی امریکی کسی ایک فیلڈ میں اوج پر کھڑا ہے تو وہی آنے والے کل میں انتہائی پستی کی طرف بھی لڑھک رہا ہو گا۔ 

میں نے جرمن، فرانسیسی، چینی، جاپانی اور برطانوی تواریخِ جنگ کا بالالتزام مطالعہ کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اسلامی جنگیں خواہ کتنی بھی قدیم تھیں،اسلامی افواج کے سلاحِ جنگ خواہ کتنے بھی دقیانوسی تھے اور ان کے حرب و ضرب کے طور طریقے خواہ کتنے بھی پرانے تھے، ان سے بڑھ کر آج تک کوئی دوسری قوم ان کا مقابلہ نہیں کر سکی۔ یہ ایک نہایت بسیط موضوع ہے۔ میں یہ سطور اس لئے نہیں لکھ رہا ہوں کہ میں مسلمان ہوں اور مجھے اسلام کی حمایت منظور ہے۔ میں نے کئی بار غیر جذباتی ہو کر جنگ و جدل کی سیکولر مزاجی کا مطالعہ کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ عہد حاضر کی غیر مسلم اقوام لاکھ سائنس اور عسکری اعتبار سے بلند بام ہوں گی لیکن اگر ان اقوام نے کسی دائمی ترقی سے ہمکنار ہونا ہے تو انہیں قرآن حکیم میں غوطہ زن ہونا پڑے گا۔ جدید اور ترقی یافتہ اقوام، غیر مسلم ہوتے ہوئے بھی ترقی کی چھت کے زینے کی آدھی سیڑھیوں تک چلی گئی ہیں۔

لیکن یہ سیڑھیاں وہی ہیں جن کی بشارت قرآن میں اللہ کریم نے بار بار دی ہے۔ لیکن باقی آدھی سیڑھیاں وہ ہیں جن پر مسلمانوں نے صد ہا برس تک قدم رنجہ فرمائے رکھا۔ آج کی غیر مسلم اور جدید اقوام آدھی سیڑھیاں طے کر کے ایک دوراہے پر آکر رک گئی ہیں۔ ان کے حساب سے باقی نصف سیڑھیاں، اول نصف کا تسلسل ہونی چاہئیں۔ لیکن ایسا نہیں۔ اور یہی ان کی اصل مشکل ہے۔  مسلم اقوام کو بھی یہی مسئلہ درپیش ہے۔ انہیں نیچے اتر کر نصف اول کو طے کرنے کے لئے ماڈرن اقوام کی تقلید کرنی پڑے گی۔ میں کوئی مصلح یا مبلغ نہیں ہوں لیکن اتنا کہہ سکتا ہوں کہ مسلمانوں نے اخلاقی اور روحانی زینوں کو پہلے طے کر لیا لیکن مادی زینوں سے غافل ہو گئے جبکہ غیر مسلموں نے مادی علوم و فنون کو سینے کی بیرونی سطح پر سجا کر بھی ان کو سینے کے اندر جذب ہونے کا اذن نہ دیا۔۔۔ اسی حقیقت کو مولانا روم نے اس شعر میں بیان کیا ہے۔

علم راہ برتن زنی مارے بود
علم را برجاں زنی یارے بود
(ترجمہ: علم(سائنس اور ٹیکنالوجی دونوں) کو اگر جسم کے لئے استعمال کرو گے تو سانپ بن جائے گا لیکن اگر روح کے لئے استعمال کرو گے تو آپ کا یارِ جانی ہو گا)

میں کل اپنے میڈیا میں کسی چینل پر یہ خبر دیکھ رہا تھا کہ صدر امریکہ نے اس سال کے اواخر تک افغانستان میں مقیم امریکی ٹروپس کی تعداد میں کمی کر دی ہے اور 31 دسمبر 2016ء تک 1400 امریکی ٹروپس واپس چلے جائیں گے۔ یہ خبر گویا امریکہ کی تعریف تھی کہ اس نے افغانستان میں اپنی افواج میں کمی کر دی ہے لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ دسمبر 2016ء تک افغانستان میں غیر ملکی ٹروپس کی جو تعداد 5500 ہونی چاہئے تھی وہ اب 8400 کر دی گئی ہے۔اس طرح امریکن فورسز کی تعداد اوباما کے موعودہ بیان کے برعکس 2900 زیادہ کر دی گئی ہے۔

امریکہ 2014ء کے بعد بھی افغانستان پر 4ارب ڈالر سالانہ خرچ کر رہا ہے۔ افغان ایئر فورس کو بالخصوص نئے سازو سامان سے مسلح کیا جا رہا ہے اور افغان نیشنل آرمی کو اس قابل بنانے کی سعی کی جا رہی ہے کہ وہ طالبان سے نمٹ سکے۔ جدید ترین اسلحہ اور گولہ بارود افغان فورسز کو فراہم کیا جا رہا ہے۔ لیکن زمین پر جو صورت حال ہے وہ نہ تو امریکی ٹروپس کے قابو میں آ رہی ہے اور نہ افغان حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ اگر اتنی سی بات امریکیوں کی کھوپڑی میں نہیں بیٹھ رہی کہ چودہ برس تک مسلسل ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ فارن ٹروپس کی ان تھک کوششوں اور بے تحاشا گولہ بارود کے استعمال کے باوجود بھی ایساف اور ناٹو کو افغانستان چھوڑنا پڑا تو اب یہ 8400 امریکی/ ناٹو ٹروپس کیا کر لیں گے؟۔ جس افغان نیشنل آرمی (ANA) کو ٹرین کرنے کا وہ دعویٰ کر رہے ہیں وہ اتنی جلد ٹرین نہیں ہو سکتی۔ عسکری روایات بنتے بنتے بنتی ہیں۔ اگر ٹینک، توپیں، طیارے، بکتر بند گاڑیاں، میزائل اور ان کا اسلحہ بارود کسی قوم کو ٹرین کر سکتا تو آج سعودی فورسز دنیا کی چند بہترین افواج میں شمار ہوتیں۔ یہی عرب تھے جو صدیوں تک مشرق و مغرب پر یلغاریں کرتے رہے۔ کونسی فیلڈ تھی جس میں وہ پس ماندہ تھے؟۔  لیکن آج وہی عرب ہیں جو نہ کسی فیلڈ میں ترقی یافتہ ہیں اور نہ کسی میدانِ جنگ میں سرخرو ہیں۔

لیکن افغان ایک جنگ آزمودہ قوم ہے۔ اس کی تاریخ یہ ہے کہ یہ قوم کسی منظم عسکری تنظیم میں آج تک نہیں ڈھل سکی۔ گوریلا طرز جنگ میں بے شک ان کو مہارت حاصل ہے اور چھاپہ مار کارروائیوں کا جتنا تجربہ ان کو ہے شاذ ہی کسی اور قوم کو ہوگا۔ لیکن ریگولر آرمی اور ریگولر ایئر فورس میں ڈھلنے کے لئے افغانوں کو ایک طویل عرصہ درکار ہو گا۔  کیا امریکی مزید اتنا عرصہ یہاں قیام کر سکیں گے؟ اگر طالبان کی طرف سے خود کش حملوں کا موجودہ سلسلہ جاری رہا تو اول تو اسی سال کے آخر میں صدر اوباما کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑے گا یا نئے صدر کو نئی افغان پالیسی تشکیل دینا پڑے گی۔

صدر اوباما کا یہ دعویٰ بھی نہایت کھوکھلا ہے کہ وہ افغانستان میں پہلے کی طرح کسی دہشت گرد کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ’’محفوظ پناہ گاہوں‘‘ میں بیٹھ کر دوبارہ امریکہ پر حملے کی پلاننگ کر سکے۔۔۔۔ کیا ان کو معلوم نہیں کہ نو گیارہ کے حملہ آوروں میں کوئی افغان نہیں تھا۔ وہ سب کے سب (یا ان میں 90 فیصد لوگ) عرب تھے۔ انہوں نے افغانستان میں بیٹھ کر اگر نو گیارہ کی پلاننگ کی تھی تو اس میں طالبان کا کتنا ہاتھ تھا؟ طالبان کو تو بنانے والا ہی خود امریکہ تھا۔ البتہ امریکہ کو یہ فکر کرنی چاہئے کہ نو گیارہ کی پلاننگ کرنے والوں کی نفسیات کا معمار کون تھا۔۔۔۔ یہ سوال چھ ملین ڈالر کا ہے۔۔۔ اس کا جواب اوباما، آش کارٹر اور جنرل ڈن فورڈ کو ڈھونڈنا چاہئے۔ میں نے اسی لئے تو عرض کیا ہے کہ امریکی قوم بیک وقت عقلمند اور بے وقوف ہے، بہادر اور بزدل ہے، دور اندیش اور کوتاہ بین ہے اور نہیں جانتی کہ صرف اس کی مضبوط فضائیہ یا مضبوط تر بحیرہ کسی نئے نو گیارہ کو نہیں روک سکتی۔

افغانستان کی صورت حال کا براہِ راست تعلق پاکستان کی صورت حال سے جڑا ہوا ہے اس لئے ہمیں اپنے ہمسائے میں ہر قسم کی امریکی، بھارتی، یورپی یا اسرائیلی مووز (Moves)کی خبر رکھنی چاہئے۔ ہمیں چاہئے کہ سوچیں کہ امریکہ ہمارے ہمسائے میں 8400 کی یہ نفری کیوں رکھ رہا ہے۔ کیا یہ ہزاروں لوگ افغان آرمی کی ٹریننگ تک محدود رہیں گے یا ان کا کوئی اور مشن بھی ہے؟۔ اور پھر یہ ٹریننگ افغانوں کو کس اسلحہ پر دی جا رہی ہے، کون سے ممالک ان کو گولہ بارود فراہم کر رہے ہیں، کون بھاری ہتھیار دے رہے ہیں، کون پلاننگ کی است و بود کی تدریس کر رہے ہیں؟۔۔۔ کیا ساڑھے تین لاکھ نیشنل آرمی اور نیشنل پولیس کو ٹریننگ دینے کے لئے ٹریننگ سنٹروں کا کوئی سلسلہ بھی بنایا گیا ہے؟ کیا کوئی نئی ملٹری اکیڈیمی تشکیل دی گئی ہے؟ کیا کوئی بنیادی عسکری تدریسی ادارے مثلاً (سکول آف انفنٹری، سکول آف آرٹلری، سکول آف آرمر، سکول آف سگلنلز، سکول آف انجینئرز وغیرہ) قائم کئے جا رہے ہیں؟ کیا دوسری سپورٹنگ عسکری تنصیبات قائم کی جا رہی ہیں؟۔۔۔ اگر ایسا نہیں ہو رہا تو پھر یہ 8400 کی امریکی نفری وہاں کیا کر رہی ہے؟ اگر ایئر فورس کو ٹریننگ دی جا رہی ہے تو ائر اکیڈمی کا انفراسٹرکچر کہاں ہے؟ ہمارے میڈیا کے کسی چینل پر یہ تفصیلات بھی آن ایئر ہونی چاہئیں تاکہ ہمیں پتہ چل سکے کہ اس امریکی نفری کے افغانستان میں قیام کا جواز کیا ہے؟۔۔۔ کیا یہ افغان آرمی، افغان پولیس اور افغان ایئر کی ٹریننگ کی جا رہی ہے یا کسی ہمسائے پر نظرِ عنایت کی تیاریاں ہیں؟

لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان

Post a Comment

0 Comments