All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

انٹرنیٹ کی پچانوے فیصد ’’ سپیس‘‘ جرائم پیشہ لوگوں کے زیر استعمال ہے

کتاب ’’فیوچر کرائمز‘‘ کے مصنف مارک گڈمین جو سائبر کرائمز کی روک تھام والی ایجنسیوں سے وابستہ رہے اور جنہوں نے بہت سے خطرناک افراد اور گروہوں کے نیٹ ورک ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ’’اپنی کتاب میں اعتراف کرتے ہیں کہ سائبر کرائمز سے وابستہ افراد عام طور پر آن لائن بزنس کی مروجہ ٹیکنالوجی سے بھی کچھ آگے کی ٹیکنالوجی سے آشنا ہوتے ہیں۔ وہ وہاں تک پہنچے ہوتے ہیں جہاں ان پر ہاتھ ڈالنے والے قانون کے محافظ بہت بعد میں پہنچتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ جرائم پیشہ لوگ نئی نئی ٹیکنالوجی مثلا ربوٹیکس، ورچوئیل ریالٹی،مصنوعی ذہانت،تھری ڈی پرنٹنگ، اور سن تھیٹک بیالوجی جیسے نئے علوم کی تکنیکس سے آشنا ہیں۔ مجرموں کے یہ منظم گروہ اور دہشت گرد جدید ٹیکنالوجی سے پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ 

مصنف نے ٹیکنالوجی کے انسانی تعمیر وترقی میں انتہائی اہم کردار اور اس کے شاندار مستقبل پر یقین رکھنے کے باوجود ٹیکنالوجی کے ساتھ چمٹی ہوئی تمام برائیوں اور آلائشوں سے متعلق تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ دنیا بھر کے انسانوں کے آن لائن رابطوں اور تبادلہ معلومات سے جو شاندار نتائج حاصل ہورہے ہیں انہوں نے صدیوں پہلے سے انسان کی طرف سے جدید تر ٹیکنالوجی کے دیکھے گئے خوابوں کو حقیقت میں بدل دیا ہے،لیکن اس وقت انفرمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ لاکھوں لوگ مختلف مقاصد کے لئے منفی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔

یہ لوگ اپنے منفی مقاصد کے لئے ہر ماہ بیس لاکھ کے قریب تخریبی پروگرام تیار کرتے ہیں، ہر روز انٹرنیٹ اور کمپیوٹرز پر موجود لوگوں کو پریشان کرنے کے لئے دو لاکھ کے قریب کوششیں کی جاتی ہیں۔ جرائم پیشہ گروہوں کے علاوہ کمپیوٹر سافٹ وئیر یا نیٹ ورکس پر کام کرنے والے بہت سے لوگ شرارت کے موڈ میں دوسروں کو پریشان کرنے کے لئے نت نئی حرکتیں کرتے ہیں ۔ بڑی کمپنیوں کے ڈیٹا کو تحفظ دینے کے لئے جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس بہت سے ادارے کام کررہے ہیں، اس کام نے ایک بڑی انڈسٹری کی حیثیت حاصل کررکھی ہے 249 آن لائن ڈیٹا کا تحفظ کرنے والے ان اداروں کی سالانہ آمدنی ڈیڑھ کھرب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہے،جو امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کے مجموعی سالانہ بجٹ سے زیادہ ہے۔
یہ واضح ہے کہ جرائم پیشہ 249 ہیکرز اور دہشت گرد موجودہ زمانے کے آن لائن رابطوں ہی کو عام لوگوں، اداروں اور حکومتوں کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔ ان کے مقاصد میں مال بنانے سے لے کر سیاسی مقاصد اور دہشت گردی شامل ہیں۔ ٹیکنالوجی کی غیر محفوظ ڈھال کے پیش نظر ان لوگوں نے خود کوایک خوفناک طاقت ثابت کیا ہے۔ بعض صورتوں میں یہ مجرمانہ کارروائیاں بعض حکومتوں کے ایما پر بھی دوسرے ملکوں کے خلاف ہورہی ہیں۔ مئی2013ء میں امریکی حکومت نے الزام عائد کیا کہ چین امریکہ کے اہم دفاعی اور حکومتی نظام کی انفرمیشن چرانے کا ذمہ دار ہے۔ آہتہ آہستہ امریکیوں کو یہ بھی معلوم ہو ا کہ ان کے تین کھرب ڈالر کے دفاعی پروگرام F- 35 ، میزائل ڈیفنس سسٹم ،بلیک ہاک ہیلی کاپٹرز، کمبیٹ شپ اور بعض دوسرے دفاعی سسٹمز کے راز چرا لئے گئے ہیں۔ امریکی ایجنسی ایف بی آئی کی رپورٹ کے مطابق چین نے خفیہ طور پر ایک لاکھ اسی ہزار افراد پر مشتمل سائبر جاسوسوں اور جنگجوؤں کی ایک فورس تیار کررکھی ہے جو کہ امریکہ کے صرف ڈیفنس نیٹ ورک کے خلاف نوے ہزار کمپیوٹر حملے سالانہ کررہی ہے۔

ایسے حملوں کے امریکی سلامتی پر اثرات چونکا دینے والے ہیں۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ اس طرح چین کی طرف سے امریکہ کے اہم دفاعی پروگراموں کے بلیو پرنٹس حاصل کرلینے سے ان پروگراموں کے کام کی نوعیت کے متعلق تمام اہم معلومات چین کو حاصل ہوگئی ہیں۔ اس طرح چین نے خود اپنے ہاں اس طرح کی ٹیکنالوجی کے لئے تحقیق پر خرچ کئے جانے والے اربوں ڈالر بچا لئے ہیں۔امریکیوں کا کہنا ہے کہ دنیا کے ایک سو تین ملکوں میں سائبر جاسوسی کا ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے جسے چین میں موجود سرورز کے ذریعے کنٹرول کیا جارہا ہے۔ امریکہ کی سائبر سیکیورٹی فرم میڈیانٹ نے الزام عائد کیا کہ چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے ایک یونٹ کی طرف سے امریکی کمپیوٹر نیٹ ورکس پر حملے کئے جاتے ہیں ۔ اس یونٹ کا ہیڈ کوارٹر شنگھائی ڈسٹرکٹ میں ایک لاکھ تیس ہزار مربع فٹ کی ایک بارہ منزلہ عمارت میں ہے۔ جس میں موجود ہزاروں ملازم دن رات کام کررہے ہیں۔

ان کا کام دنیا بھر کی حکومتوں، کمپنیوں اور افراد کے کمپیوٹرز سے معلومات چوری کرنا ہے۔ ایک اور امریکی کمپنی اکامائی کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہونے والے سائبر حملوں سے اکتالیس فیصد صرف چین کی طرف سے کئے جاتے ہیں۔ ان تمام الزامات کے باوجود چین کی طرف سے ایسے حملوں میں کسی طرح ملوث ہونے کی سختی سے تردید کی گئی ہے۔ایسے الزامات کی صورت میں چینی حکومت کی طرف سے ہمیشہ یہ کہا گیا ہے کہ چین ہرطرح کے سائبر حملوں کے سخت خلاف ہے اور سائبر سپیس کو محفوظ بنانے کے لئے دوسرے ملکوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے۔ ایف بی آر کے ایک سابق ڈائریکٹر رابٹ مولر کے بقول صرف چین ہی نہیں بلکہ دنیا کے ایک سو آٹھ ممالک میں باقاعدہ منظم سائبر حملوں کے یونٹ قائم ہیں جو دوسرے ممالک کے انڈسٹریل راز اور دوسری اہم تنصیبات کے پیچھے لگے رہتے ہیں۔

اسی طرح کا ایک حملہ2013ء کے اواخر میں کٹنگ سورڈ آف جسٹس نامی فرضی نام سے ہیکرز نے سعودی عرب کی تیل کی سب سے بڑی کمپنی آرامکو پر کیا۔ یہ حملہ کمپنی کے اپنے کسی ملازم کے ذریعے کیا گیا جس نے ایک وائرس والی ڈرائیو کمپنی کے کمپیوٹر نیٹ ورک سے منسلک ایک کمپیوٹر میں ڈال دی۔ شمعون نامی یہ وائرس جنگل کی آگ کی طرح آرامکو کے تیس ہزار کمپیوٹرز میں داخل ہوگیا۔اس حملے کا مقصد آرامکو کی تیل کی پیداوار بند کرنا تھا  جس میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی تاہم ان کمپیوٹروں میں موجود کمپنی کا ڈیٹا ختم کردیا گیا ۔ پچہتر فیصد کمپیوٹرز کی ہارڈ ڈرائیوز کو بالکل صاف کردیا گیا جس سے کمپنی کی سپریڈ شیٹس، ای میل فائیلزاور ددسر ا ریکارڈ ضائع ہو گیا۔ ان فائیلز کی جگہ صرف جلتا ہوا امریکی جھنڈا نظر آرہا تھا۔ امریکہ کی طرف سے اس حملہ کے پیچھے ایرانی ہاتھ قر ار دیا گیا۔

امریکی ماہرین کی طرف سے بہت سے امریکی بنکوں پر ایسے حملوں کے پیچھے بھی ایرانیوں کی نشاندہی کی گئی ۔2007ء میں ٹی جے میکس نام سے ایک نیا خوفناک سائبر حملہ ہوا،جس میں ساڑھے چار کروڑافراد ا ور ان کا مالیاتی ڈیٹا متاثر ہوا۔ اسی سلسلے کا ایک بڑا حملہ جون 2011ء میں سونی کے کمپیوٹر گیمز نیٹ ورک PlayStation پر ہوا۔ جس نے سات کروڑ ستر لاکھ آن لائن اکاؤنٹس تک رسائی حاصل کرلی۔ اس حملے کا شکار ہونے والوں میں کریڈٹ کارڈ نمبرز، نام، ایڈریس، تاریخ پیدائش وغیرہ کی معلومات تھیں۔ اس حملے کی وجہ سے پلے سٹیشن نیٹ ورک کئی روز تک آف لائن رہا، جس سے دنیا بھر میں اس کے استعمال کرنے والے گاہک متاثر ہوئے اور کمپنی کو ایک ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا۔ اسی طرح روس کے ایک سترہ سالہ ہیکر نے2013ء میں ٹارگٹ نامی امریکی سٹورز کی شاخوں سے گیارہ کروڑ اکاؤنٹس کا کریڈٹ کارڈز کا ڈیٹا چوری کرلیا۔ اس بہت بڑے سائبر حملے نے بیک وقت امریکہ کی ایک تہائی آبادی کو لوٹنے کا اہتمام کیا۔ 

دنیا کی تاریخ میں ڈاکہ زنی کا اتنا بڑا واقعہ کبھی پیش نہیں آیا تھا کہ ایک ہی وقت میں گیارہ کروڑ افراد کو لوٹ لیا جائے۔ اس بہت بڑے سائبر حملے سے ہونے والے وسیع تر نقصانات کا اندازہ قارئین خود کرسکتے ہیں۔ اس واقعہ کے ایک ہی سال بعد اگست 2014ء میں اس سے بھی بڑا ایک سائبر حملہ روس کے ایک ہیکرز گروپ نے کیا ۔ جنہوں نے کریڈٹ اور اے ٹی ایم کارڈز استعمال کرنے والے ایک ارب بیس کروڑ افراد کے نام ،پاس ورڈز اور دوسرا ہر طرح کا خفیہ ڈیٹا حاصل کرلیا۔ اس کی اطلاع امریکی ادارے ہولڈ سیکیورٹی نے دی۔ اس کے مطابق ہیکرز نے یہ سب ڈیٹا چارلاکھ بیس ہزار ویب سائٹس سے چرایا۔

مصنف ہر طرح کے گھناؤنے سائبر کرائمز میں مصروف انڈرورلڈ کے ایسے ڈانز کا ذکر بھی کرتا ہے جنہوں نے دنیا کے ایک سو سے زائد ممالک میں موجود ہزاروں کمپیوٹرزکی مدد سے اپنی انڈر ورلڈ ایمپائر قائم کررکھی تھی اور جو اپنے گروپ کے کسی بھی فرد کو اپنی ٹیم کے قواعد سے ذرا بھی ادھر ادھر کھسکنے کے جرم میں قتل کرادیتے تھے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ کمپیوٹرز اور انٹرنیٹ استعمال کرنے والے عام لوگ اصل انٹرنیٹ دنیا کے پانچ فیصد سے بھی واقف نہیں ہیں۔ پچانوے فیصد انٹرنیٹ سپیس جرائم پیشہ افراد کے زیر استعمال ہے۔ ان جرائم پیشہ افراد کی سائبر انڈر ورلڈ اس قدر وسیع اور گہری ہے کہ عام لوگ اس کا تصور کرنے سے بھی قاصر ہیں۔

ڈاکٹر شفیق جالندھری

Post a Comment

0 Comments