All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

شکارپور…ایک تاریخی شہر

سندھ کے کئی شہر وقت کی دھند میں اپنا اصلی چہرہ کھو چکے ہیں۔ کچھ شہر تو کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں، لیکن ان کی قدامت میں آج بھی شاندار ماضی کی یادیں تازہ ہیں۔ شہر کی انفرادیت اور حسن، مکین قائم رکھتے ہیں یا پھر ان شہروں کی انتظامیہ اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جب شہروں کے اصل مکین آہستہ آہستہ رخصت ہونے لگتے ہیں، تو قریبی گاؤں کے لوگ ان شہروں میں آ کر آباد ہو جاتے ہیں۔ شکارپور بھی سندھ کا ایسا شہر ہے جو ماضی کی تمام ترخوبصورت روایتوں کے ساتھ آج شکستہ اور بے یارومددگارکھڑا ہے۔ یہ شہر 1617ء میں داؤد پوتا نے تعمیرکیا تھا۔ سندھ میں سب سے پہلے داؤد پوتا کا امیر احمد آیا تھا۔ جس کا تعلق مکران سے تھا۔ وہ بلوچستان کے راستے سے سندھ میں داخل ہوا اور ٹھٹھہ شہر میں رہائش اختیار کی۔ 1603ء کی جنگ میں داؤد پوتا کو فتح حاصل ہوئی۔ انھوں نے اس کامیابی کی یاد قائم رکھنے کے لیے شکار پور شہرکی بنیاد رکھی۔
یہ شہر کبھی بہت بڑا کاروباری مرکز ہوا کرتا تھا۔ ایشیا سے لے کر دور دراز ملکوں تک دوسرا کوئی ایسا بڑا مرکز نہ تھا۔ اس شہر میں امیر ترین ہندو بستے تھے۔ لوکرام ڈوڈیجا لکھتے ہیں ’’شکارپور شہر کی بناوٹ دنیا کے قدیم شہروں بخارا، سمرقند، استنبول جیسی ہے۔ جیسے ان کے شہروں میں بازار ڈھکے تھے، بالکل اسی طرح شکارپور کے بازار دھوپ، بارش اور لُو سے بچنے کے لیے ڈھکے ہوئے تھے۔ ان قدیم شہروں کی طرح یہاں بھی زبردست قلعہ تھا۔ جس کے آٹھ شاہی دروازے تھے۔ جن پر سرشام بڑے تالے لگ جاتے۔‘‘چار سو سال پرانا یہ شہر تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ شہر باغات، خوبصورت گلیوں، حویلیوں، لکھی در، شاہو باغ، سندھ واہ، منفرد کھانوں اور سماجی رابطوں کی وجہ سے مشہور تھا۔
شکارپور میں سماجی سرگرمیوں اور تہوار منانے میں خاصا جوش و خروش دیکھنے میں آتا۔ کہا جاتا ہے کہ شام میں جب لوگ نکلتے توکپڑوں پر خوب گلاب کا پانی چھڑکتے۔ پھول بیچنے والے الگ جگہ جگہ دکھائی دیتے۔ ہوا کے ہر جھونکے کے ساتھ پھولوں کی خوشبو سے پورا ماحول معطر ہو جاتا۔ لوگوں کا لباس، اٹھنا بیٹھنا، ادب وآداب، لہجے کی نرمی، رومانیت پسندی، گھروں کی سجاوٹ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ عورتیں پڑھی لکھی، سمجھدار اور مل جل کر رہنے والی تھیں۔ حالانکہ اس زمانے میں عورتوں کو تعلیم دلوانا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ تعلیم کے فروغ کے حوالے سے خان بہادر قدردان خان اور شیخ صادق علی انصاری کے نام قابل تحسین ہیں۔ جنھوں نے سندھ میں تعلیم کو عام کرنے کے سلسلے میں بڑی جدوجہد کی۔ ڈاکٹر ساراں صدیقی سندھ کی پہلی مسلمان خاتون تھیں، جو ایم بی بی ایس کرنے کے بعد مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک گئیں۔
گھروں میں ہالا یا کشمور کی جنڈی سے بنے جھولے ہوا کرتے۔ کھانا پکانے کے لیے مٹی کے برتن استعمال کیے جاتے۔ مٹی سے بنے ہوئے توے کی روٹی کا الگ ہی مزا تھا۔ پانی کے لیے صراحیاں اور مٹکے استعمال ہوتے۔ شکارپور کے کھانے اپنی مثال آپ تھے۔ سبزیوں کے پکوان ذائقے دار اور منفرد ہوتے۔ سردی اور گرمی کے کھانے الگ ہوتے۔ مٹھائی کی تو بات ہی مت پوچھیے۔ یہاں کی بنی ہوئی برفی، بیج و ناریل سے بنی ہوئی مٹھائی فرمائش کرکے لوگ منگوایا کرتے۔
اگر آپ نے شکارپور کے اچار اور مربے نہیں کھائے تو دسترخوان کا ذائقہ ادھورا سمجھیے۔ جیساکہ پہلے ہی یہاں کی خواتین کے سگھڑاپے کا ذکر کرچکی ہوں۔ جو گھروں میں کفایت و سہولت کی خاطر چٹنیاں، اچار اور مربے بنایا کرتیں۔ جو مختلف اشیا سے بنائے جاتے جن میں لہسن، ادرک، پیاز، لیموں، آم، فالسے، سیب، بادام، کشمش، بیھ، بینگن غرض یہ کہ ہر طرح کی سبزیوں و میوہ جات سے بنے یہ مربے، اچار دستر خوان کی زینت بڑھا دیتے۔

شکار پور کے باسیوں کی سمجھ اور سلیقہ بھی دیکھیے کہ چیزیں موسم کی مناسب سے تیار کی جاتی تھیں۔ سردیوں میں کھوئے کے ساتھ خش خش، چھوارے، چلغوزے و بادام سے بنی مٹھائی جسم میں حرارت بھر دیتی اورگرمیوں میں تھادل، چندن، گاؤ زبان کے شربت ٹھنڈک کا احساس دلاتے۔ یہ شہر قدیم زمانے سے فن و فکر کا گہوارا رہا ہے۔ ویدانتی شاعر سامی، بدوی لطف اللہ جوگی، جھامنداس بھاٹیہ، شیخ ایاز، ثمیرہ زرین، نندلال جویری، بشیر موریانی کی ادبی خدمات قابل ذکر ہیں۔ شیخ ایاز نے شعرو نثر میں شکارپور کے ماحول اور وہاں گزارے ہوئے بچپن کا ذکر کیا ہے۔ شیخ ایاز کا زمین سے رشتہ مربوط تھا۔ اپنی دھرتی سے روحانی رابطہ، شاعر کو وقت کی تاریخ میں امر کر دیتا ہے۔
یہ شکارپور جو کبھی کھیلوں، اسٹیج ڈراموں، ادبی تحاریک، سماجی رابطوں اور خوبصورت عمارتوں کا شہر ہوا کرتا تھا، آج اس شہر کا نقشہ بدلا ہوا ہے۔ اس کی اداسی پرانے مکینوں کی محبت میں سرگرداں دکھائی دیتی ہے۔

شہروں کی رونقیں بھی خالص مکینوں کے دم سے قائم رہتی ہیں۔ وہ مکین جو شہر کا مزاج سمجھتے ہیں۔ بہتر مستقبل کی تلاش میں اس شہر کے اصلی باسی رخصت ہوتے رہے اور انھوں نے پلٹ کر اپنے شہر کو نہ پوچھا۔ اشتیاق انصاری اس ضمن میں لکھتے ہیں۔ ’’افسوس کہ تقسیم کے وقت اس شہر کے محلات و حویلیاں بے قدری کی نظر ہو گئیں۔ سندھ حکومت نے 1998ء میں شکارپور کو تاریخی ورثہ قرار دیا۔ یونیسکو نے بھی شکارپورکی 1203 عمارتوں کو ثقافتی ورثہ قرار دیا۔ اس کے باوجود بھی اس ثقافتی ورثے کی تین سو قدیم عمارتیں مٹا دی گئیں اور ان کے نقش و نگار والے دروازے، کھڑکیاں اور کاشی کے قدیم نمونے نیلام ہو چکے ہیں۔‘‘

اس لاپرواہی میں شہر کے بے خبر مکینوں کا بھی حصہ ہے۔ جو شہر کے ساتھ زیادتیاں ہوتے دیکھ کر بھی ان کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے۔ یہ مکین نہ تو شہروں کا مزاج سمجھتے ہیں اور نہ ہی مٹی کی مہک کے ساتھ روحانی رشتہ برقرار رکھتے ہیں۔

شبنم گل

Post a Comment

0 Comments