All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

امریکی اتحادی افواج، افغانستان میں براجمان کیوں؟

چندہفتے قبل، ایک ڈرون حملے میں مُلّا منصور کو ہلاک کر دیا گیا ۔ امریکی صدر
باراک اوباما کی حکومت کے مطابق وہ چار فریقی مذاکرات میں امریکی پالیسیوں کی خواہشات کے تحت، افغانستان میں قیام امن کے لئے مثبت کردار ادا کرنے سے گریزاں تھے۔ گزشتہ چند ماہ سے یہ مذاکرات تعطل کا شکار چلے آ رہے تھے۔ امریکی اتحادی افواج، اگرچہ آج کل افغانستان میں، نسبتاً کم تعداد میں موجود ہیں، لیکن امن کے رعب و داب کی بنا پر، صدر افغانستان اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے پالیسی بیانات اور اُن کا لب و لہجہ دہشت گردی کے بارے میں پاکستان کی سیاسی قیادت کے ساتھ تاحال زیادہ تر جارحانہ اور حاکمانہ ہی جاری ہے۔

امریکی حکمرانوں نے گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران، دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے حکومت کی مخلصانہ کوششوں اور پاکستان کے عوام کے جان و مال کی بیش قیمت قربانیوں کا صحیح انداز میں اعتراف نہیں کیا ہے۔ امریکی اتحادی افواج تو دیگر ممالک سے ہزاروں میل کا سفر کر کے یہاں براجمان ہوئی ہیں۔ انہوں نے دہشت گردی کے سدِ باب کی آڑ میں افغانستان اور قرب و جوار کے خطۂ ارض میں لاکھوں کی تعداد میں بے قصور مسلمانوں کو شہید، مضروب اور معذور کر دیا ہے۔ مُلّا منصور ان ظالمانہ کارروائیوں کا تازہ ہدف بنے ہیں۔ کیا یہ پالیسی، علامتی امن اور انصاف کے اصولوں کی غمازی کرتی ہے؟ کیا اقوام متحدہ کے منشور میں عالمی امن اور رکن ممالک کے تحفظ اور سلامتی کے لئے عملی طور پر محض کسی ایک یا زیادہ بڑی طاقتوں کو اپنی من مانی پالیسیوں کی اجارہ داری اختیار کرنے کا کھلا استحقاق فراہم کر دیا گیا ہے؟
اگر ایسی صورت حال نہیں تو پھر موجودہ جارح مزاج طاقتیں مسلم ممالک بشمول پاکستان میں گاہے بگاہے ڈرون حملوں کی ظالمانہ کارروائیوں کا تسلسل کیوں جاری رکھ رہی ہیں؟ امریکہ بہادر خود ہی پاکستان کو چند سال قبل اپنا نان نیٹو اتحادی دوست مُلک بنانے کا اہم درجہ دینے کا اعلان کر چکا ہے تو پھر ایسی صورت حال میں کیا صدر اوباما متذکرہ بالا قابلِ اعتراض طرزِ عمل پر نظرثانی کے لئے تیار ہیں؟ امریکی حکمرانوں کو یہ حقائق پسندی پر مبنی عادلانہ اصول، ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے، کہ وہ بھی بین الاقوامی قوانین پر عمل و احترام کے اسی طرح پابند اور جوابدہ ہیں، جس طرح اقوام متحدہ کے دیگر192ممالک، اس طرح امریکہ بہادر اور اُن کے اتحادی ممالک، اپنی من مرضی اور خواہش کے تابع ہو کر کسی وقت بھی متعلقہ بین الاقوامی قوانین کو پامال اور تباہ حال کرنے کا کوئی حق و اختیار نہیں رکھتے۔ افغانستان براعظم ایشیا میں واقع ایک اہم مُلک ہے۔ یہاں کی اکثریتی آبادی بہادر، جفا کش اور باغیرت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔

پاکستان اس مُلک کے مشرق میں واقع ہے۔ امریکی اتحادی افواج، اپنے اپنے ممالک سے ہزاروں میل دور آ کر اب یہاں کیا کر رہی ہیں؟ اگر امریکہ اور اس کے اتحادی یورپی ممالک کو جمہوری نظام حکومت کے قیام و استحکام کی اشد ضرورت ہے، تو پھر افغانستان کے عوام کا کیا قصور ہے؟ کہ انہیں اِس بنیادی انسانی حق سے یکسر محروم رکھا جائے۔ امریکی اتحادی افواج، اب افغانستان کی سرزمین سے براہ مہربانی، اپنے ممالک کو واپس چلی جائیں۔ مذکورہ بالا اتحادی حکمران جانتے ہیں کہ جب غیر ملکی افواج، دیگر مفتوحہ علاقوں میں داخل ہوتی اور کئی برسوں کے لئے وہاں ڈیرے ڈالے رکھتی ہیں تو پھر وہ بیشتر معاملات میں اپنی پسند، مرضی اور غیر قانونی کارروائی کے حسبِ منشا ارتکاب سے گریز نہیں کرتیں۔

سابقہ ادوار کی مثالوں سے صاف ظاہر ہے کہ حملہ آور قوتیں، مفتوحہ علاقوں کو نہ صرف، بے تحاشا تباہی اور بربادی سے دوچار کرتی ہیں، بلکہ وہاں کی روایات تہذیب و ثقافت کو تباہ و برباد کر کے جان و مال کے وسیع پیمانے پر نقصانات سے بھی، دوچار کرتی ہیں۔ پاک آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا تازہ بیان قابلِ غور ہے کہ مُلّا منصور کو امریکی ڈرون حملے میں مارنے کا وقوعہ محض قابل مذمت سے کہیں بڑا اور ناقابلِ معافی سانحہ ہے۔ اس ردعمل اور پاکستان کے لوگوں کے احتجاج پر بھی اوباما انتظامیہ کو اب سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ بہتر یہ ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج جلد واپس کُوچ کر جائیں۔

مقبول احمد قریشی ایڈوکیٹ


Post a Comment

0 Comments