All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

حضور - جواب تو آپ پر فرض ہے

یہ آف شور کمپنیاں کیا ہوتی ہیں، ہم جیسے عام پاکستانیوں کے لئے تو ایسی کمپنیوں کا نام ہی غیر قانونی لگتا ہے۔ ’آف شور‘ سے لفظی طور پر مراد’ ساحل سے دور‘ ہے، اس کا ترجمہ ’غیر ملکی‘ کے طور پر زیادہ بہتر قرار دیا جا سکتا ہے۔ عمومی تصور یہی ہے کہ ایسی کمپنیاں کسی ایسے دوسرے ملک میں قائم کی جاتی ہیں جہاں ٹیکس کی چھوٹ ہی نہیں ہوتی بلکہ نہ تو یہ پوچھا جاتا ہے کہ ان کے اصل ، حقیقی مالک کون ہیں اور وہ یہ سرمایہ کہاں سے لائے۔ کاروباری دنیا کے اصولوں اور مفادات کو مدنظر رکھا جائے تو ہر سرمایہ کار کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے سرمائے کے تحفظ کے ساتھ ساتھ کم سے کم ٹیکس ادا کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ قانونی منافع حاصل کرنے کے لئے دنیا میں کہیں بھی کاروبار کرے۔

دنیا بھر میں ممالک سرمایہ کاروں کو اس حوالے سے پرکشش پیش کشیں کرتے رہتے ہیں مگر ترقی پذیر ممالک کے حکمرانوں سمیت دیگر بااختیار لوگوں کے ایسے کاروباروں کو عمومی طور پر سوئس اکاونٹس کی طرح ہی سمجھا جاتا ہے یعنی کسی بھی شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی بینک میں اپنا سرمایہ محفوظ کرے مگر جب وہ ایسے بینک کا چناو کرے گا جہاں اس سے آمدنی کے ذرائع کے بارے نہیں پوچھا جائے گا اوروہ بینک اسے خود اس کے اپنے ملک کے قانونی اداروں سے تحفظ دیں گے تو یقینی طور پر شک پیدا ہوگا کہ یہاں سرمایہ جمع کرنے یا سرمایہ کاری کرنے والوں کے اصل مقاصد کیا ہیں۔ خاص طور پر جب ہم حکمرانوں کی بات کرتے ہیں تو ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا بھر سے سرمایہ کاروں کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کے لئے دعوت دیں تاکہ ملکی معیشت بہتر ہو، عوام کو روزگار ملے مگر جب سرمایہ کاروں کو علم ہوگا کہ فلاں ملک کا حکمران خاندان خود اپنے ملک میں سرمایہ کاری کو محفوظ نہیں سمجھتا تو وہ ایسے ملک میں سرمایہ کاری کا رسک کیسے لیں گے۔
پانامہ لیکس میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور ان کی اولاد کے ساتھ ساتھ دیگر بااثر لوگوں کی آف شور کمپنیوں کا ریکارڈ سامنے آ گیا ہے۔ حکمران خاندان اور جماعت سے وابستہ لوگ اس امر کی وکالت کر رہے ہیں کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب سے وابستہ لوگوں نے کسی قسم کی کوئی غیر قانونی ٹرانزیکشنز نہیں کیں ۔ ماضی میں یہ معاملہ اس وقت خرا ب ہوا تھا جب موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے سمدھی اور قائد بارے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے غیر قانونی طریقے سے رقوم پاکستان سے باہر منتقل کی تھیں۔ پاکستان میں عمومی طور پر سیاسی اور کاروباری اخلاقیات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔

یہ بھی پاکستان میں ہوا کہ ایک سیاسی رہنما نے عوام سے قانونی ذرائع کی بجائے ہنڈی کے ذریعے بیرون ملک رقوم بھیجنے کی اپیل کی تاکہ اس کی نظر میں حکومت کو نقصان پہنچایا جا سکے مگر حقیقت میں ایسا کوئی بھی کام اصل میں ریاست کو نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ امر آف شور کمپنیوں کا سوئس اکاونٹس کو جواز دینے کے لئے ہرگز بیان نہیں کیا جا رہا مگر زمینی حقیقت یہی ہے کہ ہمارے بہت سارے سیاستدان پے در پے لگنے والے مارشل لاوں کے بعد اپنا اور اپنے بچوں کا مالی مستقبل پاکستان میں غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں کسی بھی سیاسی اور غیر سیاسی حکومت کے دوران ملک سے بھاگنا پڑ سکتا ہے اور ایسے میں ان کے پاس بیرون ملک اتنے ذرائع اور وسائل ضرور ہونے چاہئیں کہ وہ نہ صرف ’’ عزت‘‘ کی زندگی گزار سکیں بلکہ اس دولت اور سرمایے کے ذریعے وہ اپنی سیاسی زندگی کو بھی تحفظ دے سکیں۔

پاکستان میں میڈیا عمومی طور پر سیاسی لوگوں پر زیادہ چڑھائی کا عادی ہے ورنہ اس میں بیوروکریٹوں اور ججوں سمیت بڑی بڑی مقدس گاؤں کے نام بھی شامل ہیں جن کو بوجوہ گالیاں نہیں دی جا سکتیں۔ وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے بھی اپنی آف شور کمپنیوں کے بارے کچھ اسی قسم کے دلائل دئیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب پرویز مشرف کے دور میں انہیں جلاوطن کیا گیا، ان کے مطابق وزیراعظم کے صاحبزادے ہونے کے باوجود وہ ایک غیر سیاسی شخصیت تھے، انہیں کئی ماہ تک قید میں رکھا گیا اور جب ملک سے جانے کی اجازت دی گئی تو پاسپورٹ تک ساتھ نہیں لے جانے دیا گیا۔ اب اگر ان کے بیرون ملک کاروباروں بارے پوچھا جاتا ہے تو وہ بھی سوال کرتے ہیں کہ جب ان کے خاندان نے بیرون ملک رہنا تھا تو اگر وہ کاروبار نہ کرتے تو پھر اپنے اخراجات کیا بھیک مانگ کے پورے کرتے۔

وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے سعودی عرب میں قرض لے کر ایک اسٹیل ملز قائم کی اور پھر ان کے خاندان نے اسے بیچ کر برطانیہ میں کاروبار شروع کیا۔ سوال یہ ہے کہ جب انہیں سعودی عرب بھیجتے وقت ایک روپیہ بھی نہیں لے جانے دیا گیا تو پھر انہوں نے سعودی عرب میں کس گارنٹی پر کتنا قرض لیا، کتنے میں اسٹیل ملز لگی اور کتنے میں فروخت ہوئی، کتنی رقم سعودی عرب سے برطانیہ سمیت دیگر ممالک میں منتقل ہوئی، ان تمام سوالوں کو وہ اپنا مقدس کاروباری راز قرار دیتے ہیں۔ وزیراعظم کے دوسرے صاحبزادے حسن نواز کے نام کے ساتھ بھی برطانیہ میں انتہائی قیمتی جائیدادوں کی ملکیت جڑی ہوئی ہوئی ہے، وہ اس کی وضاحت دیتے ہیں کہ حسن نواز لندن میں پرانی جائیدادیں خریدنے ،ان کی تعمیر و مرمت کرنے، انہیں خوبصورت بنانے کے بعد فروخت کرنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ 

ان جائیدادوں کی ملکیت کاروباری نوعیت کی ہے۔ حکومتی نمائندے کہتے ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف کا کوئی کاروبار اور اثاثے بیرون ملک نہیں ہیں مگر دوسری طرف وزیراعظم کے سیاسی مخالفین ان کی اولاد کی بیرون ملک کمپنیوں، اثاثوں اور کاروباروں کو بھی ان کی ذات اور مفادات سے ہی وابستہ قرار دیتے ہیں۔ اگرہم ہلکے پھلکے انداز میں تبصرہ کرنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی شخص کا سب سے بڑا اثاثہ اس کی اولاد ہوتی ہے ، حسین اور حسن نواز کے ساتھ ساتھ اب تو مریم نواز شریف کا نام بھی آف شور کمپنیاں قائم کرنے والوں کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے اور اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ ایک میڈ ان پاکستان پرائم منسٹر کے اصل اثاثے تو اس وقت بھی ملک سے باہر ہی ہیں،اسی ہلکے پھلکے انداز میں عمران خان صاحب بارے بھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ ان کے بیٹوں کی صورت میں ان کے اصل اثاثے بھی برطانیہ میں ہی ہیں۔

میں اس تمام صورت حال کے باوجود ان اصحاب کی ملک سے محبت کے بارے سوال نہیں اٹھاتا، ہمارے بہت سارے پاکستانی جو بیرون ملک آباد ہو چکے، ان کے بچوں کے پاس وہاں کی شہریتیں ہیں اور ان میں سے ننانوے فیصد کبھی دوبارہ پاکستان میں آباد ہونے کا آپشن زیر غور نہیں لاتے، وہ بھی پاکستان سے محبت کرتے ہیں مگر ایک بات ضرور کہوں گا کہ ان کی ملک کے بارے محبت اور یہاں کے مسائل بارے وہ تشویش نہیں ہوسکتی جویہاں رہنے اور اپنے بچوں کا مستقبل پاکستان میں دیکھنے والوں کو ہو گی کہ ان کے پاس پاکستان کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔

یہ عین ممکن ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی اولاد نے تمام سرمایہ قانونی طور پر پاکستان سے باہر منتقل کیا ہو یا بیرون ملک سے ہی محنت کر کے کمایا ہو مگر کیونکہ ان کے والد پاکستان کے وزیراعظم ہیں لہذا ہم حسین نواز ، حسن نواز اور مریم صفدر کی صورت میں کاروباری شخصیات نہیں بلکہ اپنے وزیراعظم اور ان کی اولاد سے سوال پوچھنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں کہ انہوں نے بیرون ملک کمپنیاں اور جائیدادیں کیسے بنائیں۔ میں صرف اسلام کی سنہری روایات کی بات نہیں کرتا جس میں ایک خلیفہ سے عوام کے سامنے جواب مانگ لیا جاتا ہے کہ اس کا لباس تو ایک چادر میں نہیں بن سکتا تھا، یہ دوسری چادر کہاں سے آئی، میں آج کے دور کے غیر اسلامی مگر مہذب ممالک کی بات کر لیتا ہوں جہاں یہ سوال اپنے رہنماوں سے باقاعدہ طور پر پوچھے جاتے ہیں اوروہاں کسی حسین نواز کو ان سوالوں کے جواب چھپانے پر اصرار کا حق نہیں ۔

مجھے کہنے دیجئے کہ یہ وہی انداز و اطوار ہیں جنہوں نے پاکستان کے سیاستدانوں کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ یقینی طور پرہم میڈیا والوں کوسیاستدانوں کی طرح بہت ساری مقدس گاؤں کے بارے اس طرح تبصرے اور سوال کرنے کا حق حاصل نہیں اور اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ جب سیاستدانوں کے جائز اور آئینی اقتدار کو ختم کیا جاتا ہے، انہیں پھانسیاں دی جاتی ہیں، انہیں جلاوطن کیا جاتا ہے تو پھرہم عام پاکستانی اسے قدرت کی طرف سے انصاف سمجھ کر خاموش ہوجاتے ہیں، مارشل لاوں کو اپنے نصیب کی کنجی سمجھ لیتے ہیں۔

نجم ولی خان

Post a Comment

0 Comments