All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

خود ریلیکس، عوام پر ٹیکس

وزیرِ اعظم نواز شریف کے لیے ایک سوال: جب آپ کے اپنے بیٹے اور بیٹی
(اطلاعات کے مطابق) برٹش ورجن آئلینڈز میں ٹیکس بچانے کے لیے پیسہ منتقل کر رہے ہیں تو آپ کس طرح پاکستان کے لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ملا کر ان کو اپنے حصے کا ٹیکس دینے کا کہہ سکتے ہیں؟

جیسے جیسے پاناما پیپرز کے انکشافات سے گرد چھٹ رہی ہے، ویسے ویسے یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ شریف خاندان کے افراد کا استعمال کردہ طریقہ کوئی منفرد نہیں تھا۔ اس کے بجائے نہایت غیر اخلاقی اور قانونی لحاظ سے مشتبہ طریقے کے تصویر ابھر کر سامنے آ رہی ہے، جس کا استعمال پاکستان میں موجود سیاسی اور معاشی صفوں میں نمایاں نام رکھنے والے لوگ وسیع پیمانے پر منظم انداز میں کر رہے تھے۔

سابق وزیرِ اعظم بینظیر بھٹو کے حسن علی جعفری (ان کے بھانجے) اور سینیٹر رحمان ملک کے ساتھ اس پیٹرولیم کمپنی کے واحد شیئر ہولڈرز ہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے، جس کے بارے میں اقوام متحدہ نے پایا تھا کہ اس نے سابق عراقی آمر صدام حسین کو ٹھیکے حاصل کرنے کے بدلے میں رشوت دی تھی۔
اطلاعات ہیں کہ سینیٹر عثمان سیف اللہ اور ان کا گھرانہ برٹش ورجن آئیلنڈ اور سیشلز میں 34 کمپنیوں کا مالک ہے۔ دیگر پاکستانی حکام بھی ٹیکس سے مستثنیٰ ممالک میں آف شور کمپنیوں کے مالکان کی فہرست میں شامل ہیں، اور جہاں تک بات کاروباری شخصیات کی ہے، تو ان کی فہرست تو کافی طویل ہے۔
یہ تمام انکشافات بہت سارے قانونی سوال کھڑے کرتے ہیں۔
ٹیکس سے مستثنیٰ ممالک میں آف شور کمپنیاں ہونا کوئی جرم نہیں مگر پاکستان کی ممتاز سیاسی اور معاشی شخصیات ان ممالک میں بینک اکاؤنٹ اور کمپنیاں قائم کرنے کے کیوں اتنے خواہشمند ہوتے ہیں جہاں پر تھوڑا یا بالکل بھی ٹیکس نہیں دینا پڑتا، جہاں بینک کاری کے کڑے مخفی قانون ہوتے ہیں، اور جب ان سے منی لانڈرنگ یا ٹیکس چوری جیسے مسائل کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ پاکستانی یہاں تک کہ بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بھی اپنے بدنام زمانہ عدم تعاون کا مظاہرہ کرتے ہیں؟

مثلاً اگر شریف خاندان کے افراد واقعی اپنی قانونی دولت سے لندن میں 6 فلیٹ خریدنا چاہتے تھے اور صاف نیت سے اپنے ٹیکس گوشواروں میں اپنی تمام ملکیت ظاہر کرنے کا پختہ ارادہ رکھتے تھے، تو انہوں نے براہِ راست خریدنے کے بجائے برٹش ورجن آئلینڈز میں کمپنیوں کو ذریعہ بنا کر ہی کیوں خریدا؟
مسئلے کا قانونی جواز کوئی بھی ہو، ایک بات پر کوئی شک نہیں ہونا چاہیے، اور وہ یہ کہ ہمارے ملک کا بالائی ایک فیصدی طبقہ، جس کی دولت تمام واجب الادا ٹیکس ادا کرنے کے باوجود بھی کم نہیں ہوگی، وہ بھی اگر ٹیکس بچانے کے لیے نت نئے طریقوں کی تلاش میں رہیں تو یہ اخلاقی دیوالیے پن کی وہ پستی ہے جس سے نیچے اور کچھ نہیں ہو سکتا۔

ہمارے ٹیکس محصولات کی 68 فیصد رقم ایندھن، خوراک اور بجلی پر عائد کیے جانے والے بالواسطہ ٹیکسوں سے حاصل ہوتی ہے، جس کا تمام تر بوجھ غریب کی آمدن پر پڑتا ہے۔ اگر ہمارے امراء اپنی دولت بہاماس منتقل کرنے میں مصروف نہ ہوں تو ہوسکتا ہے کہ یہ شرح 68 فیصد سے کافی کم ہو۔ ایندھن پر ٹیکس شاید 35 فیصد سے کم ہوسکتا ہے، 100 روپے کے ہر موبائل ریچارج پر شاید ہمارے 42 روپے سے کم کاٹے جائیں، اور شاید خطے میں ہمارے پاس بجلی کے نرخ سب سے زیادہ نہ ہوں۔

ہوسکتا ہے کہ یہ اعداد ہم میں سے کچھ لوگوں کے لیے اتنی معنیٰ نہ رکھتے ہوں، لیکن یہ ان لوگوں کی زندگی میں ایک تبدیلی لاسکتے ہیں جن کا اس ملک میں زندہ رہنا بھی ایک جدوجہد بن چکا ہے۔ اور جہاں تک سیاستدانوں کی بات ہے ۔۔۔ ہائے ہمارے سیاستدان۔ ان کی بے پناہ منافقت تو چونکا دینے والی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم ٹیکس نیٹ میں خامیوں کی وجہ سے کھربوں روپے ضائع ہونے کی بات کرتے ہیں، جبکہ ان کے گھرانے کے اپنے افراد اس مسئلے کی وجہ بنے ہوئے ہیں۔

سینیٹر عثمان سیف اللہ ٹیکس اصلاحات کمیشن کے رکن ہیں ''جسے حکومت کی جانب سے ٹیکس چوری روکنے، محصولات کے دائرے میں توسیع اور ٹیکس وصولی کی اصلاح کرنے کے لیے'' قائم کیا گیا تھا، جبکہ ان کا اپنا خاندان 34 آف شور کمپنیوں کا مالک ہے — یہ بات ہضم نہیں ہوتی۔ اور سینیٹر رحمان ملک جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ تمام کہانی ایک منصوبہ بندی کے تحت را کی جانب سے گھڑی گئی ہے؟ بحرحال ان صاحب کے بارے میں تو بات نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ سالہا سال ہمارے قانون ساز، جن کا ایک تہائی حصہ ٹیکس ادا ہی نہیں کرتا، انہوں نے پاکستان میں بالواسطہ ٹیکس مزید بڑھانے کے لیے قانون سازی کی ہے جبکہ وہ خود اور ہمارے ملک کی اشرافیہ بڑے پیمانے پر قابل ٹیکس اثاثے بیرونی ملک منتقل کرنے میں شامل ہیں۔

یہ دونوں ساتھ مل کر چوری کی حوصلہ افزائی کرنے والے نظام سے استفادہ حاصل کرتے ہیں جہاں امراء اور طاقتور جو مرضی چاہیں وہ کر سکتے ہیں۔
اور ہمیشہ کی طرح ان سب چوریوں کا بوجھ غریبوں پر ہی پڑتا ہے۔

اسد پبانی
بشکریہ ڈان نیوز اردو

Post a Comment

0 Comments