All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

امریکی انتخابی مہم اور نسل پرستی

امریکی قوم کے تہذیبی تفاخرو نسلی برتری کے احمقا نہ تصور کو جس طرح ایلکس ہیلے نے اپنے شہرہ آفاق ناول ’’روٹس‘‘میں پیش کیا ،وہ یقینا بے مثال ہے۔ ایلکس ہیلے ایک سیا ہ فام امریکی تھا، جو 1970ء کی دہا ئی میں امریکی نیوی کی ملازمت سے ریٹا ئرہونے کے بعد تحقیق کے شعبے سے وابستہ ہوا۔ ایلکس ہیلے نے اپنی تہذیبی و خاندانی تا ریخ کی تحقیق کرنے کا بیڑہ اُٹھا یا ۔ بارہ سال کی مسلسل تحقیق کے دوران اس نے ا فریقہ کے کئی دورے کئے۔ وہ اپنی اس تحقیق کے لئے افریقہ میں کئی لوگوں سے ملا اور با رہ سال کی انتھک محنت کے بعد اس نے اپنی تحقیق کے نچوڑ کو ’’روٹس‘‘ کی صورت میں دُنیا کے سامنے پیش کیا ۔

اس تحقیق سے ہیلے کو معلوم ہوا کہ اس کی ماں کی ماں کے باپ اور اس با پ کی ماں کے با پ کو 1750ء میں امریکیوں نے گھا نا (افریقہ )کے علا قے سے پکڑ کر زبردستی اپنا غلام بنا لیا۔ کنٹی کنٹاجو گھا نا کے قبیلے کے ایک سردار کا بیٹا تھا اور اپنے گھر اور قبیلے کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہا تھا کہ1750ء میں چند امریکی تاجر جو اس وقت افریقہ سے لاکھوں کی تعداد میں انسانوں کو پکڑ کر ان کو اپنا غلام بنا لیتے تھے اور ان کو امریکہ لے جا کر ان سے ہر طرح کے مشکل اور پُر خطر کام کرواتے تھے۔
امریکی، کنٹی کنٹاکو بھی اپنے ساتھ امریکہ لے گئے۔لا کھوں افریقی انسانوں کی طرح اس کو بھی غلام بنا کر بیچا گیا۔ اس کو شدید نسلی تحقیر کا نشانہ بنا یا گیا۔اس کو زنجیریں پہنا کر اس پر تشدد کیا گیا۔ اس سے اس کی تہذیبی اساس ،حتیٰ کہ اس کے نا م سے بھی زبردستی محروم کر کے اس کو امریکی آقا ؤں نے اپنی پسند کا نام دیا۔ جب اس کی شادی کے بعد اس کی ایک بیٹی پیدا ہوئی تو اس بیٹی کو بھی کسی اور امریکی آقا کے ہا تھوں بیچ دیا گیا۔ نسلی امتیا ز کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہااور کنٹی کنٹاکی ساتویں نسل کے ایک فرد ایلکس ہیلے نے اس سارے سلسلے کو ایک نا ول میں سمیٹ کر رکھ دیا۔

اب 2016 ء میں امریکی صدراتی انتخابات کی مہم کو دیکھ کر یہ لگ رہا ہے ، جیسے ابھی روٹس ناول کا اختتام نہیں ہوا، بلکہ یہ ناول جاری ہے۔امریکہ کی حالیہ سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ایسا فرد ریپبلکن پارٹی کا صدراتی امیدوار بننے جا رہا ہے ، جو اعلانیہ اپنے مخالفین کے خلاف تشدد کی حما یت کر ہا ہے،سیاہ فام افراد کے خلاف سفید فام امریکیوں کو بھڑ کا رہا ہے،امریکہ کے لو گوں کو قائل کررہا ہے کہ امریکہ میں عشروں سے رہنے والے امریکی مسلمان شہری امریکہ کے وفا دار نہیں ہیں۔

ٹرمپ اپنے سیا سی عزائم کے لئے اس سما جی خلفشار سے فائدہ اٹھا رہا ہے ۔ جو امریکہ میں بڑے پیما نے پر بے روزگا ری ، اجرتوں میں کمی اور معاشی زوال کے باعث پیدا ہوا۔ تاریخ بتا تی ہے کہ کو ئی بھی فا شسٹ تحریک یا سیاست دا ن اپنے فاشسٹ اور نسل پر ستانہ عزائم کے لئے محروم طبقات کو ان کی محرومی کی حقیقی وجوہات بتانے کی بجائے ان کو نسلی تعصب کی جانب لے جا تا ہے۔ 20ویں صدی میں اس کی سب سے بڑی مثال ہٹلر کی صورت میں ہما رے سامنے ہے ، جس نے اسی سماجی خلفشار کو بنیاد بنا کر نسل پرستی کا نعرہ لگا کر جرمن قوم کی اکثریت کی حمایت حاصل کر لی ۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ سفید فام امریکیوں کی حما یت حاصل کر نے کے لئے یہ موقف اپنا رہا ہے کہ سفید فا م امریکی اس لئے بے روز گار ہو رہے ہیں ،کیونکہ ان کے حصے کی نو کریاں سیا ہ فا م اور میکسیکو کے شہری لے جاتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابی جلسوں میں خاص طور پر سیاہ فام افراد پر حملے معمول بنتے جا رہے ہیں۔ ابھی 12مارچ کو امریکی ریا ست شما لی کیرولینا میں ٹرمپ کے جلسے کے موقع پر جب سیاہ فا م افراد کا ایک گروہ ٹرمپ کے نسل پرستانہ موقف کے خلاف پُر امن احتجا ج کر رہاتھا تو ٹرمپ نے جلسے میں اعلان کیا کہ ان کو چپ کر وایا جائے، یہ سنتے ہی ٹرمپ کے حامیوں نے ان نہتے افراد پر ہلہ بو ل دیا، جس سے 20 سے زائد سیا ہ فا م افراد بری طرح سے زخمی ہو ئے۔ اس واقعہ کے صرف دو روز بعد شکا گو میں ایک بار پھر ٹر مپ کی مو جو دگی میں سیاہ فام افراد کے ایک گروہ پر حملہ کیا گیا ۔

 فلوریڈا میں بھی ٹرمپ کے جلسے کے دوران اسی نوعیت کا واقعہ دیکھنے میں آیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ہر انتخابی تقریر میں سیاہ فام افراد، میکسیکو اور دیگر غریب ممالک کے امیگرنٹس اور مسلمانوں کے خلاف کو ئی نہ کو ئی با ت ضرور کی جا تی ہے، جب ٹی وی انٹرویوز میں ٹرمپ سے اس حوالے سے با ت کی جاتی ہے تو ٹرمپ بڑی ڈھٹا ئی سے نسل پرستی پر اپنے انتہا پسندانہ موقف کی حما یت کر تا ہے۔ نسلی تعصب پر مبنی ٹرمپ کی انتخابی مہم کی مماثلت 1968ء میں امریکی ’’انڈی پینڈنٹ پا رٹی ‘‘کے صدراتی امیدوار جارج ویلس سے کی جارہی ہے۔

جارج ویلس 1963ء سے 1967ء تک امریکی ریاست البا مہ کا ڈیمو کریٹک گورنر رہا، تا ہم سفید فام پرستی پر مبنی انتہا پسندانہ نظر یا ت کے باعث اس نے نسل پرست جما عت ’’ انڈی پینڈنٹ پارٹی‘‘ کی جانب سے 1968ء کے صدراتی انتخابات میں حصہ لیا۔ 1968ء کے امریکی انتخابات اس حوالے سے اہم تھے کہ اس سال اپریل میں سیا ہ فام رہنما ما رٹن لو تھر کنگ کو ہلا ک کیا گیا تھا۔ جارج ویلس نے اپنی انتخابی مہم میں ما رٹن لو تھر اور سیاہ فام افراد کے خلاف تقریریں کیں، تاہم صدراتی انتخابات میں جارج ویلس بری طرح سے نا کام رہا ۔

اگر جارج ویلس کا ڈونلڈ ٹرمپ سے تقابلی جائزہ کیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ 2016ء میں نسلی تعصب1968ء کے مقابلے میں بھی بڑھ چکا ہے، کیونکہ جارج ویلس کو اس کے انتہا پسندانہ نظریا ت کے با عث دونوں بڑی جماعتوں ڈیمو کریٹس اور ریپبلکن نے 1968ء میں قبول نہیں کیا تھا، مگر اس مرتبہ تو جارج ویلس کی طرح کے نظریات رکھنے والے ڈونلڈٹرمپ کو ریپبلکن پا رٹی جیسی بڑی جماعت کی تا ئید حاصل ہے۔ اس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس وقت امریکہ میں نسلی امتیاز کی کیا صورت حال ہے۔

امریکہ میں سیاہ فام افراد کی اکثریت پہلے ہی مشکلات کا شکا ر ہے۔امریکی اخبا ر دی ’’واشنگٹن پو سٹ‘‘ کے مطا بق امریکہ میں 50ملین افراد غربت کی لکیر سے نیچے رہتے ہیں اور ان میں واضح اکثریت سیا ہ فام افراد کی ہے۔سیاہ فام نو جوان نو کریاں نہ ملنے کے با عث جرائم کی طرف بھی زیا دہ ما ئل ہیں۔امریکہ میں ہمیں کو نڈ ا لیزا رائس، کو لن پاول اور سب سے بڑھ کر اوباما کی صورت میں ایسے سیا ہ فا م افراد بھی نظر آتے ہیں 

 جو امریکہ کے اعلیٰ ترین ریا ستی عہدوں تک پہنچے، مگر دُنیا کے دیگر ممالک کی نسلی و لسانی اور مذہبی ا قلیتوں کی طرح جب کسی اقلیت کے چند افراد کئی طرح کے سمجھوتوں کے بعد اعلیٰ عہدے یا پو زیشنیں حاصل کر لیتے ہیں تو وہ طبقاتی حوالے سے اشرافیہ کا ہی حصہ بن جا تے ہیں۔ 2016ء کے امریکی صدراتی انتخابا ت کی مہم میں جس طرح ڈونلڈ ٹرمپ بڑھ چڑ ھ کر نسلی امتیاز کا پرچار کر رہا ہے اور سب سے بڑھ کر جس طرح اسے تیزی کے ساتھ ریپبلکن پا رٹی کی حما یت بھی حاصل ہو رہی ہے تو یہ دیکھ کر یہی احساس ابھرتا ہے کہ اپنے ظاہر میں تو بے شک امریکی معا شرہ ترقی پسند ، لبرل اور سیکو لر ہو چکا ہے، مگر اپنے با طن میں وہ اب بھی ’’روٹس ‘‘نا ول کے عہد میں رہ رہا ہے۔

عمر جاوید


Post a Comment

0 Comments