All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

بہت اچھا ہوا جنرل صاحب چلے گئے

محترم جنرل پرویز مشرف پاکستان کے ایک عام شہری نہیں کہ سویلین حکمران ان سے بے تکلفی کر سکیں۔ جنرل صاحب نے ہمیں یہ بھی یاد دلایا ہے کہ ہماری غلامی جو ہماری نام نہاد آزادی سے پہلے ڈیڑھ سو برس تک جاری رہی صرف اس وقت ختم ہوئی جب ہمارے حاکم تھک گئے اور ان کے حکمران وزیراعظم نے اپنی سامراجی حکمرانی کا مزید بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا تب ہمارے انگریز حکمرانوں نے ہمارے ہاں سے واپسی کا سامان باندھنا شروع کر دیا۔ اور کوئی چالیس ہزار کے قریب کل انگریزوں کا سامان بھی کتنا ہو گا وہ مسافرانہ حکمرانی کرتے رہے۔

بہر کیف عالمی حالات ان کے موافق نہ رہے تو وہ برصغیر کی وسیع عریض سرزمین آزاد کر کے اپنے مختصر سے جزیرے میں لوٹ گئے لیکن اپنی طویل حکمرانی کے دوران انھوں نے ایک کام بڑی احتیاط کے ساتھ کیا کہ یہاں اپنا وفادار ایک ایسا طبقہ چھوڑ گئے جو برطانوی روایات بلکہ زبان اور لباس تک میں اپنے حکمرانوں کی نقل کرتا رہا۔ ہم آزاد ہو گئے لیکن انگریزوں کا تربیت یافتہ طبقہ ہمارا حکمران بن گیا اور اس کے اندر وہ تمام صفات اور عادات اپنی غلامی کا رنگ دکھاتی رہیں۔
انھیں کالا انگریز کہا جاتا تھا جن کی حکومت اپنے سے زیادہ طاقت ور مانتی تھی اور انگریز طرز کے مطابق اپنے ہموطنوں پر حکومت کرتی تھی ان کے ہموطن بھی کسی کی مکمل حکمرانی کو برداشت کرنے کے عادی تھے  چنانچہ وہ انگریزوں کی جگہ اپنے کالے انگریزوں کی غلامی میں خوش و خرم رہنے لگے۔
نئے زمانے کی ہوائیں ہمارے کالے انگریزوں کو پریشان کرنے لگیں اور رفتہ رفتہ وہ کسی نیم جمہوری حکومت پر راضی ہو گئے اور اب تک راضی چلے آ رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہماری جو بھی حکومت آتی ہے وہ جمہوری کم اور آمرانہ زیادہ ہوتی ہے۔ جو مزا کسی آمریت میں ہے وہ جمہوریت میں کہاں جس میں ہر آدمی مداخلت اپنا حق سمجھتا ہے۔

چنانچہ اس عوامی دباؤ سے آزاد رہنے کے لیے انھوں نے بھی اپنے طاقت ور ساتھیوں کا گروہ تیار کیا اور اسے اپنے ساتھ حکومت میں شامل کر لیا۔ کوئی وزیر بنا کوئی مشیر بنا اور کوئی تنخواہ داری پر خوش ہو گیا لیکن ایک مرض کا علاج ایسے حکمرانوں کے پاس نہیں تھا وہ تھی فوج کی بالادستی جس کا ایک نظارہ ہم نے جنرل پرویز مشرف کی مرضی اور آئین کی بے بسی کی صورت میں کیا۔ جنرل نے ایک بار ایک آئین کو توڑا اور اس کے بعد دوسرے آئین کا احترام کیے بغیر وہ آئین کی کسی بھی شق سے آزاد ہو کر بیرون ملک چلا گیا۔

وجہ ان کی بیماری تھی لیکن دبئی پہنچ کر یعنی پاکستان سے دور اور اس کی حکومت سے آزاد ہو کر اس کی بیماری اچانک ٹھیک ہو گئی اور یہ دلچسپ خبر بھی آئی کہ انھوں نے بیماری کا علاج ملتوی کر دیا ہے یعنی اختیار کا یہ عالم کہ بیماری بھی ان کا حکم مانتی تھی وہ اب ایک آزاد زندگی بسر کر رہے تھے۔ دبئی کے ایک فیشن ایبل علاقے میں ان کا فلیٹ ہے جو مالک کی تشریف آوری پر خوش ہے۔ بیمار جنرل جہاز سے اتر کر اپنے گھر پہنچے اور مکمل صحت مند ہو گئے۔

اب انھیں پاکستان کے کسی حکمران اور کسی آئین کا کوئی ڈر نہیں ہے۔ انھوں نے آئین توڑا مگر ان کے طاقت ور سرپرستوں اور ساتھیوں نے کہا کہ آئین کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہوئی اور جنرل صاحب کی طرح صحت مند اور  بحفاظت ہے اور اپنے دوستوں سے ملاقاتیں کر رہے رہا ہے۔ ہماری فوج کے ایک سابق سربراہ نے آئین اور ملکی قانون کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔ دنیا کی بہترین فوج جس کی پشت پر ہوا سے کیا پروا۔ آئین وغیرہ ان کے بوٹ کی ایک ٹھوکر بھی برداشت نہیں کر سکتے اور یہی ہوا ہے۔

جنرل صاحب کے باہر جانے کے جو مخالف تھے وہ سب اب خاموش ہیں اور لگتا ہے ان کی مخالفت ایک جعل سازی تھی یا جو کوئی ان کی پشت پر تھا وہ اب توبہ تائب ہو گیا ہے۔ پاکستانیوں کو پتہ چل گیا ہے کہ کون ان کا حاکم ہے اور کسے وہ سیلوٹ ماریں گے۔ آئین وغیرہ کا تکلف اب ختم ہو گیا اور جس میں جتنی طاقت وہ اتنا ہی زندہ اور محفوظ ہے۔

جن لوگوں پر آئین کی حفاظت کی ذمے داری تھی انھوں نے ہی جنرل صاحب کو گارڈ آف آنر دے کر الوداع کیا ہے اس لیے عرض یہ ہے کہ کوئی قائداعظم لاؤ جو آپ کے ملک کے قیام کی طرح آپ کی آزادی کی حفاظت کا سامان بھی کر دے ورنہ یہی کالے انگریز ہی حکمران رہیں گے اور ملک کے ساتھ کھیل کود جاری رہے گا بس رہے نام اللہ کا۔

عبدالقادر حسن


Post a Comment

0 Comments