All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

کیا سورج پیٹنٹ ہو سکتا ہے ؟ وسعت اللہ خان

کوئی بھی چھوٹا آدمی کوئی بھی بڑا کام کر سکتا ہے۔ بس تھوڑی سی دیوانگی چاہیے۔ ایسے دیوانوں کا کام خود بولتا ہے اور شہرت ان کے پیچھے بھاگتی رہتی ہے۔ لیکن شہرت کا قد بھی ایسے دیوانوں کے آگے اکثر چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ ایسے بیشمار دیوانے آئے، چلے گئے اور آتے رہیں گے مگر دنیا کو اپنی بساط سے ہزار گنا بہتر بنا گئے اور بناتے رہیں گے۔ آج نمونے کے طور پر ان ہزاروں میں سے پانچ پاگلوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔

یوناس سالک۔
یہ بھائی صاحب انیس سو چودہ میں نیویارک کے ایک غریب یہودی تارکِ وطن کے ہاںپیدا ہوئے۔ والدین انھیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے تا کہ کم از کم یوناس سالک کا معاشی مستقبل ہی سدھر جائے۔ مگر سالک نے ڈاکٹری کے منافع پر طبی تحقیق کے گھاٹے کا انتخاب کیا اور تحقیق میں بھی ایک مشکل ترین شعبے یعنی پولیو ویکسین بنانے کی مہم جوئی کو منتخب کیا۔

انیس سو باون میں صرف امریکا میں اٹھاون ہزار بچے پولیو وائرس کا شکار ہوئے۔ ان میں سے تین ہزار ایک سو پینتالیس مر گئے اور اکیس ہزار سے زائد اپاہج ہو گئے۔ اگر انیس سو باون میں امریکا جیسے ملک کی یہ حالت تھی تو اس سے آپ باقی دنیا بالخصوص ترقی پذیر دنیا کے حالات کا خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔
یہاں یہ بتانا بے جا نا ہو گا کہ دنیا میں پولیو کا سب سے مشہور مریض چار مرتبہ امریکی صدر منتخب ہونے والا فرینکلن ڈی روزویلٹ تھا۔ بہرحال انیس سو پچپن میں یوناس سالک کی کوششیں رنگ لائیں اور وہ پولیو ویکسین بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ آج ان کی ویکسین کی بدولت دو ممالک (پاکستان، افغانستان) کے علاوہ باقی دنیا سے پولیو کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ کہاں انیس سو اٹھاسی تک دنیا بھر میں ساڑھے تین لاکھ افراد پولیو کے سبب ہر سال اپاہج ہو رہے تھے اور کہاں آج یہ کیسز دو سو سے بھی کم رہ گئے۔

یوناس سالک کا انتقال انیس سو پچانوے میں ہوا۔ کسی صحافی نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اس ویکسین کو اپنے نام سے پیٹنٹ کیوں نہیں کرایا۔ سالک نے الٹا سوال کر دیا کیا آپ سورج کو پیٹنٹ کروا سکتے ہیں؟ اگر سالک اس ویکسین کو پیٹنٹ کروا لیتے تو مرتے وقت وہ کم از کم سات ارب ڈالر کی رائلٹی کے مالک ہوتے۔
دشرتھ مانجی۔
دشرتھ انیس سو چونتیس میں بھارتی ریاست بہار کے ضلع گیا کے ایک انتہائی پسماندہ گاؤں گہلور میں پیدا ہوئے۔ بالکل ان پڑھ مزدور تھے۔ انیس سو ساٹھ کے ایک دن دشرتھ کی بیوی پلگن دیوی صرف اس لیے مر گئی کہ قریب ترین اسپتال گاؤں سے ستر میل دور تھا۔ کیونکہ پہاڑ درمیان میں حائل تھا۔ دشرتھ جب بیوی کے سوگ سے باہر نکلا تو اس نے کدال اٹھائی اور اس پہاڑ کو کاٹنا شروع کر دیا جو اگر بیچ میں نا ہوتا تو اس کی بیوی کی جان بچ سکتی تھی۔

لوگوں نے دشرتھ کا خوب مذاق اڑایا اور علاقے میں وہ دشرتھ پاگل کے نام سے مشہور ہو گیا۔ مگر دشرتھ نے گویا کان بند کر لیے اور چوبیس برس تک تنِ تنہا پہاڑ کاٹنے میں لگا رہا۔ انیس سو چوراسی میں دشرتھ نے پہاڑ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے تین سو ساٹھ فٹ لمبا اور تیس فٹ چوڑا راستہ نکال دیا ۔

جس کے سبب قریب ترین قصبے وزیر گنج کا راستہ پچپن کیلومیٹر سے گھٹ کے پندرہ کیلو میٹر رہ گیا۔ تب سے اب تک دشرتھ کے گاؤں کی کوئی عورت محض اسپتال نہ پہنچنے کے سبب نہیں مری۔ دشرتھ کا دو ہزار سات میں انتقال ہوا اور ریاستی حکومت نے پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ دشرتھ کی آخری رسومات ادا کیں۔ تب سے اب تک دشرتھ کی کہانی پر تین فلمیں بن چکی ہیں۔

پروین سعید۔
پروین نے سن اسی کے عشرے میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سماجی بہبود سے ایم اے کیا اور ایک فلاحی ادارے میں ملازمت شروع کر دی۔ پھر ایک دن انھیں خیال آیا کہ ہمیں تو تین وقت کی روٹی میسر ہے لیکن جنھیں ایک وقت کا کھانا بھی بمشکل میسر ہے ان کروڑوں لوگوں کا کیا قصور۔ انھوں نے اپنا دکھ اپنے شوہر خالد سعید پر ظاہر کیا اور پھر دونوں نے مل کے کراچی کے ایک غریب علاقے خدا کی بستی میں کھانا گھر کی بنیاد رکھی۔ حالانکہ وہ دونوں یہ بھی سوچ سکتے تھے کہ اگر ہماری کوششوں سے چند لوگوں کا پیٹ بھر سکتا ہے تو اس کا کیا فائدہ ہو گا۔، کروڑوں لوگ تو پھر بھی بھوکے رہیں گے۔

مگر دونوں میاں بیوی اس سوچ کو قطعاً خاطر میں نا لائے اور اپنی تھوڑی بہت ذاتی پونجی کھانا گھر پہ لگا دی۔ شروع کے چند برسوں تک ایک روپے میں سالن کی پلیٹ اور دو روٹی دیتے رہے پھر گرانی کے سبب تین روپے کا کھانا کر دیا۔ حالانکہ فی زمانہ سالن کی پلیٹ اور روٹی پر اصل لاگت بیس روپے آتی ہے۔
پروین کہتی ہے کہ اب اتنے مخیر لوگ ہماری مدد کر رہے ہیں کہ ہم مفت کھانا بھی دے سکتے ہیں لیکن علامتی قیمت اس لیے رکھی ہے تا کہ کسی کی عزتِ نفس مجروح نا ہو اور اسے اطمینان رہے کہ وہ کھانا خرید کے کھا رہا ہے۔ پروین ایسے لوگوں کے گھر بھی کھانا پہنچاتی ہیں جو سفید پوشی کے بھرم میں کھانا گھر تک آنے سے ہچکچاتے ہیں۔ سنا ہے ان دنوں پروین کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔

اکبر مخمور۔
ڈیرہ غازی خان کے کالج چوک میں سرائکستان ٹائر ورکس کے نام سے ایک ورکشاپ ہے۔ جس کے مالک اکبر مخمور ہیں۔ سن انیس سو چوراسی میں سعودی عرب میں دورانِ ملازمت انھیں سرائیکی اردو ڈکشنری کا خیال آیا۔ پھر وہ اس خیال کے ساتھ وطن آ گئے اور ٹائر بیچنے کے ساتھ ساتھ ڈکشنری مرتب کرنے کا کام جاری رکھا۔ یوں تیس برس کی محنت کے بعد چار ہزار صفحات پر مشتمل ڈکشنری تیار ہو گئی۔ اس وقت بازار میں جو سب سے ضخیم سرائیکی اردو ڈکشنری میسر ہے اس میں چھتیس ہزار الفاظ ہیں لیکن اکبر مخمور کی ڈکشنری میں ایک لاکھ پندرہ ہزار سرائیکی الفاظ و محاورے موجود ہیں۔

عقیلہ ناز۔
عقیلہ پنجاب میں خواتین کسانوں کی تنظیم پیزنٹ وومین سوسائٹی کی سربراہ ہیں اور گزشتہ سولہ برس سے کسان حقوق کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ابتدا میں وہ اوکاڑہ ملٹری فارمز کے مالکانہ حقوق سے محروم کسانوں کے لیے فعال انجمن مزارعینِ پنجاب کے پلیٹ فارم سے مردوں کے شانہ بشانہ جدوجہد کرتی رہیں۔
تحریک کی قیادت میں خواتین بھی نمایاں تھیں۔ تاہم جب مالکانہ حقوق کے سوال پر بات چیت کے لیے لیڈر شپ کا سوال اٹھا تو مردانہ قدامت پرستی اور زنانہ ترقی پسندی میں ایکہ نہ رہا۔ مگر عقیلہ ناز نے اندرونی سیاست اور روائتی جوڑ توڑ کے آگے ہار نہ مانی اور بے زمین خواتین کسانوں کو منظم کرنے کا کام جاری رکھا۔ عقلیہ کہتی ہیں کہ بے زمین کسانوں میں آدھی تعداد عورتوں کی ہے اور جب تک زمین پر عورت کے مالکانہ حقوق بھی مردوں کے مالکانہ حقوق کے برابر 
تسلیم نہیں کیے جاتے کسان عورت خودمختار نہیں ہو سکتی۔

عقیلہ کا مطالبہ ہے کہ بلدیاتی ڈھانچے میں کسانوں کی نشستوں کے ساتھ ساتھ
 بے زمین خواتین ہاریوں کی نشستیں بھی مختص ہونی چاہئیں تا کہ خواتین کے سماجی، اقتصادی و سیاسی حقوق کی جدوجہد میں شہر اور دیہات کی عورت میں حائل تفریق کم سے کم ہوتی جائے اور دیہی عورت بھی پسماندگی کا جوا کاندھے سے اتارنے کے قابل بن سکے۔

عقیلہ نے جوانی کسان عورتوں کے حقوق کی جدوجہد میں کھپا دی۔ انھیں خود 
بھی بے زمینی کے کرب اور ریاستی و غیرریاستی دوہرے استحصال کا اندازہ ہے۔ ان کے باپ دادا اٹھارہ سو اسی سے جس زمین پر کام کرتے آئے اس کے مالکانہ حقوق کے انتظار میں کئی نسلیں کھپ گئیں۔ عقیلہ چاہتی ہیں کہ بے زمین کسانوں کی اگلی نسل اس کرب سے نہ گزرے۔ اسی لیے وہ اپنا آج کل پر قربان کر رہی ہیں۔

وسعت اللہ خان

Post a Comment

0 Comments