All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

ایسا ہے تو ایسے ہی سہی - وسعت اللہ خان

امریکی یونیورسٹی آف میری لینڈ کے گلوبل ٹیررازم ڈیٹا بیس کے مطابق گذشتہ پینتالیس برس، بالخصوص نائن الیون کے بعد، جن ممالک میں تعلیمی اداروں اور طلبا پر سب سے زیادہ حملے ہوئے ان میں پاکستان سرِفہرست ہے۔
آرمی پبلک سکول پشاور اور اب باچا خان یونیورسٹی چار سدہ کے سانحات کے بعد یہ سوال دوبارہ والدین کے ذہن میں ابھر آیا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ناحق موت سے کیسے بچائیں؟

اس بارے میں کوئی مرکزی پالیسی موجود نہیں۔ نیشنل ایکشن پلان بھی اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ معاملہ صوبوں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
چنانچہ خیبر پختونخوا حکومت نے ایک حل یہ نکالا ہے کہ اساتذہ کو اسلحہ کی تربیت اور رکھنے کی اجازت دی جائے ۔ وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ صوبے میں 68 ہزار تعلیمی ادارے اور 55 ہزار پولیس والے ہیں، لہذا اکیلی حکومت ہر ادارے کی حفاظت نہیں کر سکتی۔
حکومتِ بلوچستان نے یونیورسٹیوں کے تحفظ کے لیے مسلح کیمپس فورس بنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ہر یونیورسٹی میں اس فورس کے 60 مسلح جوان تعینات کیے جائیں گے۔ یہ فورس وائس چانسلر کے تحت ہوگی ۔ تجویز تو اچھی ہے لیکن دہشت گرد صرف اعلی تعلیمی اداروں کو تو نشانہ نہیں بناتے۔

حکومتِ پنجاب نے سیکورٹی کی ذمہ داری تعلیمی اداروں پر ڈال دی ہے۔ اور جو تعلیمی ادارہ سیکورٹی کے طے شدہ معیار پر پورا نہیں اترے گا اسے تعلیمی سرگرمیوں سے روک دیا جائے گا۔ حکومتِ سندھ نے اس بابت کوئی واضح فیصلہ نہیں کیا۔
سنہ 1971 کی جنگ کے بعد بھٹو حکومت نے طلبا کو اسلحے کے استعمال کی بنیادی تربیت دینے کے لیے کالجوں کی سطح پر نیشنل کیڈٹ کور سکیم (این سی سی) شروع کی تھی تا کہ وہ ہنگامی حالات میں باقاعدہ فورسز کے ذیلی مددگار بن سکیں۔ اگرچہ یہ سکیم لازمی کے بجائے اختیاری تھی مگر طلبا کو یہ ترغیب دی گئی کہ این سی سی کی تربیت مکمل کرنے پر بیس اضافی نمبر ملیں گے۔

عام شہریوں کی فوجی تربیت کے لیے جانباز فورس اور مجاہد فورس کی سکیمیں شروع کی گئیں اور فوج سے مستعار اہلکار اس تربیت پر مامور کیے گئے ۔ مقصد یہ تھا کہ قوم کے تندرست لوگ ناگہانی کے وقت اپنی حفاظت کے بارے میں بااعتماد ہوجائیں۔ مگر مشرف حکومت تک یہ تمام سکیمیں وجہ بتائے بغیر ختم کر دی گئیں۔
اگرچہ یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ دہشت گردی طویل المعیاد کثیر سمتی حکمتِ عملی کے تحت ہی ختم ہو سکتی ہے۔ مگر جب تک یہ فلسفیانہ ہدف حاصل ہو تب تک لوگ اپنی حفاظت کیسے کریں؟
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہر ایک کو اسلحہ رکھنے کی اجازت دی گئی تو انارکی پھیل سکتی ہے؟
تو کیا اب انارکی نہیں؟
اس ملک میں غیرقانونی ہتھیاروں کی بہتات روکنے کے لیے پچھلے 40 برس میں کیا کیا گیا؟ جو تباہی ہو رہی ہے اس میں لائسنس یافتہ اسلحہ کتنا استعمال ہوا اور غیر قانونی اسلحہ کتنا؟ کوئی نابینا بھی دیکھ سکتا ہے۔

آخر اسلحے کا لائسنس صرف طاقتور طبقات اور من پسند افراد کے لیے ہی کیوں؟ جو قانون پسند شہری اپنے تحفظ کے لیے تربیت یافتہ محافظوں کی فوج نہیں رکھ سکتے وہ کیا کریں؟ اسلحہ رکھنے کی قانونی اجازت محدود رکھنے سے حالات آخر کتنے بہتر ہوئے؟
دہشت گردوں کے ہاتھوں ہی مرنا ہے تو بھیڑ بکریوں کی طرح مرنے سے بہتر ہے کہ لڑتے ہوئے مرا جائے
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسلحہ لائسنس اگر عام کھول دیا جائے تو لوگ ذاتی دشمنیاں بھی نکالیں گے ۔تو لوگ کیا اس وقت غیرقانونی اسلحے سے ذاتی دشمنیاں نہیں نکال رہے؟

یقیناً مثالی صورت تو یہی ہے کہ ہتھیاروں پر صرف ریاست کی اجارہ داری ہو اور کسی کو بھی ریاست کے اندر ریاست بننے نہ دیا جائے۔ مگر مستقبلِ قریب میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا ۔

لہذا ریاست اعتراف کرے کہ وہ تمام شہریوں کی حفاظت نہیں کر سکتی اور شہری اپنی حفاظت خود کریں ۔ایک عمومی معیار اور مخصوص مدت کے لیے استعمال کی واضح شرائط کے تحت اسلحہ لائسنس کا دروازہ تمام ذمہ دار شہریوں کے لیے سنجیدگی و دردمندی سے کھولنے پر غور کیا جائے۔ جب ریاست اپنی رٹ بحال کرنے میں کامیاب ہوجائے تو یہ اسلحہ واپس لے لیا جائے۔
دہشت گردوں کے ہاتھوں ہی مرنا ہے تو بھیڑ بکریوں کی طرح مرنے سے بہتر ہے کہ لڑتے ہوئے مرا جائے۔ آپ ہی تو کہتے ہیں کہ غیر معمولی حالات سے غیر 
معمولی طریقوں سے ہی نمٹا جا سکتا ہے۔

(ان تجاویز پر قومی گفتگو کی ضرورت ہے ۔ہوسکتا ہے مزید بہتر قابلِ عمل متبادل سامنے آ جائے)

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

Post a Comment

0 Comments