All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

اینٹ ساز مزدور بچے

ملک بھر میں مزدوری کی بدترین اور شرمناک صورت ہمیں اینٹوں کے بھٹوں پر دکھائی دیتی ہے جہاں والدین اور بہن بھائیوں سے لے کر چھوٹے بچوں تک پورا گھر مزدوری کرتا ہے ان کے بڑے عموماً بکے ہوئے ہوتے ہیں وہ یوں کہ انھیں بھٹے کا مالک کچھ رقم ادھار دے دیتا ہے اور جب تک یہ قرض ادا نہیں ہوتا وہ اس کے بھٹے پر کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

مقامی اصطلاح میں ان مقروضوں کو قرضدار نہیں بکا ہوا کہا جاتا ہے عموماً یہ مزدور اپنا قرض ادا نہیں کر پاتے اور زندگی بھر ’بکے‘ رہتے ہیں اگر کوئی بھاگتا ہے تو وہ پولیس کے ہتھے چڑھ جاتا ہے کیونکہ ایک اشٹام کے ذریعے وہ ادائیگی قرض تک قیدی بن کر رہتا ہے۔ کسی زمانے میں جب غلام ہوتے تھے تو وہ بکا کرتے تھے اور ان کا خریدار ان کا مالک ہوتا تھا۔
آج اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے اکثر اسی غلامی کی زندگی بسر کرتے ہیں اور اسی میں ختم ہو جاتے ہیں لیکن ان کے بچے جو ان کے ساتھ کام کرتے ہیں دیکھنے میں تو ہر کوئی دل ہی دل میں ان پر افسوس کرتا ہے مگر عملاً کوئی کچھ نہیں کرتا۔ جب پاکستان بنا تھا تو یہ بچے اس وقت بھی کسی بھٹے پر غلامی بسر کر رہے تھے اور اب جب پاکستان ایک ایٹمی ملک تک بن گیا ہے تب بھی یہ بچے کسی بھٹے پر غلامی کر رہے ہیں اور ان کی یہ زندگی بہت مشہور ہے ہر کوئی اس پر دکھ کرتا ہے۔

ان بچوں کو ہر حکمران نے دیکھا ہے لیکن کسی نے ان کے لیے کیا کچھ نہیں، تعجب ہوا یہ سن کر کہ ایک صوبے کے حکمران نے ان بچوں کو زندہ رکھنے بلکہ کار آمد زندگی دینے کی سعی کی ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا انقلاب ہے جو یوں تو صرف ایک صوبے کے باشندوں کے ایک گروہ کی زندگی میں برپا ہوا ہے لیکن حیرت انگیز ہے اور قابل رشک۔ یہ انقلاب صاحب حیثیت لوگوں کے گناہوں کا کفارہ بھی بن سکتا ہے لیکن وہ صرف اس صوبے کے وزیراعلیٰ کو زبانی کلامی داد دینے تک محدود رہیں گے اور اسی کو اپنا کفارہ سمجھ لیں گے۔ اب مختصراً ان انقلابی مراعات پر ایک نگاہ ڈال لیجیے۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے اپنے صوبے میں اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے بچوں کے لیے ایک خصوصی پیکیج کا اعلان کیا ہے جس کے تحت ان بچوں کے لیے خصوصی تعلیم کا اہتمام کیا جائے گا اسکول جانے والے ہر بچے کو سو فی صد تعلیمی اخراجات کے علاوہ ایک ہزار روپے ماہانہ وظیفہ ملے گا۔

کسی بچے کے اسکول داخلے پر اس کے والدین کو دو ہزار روپے سالانہ وظیفہ بچوں اور والدین کو علاج کی مفت سہولتیں علاوہ ازیں بچوں کے لیے مفت کتابیں اسٹیشنری یونیفارم جوتے اور اسکول بیگ بھی فراہم کیے جائیں گے۔ بھٹوں سے چائلڈ لیبر کے خاتمے کا آرڈی ننس بھی منظور کیا گیا ہے جس کے تحت بچوں سے مزدوری کرانے والے بھٹہ مالکان کو چھ ماہ تک قید کی سزا ہو گی۔
خلاف ورزی کرنے پر بھٹہ مالک کا سمری ٹرائیل ہو گا اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا اور ساتھ ہی بھٹہ بھی سیل کر دیا جائے گا۔ یہ ضلع کے ڈی سی او اور ڈی پی او باقاعدہ چیکنگ کریں گے اور اس کی رپورٹ دیا کریں گے۔ دور دراز جانے والے بچوں کے ٹرانسپورٹ کے اخراجات بھی حکومت ادا کرے گی۔ چائلڈ لیبر کی چیکنگ کے لیے ضلع کی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی۔

ان معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ وزیراعلیٰ ان بچوں کو مزدوری اور وہ بھی اینٹوں کے بھٹے کی مکروہ مزدوری کی خرابیوں سے نجات دلانے میں بہت سنجیدہ ہیں اور اس کے لیے ہر ممکن طریقہ اختیار کرنے پر آمادہ ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں کسی مسلمان ملک کی حکمرانی کو انتہائی ذمے داری کا عہدہ قرار دیا گیا ہے جس کے بارے میں یہان تک کہا گیا کہ کسی کو مسلمان ملک کا حکمران بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے گویا کُند چھری سے ذبح کردیا گیا ہے، میاں شہباز شریف بھی محاورتاً کُند چھری سے ذبح کیے گئے ہیں اور جب تک وہ اس منصب پر فائز رہیں گے وہ اسی ’’خونریز‘‘ کیفیت سے گزرتے رہیں گے۔

خدا کا شکر ہے کہ وہ اپنی ذمے داری کا احساس رکھتے ہیں اور اس بگڑی ہوئی انتظامیہ سے اس کے تصور سے بڑھ کر کام لینا چاہتے ہیں۔ اگر میاں صاحب اپنے موقف اور احساس ذمے داری پر قائم رہے اور انھوں نے اپنے ماتحتوں پر ثابت کر دیا کہ وہ سنجیدہ ہیں تو ان سے زیادہ کون جانتا ہے کہ ہمارے ہاں حکم حاکم کی کتنی اہمیت ہوتی ہے جن لوگوں نے انگریز کا دور دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ یہی لوگ کس قدر محنتی اور دیانت دار ہوتے تھے کرپشن کی ہمت اور جرات نہیں ہوتی تھی اور کام کو ٹالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا یہ سب اس لیے تھا کہ انگریز جو اپنی عزت کے لیے دیانت اور محنت سے کام لیتا تھا دوسروں سے بھی یہی توقع رکھتا تھا چنانچہ وہ دیانت و امانت کا زمانہ تھا۔

آزادی کے بعد جب مقامی حکمران آئے تو وہ اپنے پیشرو انگریزوں کی طرح سخت گیر نہیں تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ رفتہ رفتہ انتظامیہ ڈھیلی پڑتی گئی اور پرانی خرابیاں جو خواب بن گئی تھیں جاگ اٹھیں اور آج حالت یہ ہے کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن رشوت ستانی اور کام چوری ہے۔

بات صاف ہے اور ہر کوئی جانتا ہے کہ بہتری اوپر سے آتی ہے نیچے سے اوپر نہیں جاتی ،اوپر بیٹھا صوبے کا وزیراعلیٰ چاہے گا اور وہ سنجیدہ ہو گا تو بھٹوں پر مزدوری کرنے والے پاکستانی بچے اس عذاب سے چھوٹ جائیں گے اور دوسرے بچوں کی طرح زندگی بسر کریں گے اور ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ہر پاکستانی بچے کو ایک معقول زندگی کے اسباب فراہم کریں اور یہ وسائل اور موقع ان بچوں کے غریب والدین فراہم نہیں کر سکتے یہ کام حکومت کا ہے اور خوشحال پاکستانیوں کا ہے۔

میاں صاحب نے جس جذبے سے کام شروع کیا ہے پورا صوبہ ان کے ساتھ ہے دعا گو ہے اور ان کی کامیابیوں کا منتظر ہے کیونکہ وہ ان کے ارادوں اور فیصلوں کو حیرت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں کہ پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا دیکھیں اب کیا ہوتا ہے۔

عبدالقادر حسن

Post a Comment

0 Comments