All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

امریکہ سے ہی ڈر بھیا

وزیر اعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر اٹھایا اور شکوہ کیا کہ اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کیلئے جو قراردادیں پاس کی تھیں ان پر عمل نہیں ہوا جو اقوام متحدہ کی بڑی ناکامی ہے۔
  
چینلز اور اخبارات پر انکی تعریفیں چل رہی ہیں کہ انہوں نے کشمیر کا مسئلہ اٹھایا اور اقوام متحدہ کو بھی لتاڑا، لیکن سوال یہ ہے کہ اس تقریر کا فائدہ؟ اقوام متحدہ کو لتاڑنے کا کچھ مقصد سمجھ میں نہیں آیا تاکہ یہ ادارہ ازخود کچھ نہیں کر سکتا۔ یہ صرف وہی کچھ کرتا ہے جہاں کچھ کرنے کا اسے امریکہ حکم دے۔ مشرقی تیمور مین چند ہی برس تحریک چلی، امریکا نے حکم دیا اور اقوام متحدہ نے اسے آزادی دلوا دی۔ سوڈان کی خانہ جنگی میں اسے حکم ہوا تو جھٹ پٹ جنوبی سوڈان کو الگ کرا دیا۔ بہتر تو یہ ہے کہ وزیر اعظم یہ مطالبہ امریکہ سے کرتے۔

امریکہ سے صاف کہہ دیں کہ ہم سے ڈو مور کرانا ہے تو مسئلہ کشمیر حل کراؤ ورنہ یہ پڑا ہے تمہارا ڈو مور۔ کیا ہم ایسا کرنے کی جرائت رکھتے ہیں! اس سے زیادہ بڑا سوال یہ ہے کہ ہمین ایسا کرنے کا اختیار ہے؟

برسبیل تذکرہ آصف علی زرداری نے مہینہ بھر پہلے مطالبہ کیا تھا کہ مشرف کے خلاف اس لازام کی تحقیقات کرائی جائیں کہ انہوں نے مذکورہ قراردادون سے دستبردار ہونے کی بات کی تھی۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا نواز شریف کو ایسی تحقیقات کرنے کا اختیار ہے؟

کوئی اختیار نہیں تو بابا پھر ساری تقریریں بس کہانیاں ہیں۔ کہانیوں سے کچھ ہوتا تو کشمیر کب کا آزاد ہو چکا ہوتا۔ وزیرستان کے قبائلیوں نے 1948ء میں کشمیر آزاد کرا کے پاکستان کے حوالے کیا تھا، کشمیر لینا ہے تو پھر وزیرستانیوں جیسی جرائت پیدا کرو اور جب تک یہ جرائت نہیں آجاتی، اقوام متحدہ کے اجلاس میں خود مت جاؤ کسی جونئیر وزیر یا دفتر خارجہ کے افسر کو بھیج دیا کرو۔
وفاقی وزیر احسن اقبال نے سخت زیادتی کی جو عمران خان کو بوڑھا کہہ دیا۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ بڑھاپے کی وجہ سے عمران خان کو وزیر اعظم بننے کی جلدی ہے۔

عمران کہاں بوڑھے ہوئے۔ ابھی تو انکے گرو جی بوڑھے نہیں ہوئے ۔ گرو بوڑھا نہیں ہوا تو چیلا کیسے بوڑھا ہو سکتا ہے؟ چیلوں کی ایک محفل میں انہوں نے اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرا اور کہا کہ قدرتی کالے ہیں، بس کنپٹیوں کی طرف سے سفید رہ گئے ۔ قدرتی کالے کی بات پر ایک چیلا مسکرایا تو گرو جی ناراض ہو گئے کہا تمہیں ثبوت دکھاتا ہوں، کمانڈو ایکشن کی طرز پر پھرتی سے اٹھے اور ہیئر کلر کی وہ شیشی لے آئے جو آپ کے زیر استعمال رہتی ہے۔

اس کی ڈبیہ دکھائی جس پر موٹے الفاظ میں لکھا تھا، بال قدتری کالے یہ ثبوت دیکھ کر چیلے نے معافی مانگی۔ اچھا کیا ورنہ گروجی پا پارہ اتنا چڑھا چکا تھا کہ چیلے کا وہ حشر کر دیے کہ اسے پتا بھی نہ چلتا کہ کون سے شے اسے کہاں سے آ کر ہٹ کر گئی۔ موڈ ٹھیک ہوا تو گرو جی نے کارگل کا ذکر چھیڑا اور کہا کہ میں نے بھارت کو اسکی گردن سے پکڑ لیا تھا۔ چیلے کا جی پھر مسکرانے کو چاہا لیکن گروجی کے غصے کا خیال آیا تو ہونٹ بھینچ لئے۔ چیلے خاں جوان ہیں البتہ پہلے جیسی نہیں رہی۔ یعنی ان دنوں جیسی نہیں جس دنوں وہ میاں صلی کی حویلی جایا کرتے تھے اور انقلابی نغمے سنا کرتے تھے۔ مثلا
میں مست کڑی تو بھی مست مست منڈا ہے
میں بھی حسین تو بھی زبردست منڈا ہے

کڑی سے مراد تحریک اور منڈے سے مطلب انقلاب ہے۔ یعنی تحریک بھی مست اور انقلاب مست بھی اور زبردست بھی۔ حویلی کوئی بھی ہو، چاہے ٹیکسالی گیٹ کی چاہے راجہ بازار کی، اسکا انقلاب سے گہرا تعلق ہے۔ تو جوان خاں شروع سے انقلابی تھے لیکن انقلاب کی وہ رت نکل گئی جسکا تعلق ٹکسالی حویلی سے تھا، اب راجہ بازار کی حویلی اور اسکے لالے پر گزارا ہے۔
پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد نے کہا ہے کہ افغانستان میں کسی گروپ کا قبضہ قبول نہیں۔ آپ قندوز پر طالبان کے قبضے کی مذمت کر رہے تھے جو اگلے روز امریکا نے چھڑا لیا۔ درست فرمایا۔ افغانستان پر قبضے کا حق صرف امریکہ کو ہے۔ افغان عوام کی ہیں۔ بس ایک گروپ۔

امریکا امریکا کر بھیا
امریکہ سے ہی ڈر بھیا

محترمہ ؑاصمہ جہانگیر الطاف حسین کی وکیل کیا بنیں ایک طوفان آگیا۔ وکلا برادری نے انکے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ وکیلوں کا کہنا ہے کہ متحدہ والوں نے وکیلوں کو زندہ جلایا تھا۔ ملزم کوئی بھی ہو اور اس پر الزام کیسا ہی سنگین کیوں نہ ہوا، اسے وکیل کرنے کا حق ہے۔ عاصمہ جہانگیر کا عمل قانونی ہے اور انکے بائیکاٹ کا عمل غیر قانونی ۔ لیکن کیا کیجئے ، قانون مکافات بھی تو اپنی ایک متوازی رٹ رکھتا ہے۔

جب بھائی کے لوگوں نے کراچی میں وکیلوں کو زندہ جلایا تھا تو انہیں شاید اس رٹ کا پتا نہیں تھا یہ پتا تھا تو اسکی پروا نہیں کی۔ بہر حال زندہ جلائے جانے کے اس عمل کا گاڈ فادر تو مشرف تھا۔ اس نے ایک نہیں کئی کئی وکیل رکھے ہوئے تھے۔ وکلا برادری انکا بائیکاٹ کیوں نہیں کرتی؟
وفاقی وزیر خزانہ نے تصدیق کی ہے کہ سانحہ منی ایرانی حاجیوں کی طرف سے غلط طور پر واپس جانے کی کوشش کا نتیجہ تھا۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں اگرچہ ایران کا نام نہیں لیا لیکن ایک ملک کے حاجیوں کی الٹے پاؤں واپسی کا ذکر کر کے واضح اشارہ دے دیا۔

ظاہر ہے یہ حاجیوں کی غلطی تھی، کوئی شرارت نہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ اگر کوئی سازش ہوئی تھی تو اس قسم کی کہ کسی ایرانی عہدیدار نے انہیں فورا واپسی کا پیغام دیا۔ فوری واپسی کا مقصد کیا ؟ کیا محض بھگدڑ مچانا یا بلا کر کوئی اور ایسی ہدایت دینا جیسی خمینی صاحب کے دور میں مظاہرے کرنے کی صورت میں دی گئ تھی۔ یہ واضح نہیں لیکن سازشی تھیوری کی تصدیق اس المناک حقیقت سے شاید ممکن ہے کہ سانحے میں سب سے زیادہ ایرانی حاجی کام آئے جنکی گنتی ساڑھے چارسو سے زیادہ ملتی ہے۔ اس سانحے کے بعد ایرانی خفیہ اداروں کے پانچ چوٹی کے افسر لاپتا ہیں۔

یہ کیوں وہاں موجود تھے؟ بظاہر تو لگے گا کہ حج کرنے آئے تھے لیکن بات اس وقت اسرار کے پردوں میں چھپ جاتی ہے جب یہ پتا چلتا ہے کہ یہ لوگ اپنے نام اور شناخت بدل کر آئے تھے۔ جو بھی سازش تھی، اسکا مقصد حاجیوں کی ہلاکتیں نہیں ہوسکتا تھا۔ کوئی مظاہرہ یا ہنگامہ مسلط ہو سکتا تھا تاکہ سعودی حکومت کو ہراساں کیا جا سکے لیکن وہ بات نہ ہو سکی اور اتنا بڑا المیہ ہوگیا۔ صرف یہ عہدیدار نہیں۔ ایران کے ایک سفارتکار غضنفر رکن آبادی جو لبنان میں سفیر رہے ہیں بھی شناخت بدل کر سعودی عرب آئے اور منیٰ کے سانحے میں لاپتا ہو گئے۔ ایران کے سفیر انقلاب مولانا خامنہ ای تو مسلسل سعودی عرب کی حکومت کو اس سانحے کا ذإے دار قرار دیتے ہیں لیکن انکے مقابلے مٰں انہی کے وزیر صحت حسن ہاشمی نے واضھ بیان دیا ہے کہ یہ محض ایک حادثہ تھا اور سعودی حکومت کا اس میں کوئی قصور نہیں۔

ایک کالم نویس نے حکومت کی کارکردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے دلچسپ جملہ لکھا ہے ۔ کہا ہے ایک بھائی معاملات بگااڑنے پر لگا ہے ، دوسرا سنبھالنے میں مصروف ہے۔
تو عدم کارکردگی کا ایک نکتہ یہ بھی ہے۔ بڑا بھائی کچھ نہ کچھ کرنے کی شہرت رکھتا ہے لیکن اس بار کچھ نہیں کر رہا تو اسکی وجہ یہی لگتی ہے کہ چھوٹے بھائی کے بگاڑ کو سنبھالنے سے فرصت ملے تو کچھ کرے۔

خزانہ اجاڑ قسم کے باکار منصوبوں کا نقصان صرف یہی نہیں ہوتا کہ رقم ضائع ہوتی رہے بلکہ ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور دیگر سہولتوں اور ترقی کے نشانوں کی بربادی بھی ہوتی ہے۔ دیکھئے آج سرکاری سکول کھنڈر بن گئے ہیں، اب وہاں استادوں کی استادی رہی نہ شاگردوں کی شاگردی۔ ویرانوں میں بربادی کے بھوت چیختے پھرتے ہیں۔
گیلپ قسم کے ادارے بہت سروے کراتے ہیں۔ ایک سروے ہسپتالوں کا بھی کریں جہاں سہولتیں اور دوائیں نہ ہونے سے مرنے والے مریضوں کی تعداد ہمیشہ سے زیادہ ہے۔ ساتھ ہی وہ لوگوں کی دعائیں سیمپل بھی لے لیں، انہیں جاری نہ کریں، بس آرکائیو میں رکھ دیں۔

عبداللہ طارق سہیل
بہ شکریہ روزنامہ  جہانِ پاکستان

Post a Comment

0 Comments