All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

چینی معیشت میں جمود و گراوٹ کا دھماکہ

ہاتھی کے پائوں میں سب کے پائوں والا محاورہ یاد ا ٓگیا کیونکہ چین گزشتہ کئی دہائیوں سے حیرت انگیز انداز میں اپنی معیشت کو سنوارتا اور پھیلاتا چلاگیا تھا۔ اپنے ہمسایہ ممالک میں اس کے اثرات، جو پاکستان جیسے نسبتاََ درمیانے درجے کی معیشت والے ممالک میں بھی محسوس کئے جاسکتے ہیں، بہت ٹھوس اور ہمہ گیر ہیں۔ چین کی حیران کن ترقی نے امریکہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک کو بھی اپنے حلقہ اثر میں لے رکھا ہے۔

کئی برسوں کی برق رفتاری مگر اب تھم سی گئی ہے۔ ماہرینِ معیشت گزشتہ کئی مہینوں سے چین میں اقتصادی جمود کا تذکرہ کررہے تھے۔ یک جماعتی نظام کے تحت کام کرنے والے ممالک کی حقیقتوں کو مگر وہاں کے میڈیا کے ذریعے جانا نہیں جاسکتا۔ حقیقت کسی دھماکے کے ساتھ ہی آشکار ہوتی ہے۔ چین میں یہ دھماکہ جون کے آخری ہفتوں میں ہوگیا۔ شنگھائی جو 24گھنٹے جاگ کر پوری دُنیا کی معیشت کو ریل کے کسی انجن کی مانند آگے بڑھاتا چلاجاتا ہے، اچانک کساد بازاری کا شکار نظر آنے لگا۔

اس کی یہ مندی وقتی ثابت نہ ہوئی۔ شیئرز کی قیمتیں مسلسل گرتی رہیں۔ لاکھوں تنخواہ دار لوگ جنہوں نے بینکوں سے قرضے لے کر کچھ کمپنیوں کے حصص خریدے تھے۔ اداس وپریشان ہوگئے۔ دنیا کے سامنے مگر ان کی مصیبتیں پوری طرح سامنے نہ آسکیں۔

دُنیا کو چینی معیشت میں جمود اور گراوٹ کا اصل احساس بالآخر اس وقت ہوا جب وہاں کی حکومت 20سال کی طویل مزاحمت کے بعد رضاکارانہ طورپر اپنی کرنسی کی قدر کو نمایاں نظر آنے والی حد تک کم کرنے کومجبور ہوئی۔ قدر کی یہ کمی چینی برآمدات کی موجودہ سطح کو کسی نہ کسی حد تک برقرار رکھے گی۔ مگر اس سے آگے بڑھنے کی امید نظر نہیں آرہی۔ ناامیدی کی یہ لہر اب دنیا کے دیگر ممالک تک بھی پہنچ گئی ہے۔
پیر کے دن پاکستان شدید مندی کا شکار ہوا۔ ڈالر روپے کے مقابلے میں مہنگا ہونا شروع ہوگیا۔ بھارت کی صورتِ حال بھی مختلف نہ رہی۔ پاکستان اور بھارت جیسے ملکوں میں لیکن سیاستدان اور ان کے پالتو صحافی کنوئیں کے مینڈک ہوا کرتے ہیں۔

پاکستان کے بارے میں یہ تھیوری اختراع ہوئی کہ ’’کراچی آپریشن کے خوف سے‘‘ سیٹھوں نے ہاتھ کھینچ لئے ہیں۔ وہ اپنے حصص بیچ کر ڈالر خریدنا شروع ہوگئے ہیں اور ان ڈالروں کی بدولت غیر ملکوں میں سرمایہ کاری کے لئے تیار۔
بھارت میں کانگریس کے چاہنے والوں نے کہانی یہ بنائی کہ چونکہ اب ڈاکٹر من موہن سنگھ جیسے ماہر معیشت کے بجائے گجرات سے آیا بڑھک باز مودی دلّی سرکار چلارہا ہے۔ اس لئے بھارتی معیشت بے لگام ہوکر پستی کی طرف جانا شروع ہوگئی ہے۔

بھارت میں جو بے سروپا کہانیاں بُنی جارہی ہیں مجھے اس سے کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ ایک پاکستانی ہوتے ہوئے میرا اصل دُکھ تو یہ ہے کہ میرا ملک پہلاتھا جس نے 60ء کی دہائی کے شروع میں جب چین عالمی تنہائی کا شکار تھا اس ملک سے اپنے روابط کا آغاز کیا۔ چین کے ساتھ ہماری دوستی ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری تصور کی جاتی ہے۔ سرکاری ایوانوں میں گزشتہ کئی دہائیوں سے گونجتے ان نعروں کے باوجود مجھے کسی ایک پاکستانی مصنف، صحافی یا تبصرہ نگار کا نام بتادیجئے جو چینی زبان اور ثقافت کو ایک ماہر کے طورپر جانتا ہو۔ میں اپنا کالم لکھنے یا ٹی وی پر بھاشن دینے سے پہلے اس سے رجوع کروں تو چین کے حالاتِ حاضرہ کو تھوڑا بہت سمجھ پائوں؟

چینی معیشت میں جمود اور گراوٹ کی خبر مجھے صرف اس وجہ سے ملنا شروع ہوئی کہ ’’نیویارک ٹائمز‘‘ میرے پسندیدہ اخباروں میں سے ایک ہے۔ میں معیشت جیسے خشک مضمون کے بارے میں تقریباََ جاہل ہوتے ہوئے بھی اس اخبار کے صفحہ اوّل پر چینی معیشت کے بارے میں مسلسل چھپنے والی خبروں کی وجہ سے دھماکے کے ساتھ نمودار ہونے والے جمود اور گراوٹ کو وقت سے قبل تھوڑا بہت سمجھ سکا۔

آج بھی جدید چین کے عالمی سیاست کے حوالے سے ابھرنے والے رویوں کو تاریخی تناظر میں رکھتے ہوئے کچھ جاننے کی خواہش مچلے توپہلی کتاب ڈاکٹر کیسنجر کی اٹھاتا ہوں۔ اس کیسنجر نے چین کا پہلا دورہ 1970ء میں یحییٰ خان کی حکومت کے دوران اسلام آباد سے خاموشی کے ساتھ روانہ ہوکر کیا تھا۔ کیسنجر کو چین تک پہنچانے والے پاکستان کے کسی شہری کو وہ ملک سمجھنے کے لئے جب اس کی کتاب پڑھنا مجبوری بن جاتی ہے تو دُکھ ہوتا ہے۔

علم کو ہم مومن کی کھوئی ہوئی میراث کہتے ہیں۔ علم حاصل کرو خواہ اس کے لئے تمہیں چین جانا پڑے والی مبارک حدیث میں بچپن سے سنتا چلاآرہا ہوں۔ علم کے حصول کی حقیقی تڑپ مگر اپنے دیس میں مجھے نظر نہیں آتی۔ تاریخ ’’سمجھانے‘‘ کو ہمارے ہاں تحقیقاتی کتابیں نہیں ناول لکھے گئے ہیں۔ ناول خواہ وہ کتنا ہی سطحی کیوں نہ ہو لکھنے کے لئے وقت، محنت اور تنہائی درکار ہوتی ہے۔ زمانہ ویسے بھی آج کل ’’کالم نگاروں‘‘ کا ہے۔ بس قلم اٹھائیے اور کسی بھی موضوع پر وعظ فرمادیجئے۔ ایسا وعظ فرمانے کے لئے بھی قلم اٹھانا، تھوڑا سوچنا اور زبان وبیان کی حدود کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ 24/7ٹی وی نے اس اذیت سے بھی جان چھڑادی ہے۔

 کوئی اچھا سا کوٹ پہن کر رنگ دار سموسہ دکھتی ٹائی لگائیں اور سرخی پائوڈر کے ذریعے اپنا چہرہ چمکائیں۔ بالوں کو رنگ کر خود کو جوان دکھائیں اور آجائیں ٹی وی سکرین پر۔ اپنے لوگوں کو بس یہی تو بتانا ہے کہ چین اقتصادی حوالوں سے زقندیں بھرتا ہوا دُنیا کی سب سے بڑی قوت کے طورپر اُبھررہا ہے۔ اس کی قوت ہماری قوت ہے۔ کیونکہ چین اپنا یار ہے اس پر جاں نثار ہے۔ اسے بس گوادر سے کاشغر تک والا روٹ بنالینے دیں۔ پھر ہم تم ہوں گے۔ کاروبار کی ریل پیل ہوگی اور ہمارے دشمنوں کے دل اور چہرے حسد سے کالے ہوجائیں گے۔

اپنے دشمنوں کے ممکنہ حسد سے لطف اٹھاتے ہم اکثر بھول جاتے ہیں کہ چین خود بھی ایک ’’دشمن دار‘‘ ملک ہے اور چین کے دشمنوں کی اصل وجہ زر، زمین اور زن کے جھگڑے نہیں۔ ایک سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ اس نظام کے اپنے تقاضے ہیں۔ صارف اور منڈی اس نظام کے اصل اہداف ہوتے ہیں۔ چین آج بھی خود کو ایک سوشلسٹ ملک کہتا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کی وہاں آمرانہ حکومت ہے۔ اس یک جماعتی نظام کو برقرار رکھتے ہوئے مگر ڈینگ سیائو پنگ جیسے رہ نمائوں کی بدولت چین نے صارفین اور منڈیوں پر زیادہ سے زیادہ قبضے کے کھیل میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔

چینی مزدور بہت کم اُجرت پر دیوانوں کی طرح دن رات کام کرتا ہے۔ وہاں کے مزدور کو ٹریڈ یونین اور ہڑتالوں وغیرہ کی ’’عیاشی‘‘ میسر نہیں۔   آئی فون کو ایجاد امریکہ میں بیٹھا سٹیوجابز کرتا ہے مگراس کی عالمی دنیا میں کھپت کے لئے یہ فون چین کی فیکٹریوں میں بنائے جاتے ہیں۔ یہی عالم دنیا بھر میں معروف  والی بے تحاشہ اشیاء صرف کے ساتھ ہوا۔ چارسو عالم میں  کی دھوم مچ گئی۔ مگر جو اشیاء اس لیبل کے ساتھ فروخت ہوتی ہیں انہیں ’’ایجاد‘‘ ہمیشہ امریکہ یا یورپ کی کمپنیوں نے کیا۔

معاشی رونقوں کی کلید ’’ایجاد‘‘ ہے  ۔ کسی قوم میں ’’ایجاد‘‘ کی عادت حکومتیں نہیں تعلیمی ادارے پروان چڑھایا کرتے ہیں۔ ان اداروں میں رٹے نہیں لگائے جاتے۔ نہ ہی استاد کی بتائی اور کتاب میں لکھی ہر بات کو غلامانہ انداز میں’’اٹل‘‘ مانا جاتا ہے۔ تخلیقی صلاحیتیں مسلسل سوالات اٹھاتے ہوئے نئے نظریات اور ایجادات کی طرف لے جاتی ہیں۔ آکسفورڈ، کیمبرج یا ہارورڈ کی یونیورسٹیاں آپ کو سوالات اٹھانے پر اُکساتی ہیں۔ ہمارے ہاں سوال اٹھائو تو کفر اور غداری کے فتوے لگ جاتے ہیں۔ اس حوالے سے سرسید اور اقبال تک نہ بخشے گئے۔ ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔

اپنی فطری بزدلی کی وجہ سے میں بھی اس کالم میں کوئی سوال اٹھانے کی کوشش نہیں کررہا۔ التجابس اتنی ہے کہ اپنے ’’یار جس پر جاں بھی نثار ہے‘‘ والے ملک میں ہونے والی تبدیلیوں پر بھی تھوڑی سی نگاہ ڈال لیں۔ چین میں ان دنوں جو کچھ ہورہا ہے اس پر غور کرتے ہوئے ہمارے لئے ہدایت کے بہت دیئے روشن کئے جاسکتے ہیں۔ ایسے چراغوں کو ڈھونڈ کر انہیں لودینے کی کوشش کیجئے۔

نصرت جاوید

بہ شکریہ روزنامہ نوائے وقت

Post a Comment

0 Comments