All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

نواز مودی ملاقات ۔ بھارت اس بار سنجیدہ ہے؟

بھارتی وزیر اعظم مودی اور پاکستان ہم منصب کے درمیان تعلقات 14 ماہ کے عرصے پر محیط ہیں۔ جس میں بہتر تعلقات کی ابتداء بھی مودی کی جانب سے کی گئی اور تعلقات کو متاثر بھی مودی نے ہی کیا۔ مودی نے ہی پاکستانی ہم منصب کو اپنی تقریب حلف برداری مین شرکت کی دعوت دی اور پھر چند ماہ بعد کشمیر میں روایتی بیان بازی کر کے تعلقات کو متاثر کر دیا۔ نواز شریف اور مودی کے اگر 14 ماہ کے تعلقات پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم کا خطے میں امن کے حوالے سے رویہ ہمیشہ مثبت رہا مگر مودی کی شدت پسنددی میں کبھی کمی نہ آئی۔ آج کے کام میں تذکرہ کریں گے کہ وہ کون سی قوتیں اور محرکات ہیں جنہوں نے مودی کو بات چیت پر قائل کیا۔ کیا بھارت واقعی پاکستان سے بہتر تعلقات کا خواہاں ہے یا اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سیشن مین نواز شریف کی جارحانہ تقریر کا سامنا کرنے سے کترا رہا ہے؟

مودی کے حالیہ رویے مین تبدیلی کیا بھارتی مداخلت کے ثبوت عالمی طاقتوں کو فراہم کرنے کی وجہ سے آئی ہے؟ نواز شریف اور مودی کے درمیان پہلی ملاقات 14 ماہ قبل 27 مئی کو بھارتی شہر دہلی میں ہوئی۔

اقتدار میں آںے کے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ پہلی ملاقات تھی۔ نواز شریف اپنے بھارتی ہم منصب مودی کی تقریب حلف برداری میں شریک ہوئے، جس میں مودی نے دہشت گردی کے خلاف موثر اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا تو نواز شریف نے محاذ آرائی ترک کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے حساس معاملات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا۔ دونوں وزرائے اعظم کی پہلی ملاقات میں سیکرٹری خارجہ سطح پر روابط قائم رکھنے اور مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔ مگر یہ سلسلیہ تین ماہ بعد ہی تعطل کا شکار ہوگیا۔ جب بارہ اگست کو دورہ کشمیر کے دوران مودی نے پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کی۔ جس کے بعد لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر دونوں ممالک کی سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔
مودی کے دورے کے ایک ہفتے بعد اٹھارہ اگست کو جب دہلی میں پاکستان ہوئی کمشنر عبدالباسط نے مقبوضہ کشمیر کے حریت رہنماؤں سے ملاقات کی تو اسکے جواب میں بھارت نے اگست کو سیکرٹری خارجہ کی سطح پر ہونے والے طے شدہ مذاکرات منسوخ کر دیئے۔ گزشتہ سال ستمبر میں دونوں رہنماؤں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک دوسرے کے خلاف کھل کر تقریر کی۔ جس میں نواز شریف نے کشمیر تنازع پر بھارت کو آڑے ہاتھوں لیا تو بھارت نے پاکستان سے تشدد سے پاک ماحول کا مطالبہ داغ دیا۔ 

اسکے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں باضابطہ ملاقات کی توقع تھی مگر یہاں بھی بات مصافحے اور چند جملوں کے تبادلے سے آگے نہ جا سکی۔ رواں سال فروری میں مودی اور نواز شریف کا فون پر رابطہ ہوا جس کے نتیجے میں بھارتی سیکرٹری خارجہ ایس جے شنکر نے اسلام آباد کا دو روزہ دورہ کیا۔ جس میں سرحدوں پر کشیدگی کم کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ مگر اپریل مین ممبئی حملہ کیس میں بھارت کو مطلوب ذکی الرحمان لکھوی کو جب عدالتوں نے رہا کیا تو بھارت نے اس پر شدید احتجاج کیا۔

پاکستان نے مئی میں حقائق اور ثبوتوں کی روشنی میں دعوی کیا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی راء پاک چین اقتصادی راہداری کو نقصان پہنچانے کیلئے کام کر رہی ہے۔ جبکہ کچھ عرصے بعد ہی پاکستان نے را کے دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے ثبوت بین الاقوامی دوستوں کو فراہم کئے تو حالات مزید کشیدہ ہو گئے۔ جون میں بھارتی وزیر اعظم مودی نے دورہ بنگلہ دیش کے دوران انکے ایک بیان نے بہتر تعلقات کی رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ کہ بنگلہ دیش کا قیام ہر بھارتی کی خواہش تھی۔ 

اسی دوران انہوں نے دورہ چین کے دوران اقتصادی راہداری کے معاملے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ اسکے بعد گزشتہ ماہ بھارتی وزیر مملکت راجیہ دردھن نے برمی سرحد کے علاقے میں بھارتی فوج کی کارروائی کو پاکستان سمیت دوسرے ممالک کے لئے ایک پیغام قرار دیا۔ بھارتی وزیر کے اس بیان کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات اس حد تک کشیدہ ہو گئے کہ جوہری ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی بھی بات کی گئی۔

معاملے کی حساسیت کا اندازہ لگاتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ کو مداخلت کرنا پڑی ۔ جس کے بعد دونوں وزرائے اعظم میں ایک بار پھر رابطہ ہوا۔ وزیر اعظم نواز شریف اور مودی کے درمیان روس کے شہر اوفا میں ہونے والی حالیہ ملاقات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ملاقات ایسے موقع پر ہوئی ہے جب پاکستان بھارتی مداخلت کے ثبوت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سیشن میں لہرانے والا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان اس متربہ بھارت کے خلاف اقوام متحدہ میں جارحانہ تقریر کی تیاریاں مکمل کر چکے تھے۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ بھارت بین الاقوامی سطح پر پاکستان موقف کا سامنہ کرنے سے کترا رہا ہے۔ کہیں اس میں بھارت کی کوئی نئی حکمت عملی تو نہیں؟ کیونکہ مودی اور نواز شریف کی حالیہ ملاقات میں چین اور روس کا اہم کردار ہے۔

چین اقتصادی راہداری میں حائل رکاوٹیں دور کرنے جبکہ روس خطے میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لئے پاک بھارت بہتر تعلقات کا خواہاں ہے۔ ویسے تو آرمی چیف کے حالیہ دورہ روس نے بھی بہت سے معاملات طے کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جبکہ وزیر اعظم نواز شریف سے مودی کی ملاقات کے بعد روس کے سربراہ پیوٹن کی ملاقات بھی ہوئی ہے۔ جس میں انہوں نے زور دیا ہے کہ بھارت سے معاملات افہام و تفہیم سے حل کئے جائیں۔ ایک طرف عالمی طاقتوں کا افہام و تفہیم کیلئے دباؤ ہے تو دوسری طرف ستمبر میں بھارت کے خلاف اقوام متحدہ میں تقریر ہے۔ اطلاعات ہیں کہ اس حوالے سے بھی نواز شریف شش و پنج کا شکار ہیں۔ اس معاملے پر نواز شریف عسکری قیادت سے مشاورت کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ پاکستان نئے مذاکراتی سلسلے کی وجہ سے اقوام متحدہ میں اصولی موقف میں لچک دکھائے اور بھارت چند ماہ بعد پھر روایتی ہٹ دھرمی پر اتر آئے۔ اس لئے ہمیں سوچ سمجھ کر حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔ روس اور چین کا خطے مین حالیہ امن کے حوالے سے کردار اہم دکھائی دے رہا ہے۔ ایک طرف دونوں ممالک کی کوشش ہے کہ افغان طالبان اور افغان حکومت میں مذاکرات کامیاب ہوں تاکہ افغانستان مین امن کی فضا قائم ہو۔

جبکہ دوسری جانب پاک بھارت بہتر تعلقات سے بھی دونوں بڑی طاقتوں کا براہ راست مفاد جڑا ہوا ہے۔ مگر پاکستان کو ان حالات میں اپنے مفاد کی فکر کرنی چاہیے۔ چین ہمارا دوست ملک ہے، روس خطے میں امن کا خواہاں ہے مگر کسی بھی دوست یا ہمسائے ملک کے دباؤ پر اصولی موقف سے پیچھے ہٹنا پاکستان کیلئے نقصان دہ ہو گا۔ پاک بھارت وزرائے اعظم ملاقات کے فورا بعد زیادہ توقعات لگانا مناسب نہیں ہوگا۔ پاک بھارت بہتر تعلقات وقت کی اہم ضرورت ہیں مگر بھارتی دخل اندازی اور پاکستان میں شدت پسند گروہوں کی معاونت کے حوالے سے بھارتی خفیہ اداروں کے منفی کردار کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے معاملے سے پیچھے ہٹنا مناسب حکمت عملی نہیں ہوگی۔

حذیفہ رحمان
بہ شکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments