All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

پہلا روزہ کیسے گزرا...

مسلمانوں میں کسی حکمران کا جو تصور پایا جاتا ہے اس کو دیکھیں تو ہماری موجودہ حکومت کو اپنے وجود کا کوئی جواز حاصل نہیں ہے بلکہ ہمارے حکمران تو کم از کم معیار پر بھی پورے نہیں اترتے اور یہ معیار مسلمانوں کے ہاں تو تاریخ کی کتابوں اور روایتوں میں ہی ملتا ہے جب کہ غیر مسلم ملکوں میں یہ معیار بہت پہلے سے موجود ہے اور کسی حکمران کی کیا مجال ہے کہ وہ اپنے ووٹروں اور عوام سے لاپروائی کا ایک لمحہ بھی گزار دے۔ ہمارے ہاں ہمارے حکمران گھر سے باہر نکلیں تو ان کی حفاظت کے لیے راستے بند ہو جاتے ہیں۔

خلق خدا کو غائب کر دیا جاتا ہے اور جب سرکاری سواری خیریت سے گزر جاتی ہے تو گھروں اور راستوں کے بند کھلتے ہیں اور لوگوں کو باہر نکلنا اور کاروبار میں جانا نصیب ہوتا ہے لیکن اسی زمانے میں ناروے کے وزیر اعظم نے اسمبلی سے گزارش کی کہ مجھے میری گاڑی کو اس راستے سے گزرنے کی اجازت دی جائے جو اسکولوں کے لیے محفوظ ہے تا کہ میں وقت پر آپ کے پاس پہنچ کر کاروبار مملکت میں آپ کا ہاتھ بٹا سکوں۔

اس پر غور ہوا اور طے یہ پایا کہ وزیر اعظم کو دفتر پہنچنے میں جتنی دیگر لگتی ہے وہ اتنے وقت پہلے گھر سے روانہ ہوا کریں تا کہ وہ بروقت پہنچ سکیں۔ وزیر اعظم نے سر جھکا کر بات تسلیم کر لی۔ وزیر اعظم ہر ہفتہ اسلام آباد سے سے لاہور جاتے ہیں اور ہر ہفتہ خبر چھپتی ہے کہ وزیر اعظم کو سخت ترین سکیورٹی میں بحفاظت جاتی امرا پہنچا دیا گیا۔
اس سکیورٹی پر کتنا وقت اور کتنا خرچ اٹھتا ہے یہ کوئی یکم رمضان المبارک کو لوڈشیڈنگ کے عذاب کا سامنا کرنے والوں سے پوچھے۔ حکمرانوں سے تو جب کبھی پوچھا جائے گا ہمیں کیا معلوم ہم تو یہ جانتے ہیں کہ ہمارے خرچ پر ہمارے خون پسینے کی کمائی پر ہمارے اوپر حکومت کرنے والوں سے یہاں کوئی نہیں پوچھ سکتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ خبر چھپتی ہے کہ ہمارا کوئی حکمران سرکاری تام جھام کے بغیر بازار میں دیکھا گیا ہے بلا خوف و خطر گھومتا پھرتا اور اپنی شجاعت اور بے خوفی کی داد دیتا ہوا۔ بازار والے اپنے حکمران کو اس بے خوفی کی حالت میں دیکھ کر تالیاں بجاتے ہیں اور بھارت کے نریندر مودی کو سبق سکھانے کا اعلان کرتے ہیں۔

ہمارے حکمرانوں کے یہی بے خوف و خطر اعزاز ہیں کہ سال بھر کا مبارک ترین مہینہ جب شروع ہوتا ہے تو اس پہلے روزے کی سحری اور افطاری اندھیرے میں آتی اور چلی جاتی ہے جب کہ وزیر اعظم تک نے یہ اعلان کیا ہوتا ہے کہ ان اوقات میں بجلی نہیں جائے گی۔ یہ اعلان یوں درست تھا کہ وزیر اعظم کے ہاں نہ سحری کے وقت بجلی گئی نہ افطاری کے وقت۔ اگر گئی تو وہاں گئی جہاں اسے کوئی عوام دکھائی دیا۔ بجلی نے ادھر کوئی نامحرم عوام دیکھا وہ فوراً پردے میں چلی گئی۔

ہمیں کیا لیکن بہرحال ایک عوام حکمرانوں سے عرض کرتا ہے کہ سرکار عوام کو لعنت بھیجیں اس سے ڈریں جس نے رمضان المبارک اور اس کے پہلے روزے کی برکات بیان کی ہیں اور جس کا اعتراف آپ نے بھی کیا ہے اور آپ چونکہ حکمران ہیں اس لیے آپ کی بات بالکل دوسری ہوتی ہے۔ عوام کی بات سے مختلف، بجلی کے چور اور کرپشن کرنے والے آپ کے سامنے پھرتے ہیں اور سابق وزیر اعلیٰ کا پروٹوکول بھی لیتے ہیں لیکن آپ کی سیاست آپ کے ہاتھ باندھ دیتی ہے اور یہ عذاب عوام کو منتقل ہو جاتا ہے۔

اس وقت میرے ذہن میں مسلمان حکمرانوں کے کئی واقعات کی یاد تازہ ہو رہی ہے لیکن میں ان واقعات کو بیان کر کے خود بھی شرمندہ نہیں ہونا چاہتا اور نہ اپنے ماضی کے حکمرانوں کو شرمندہ کرنا چاہتا ہوں کیونکہ انھوں نے حکمرانی کی سختیاں اور آزمائشیں جھیل کر آنے والی نسلوں کے لیے مثالیں قائم کی ہیں۔ اس امید کے ساتھ کے آنے وال حکمران اپنی رعایا کو ایسا ہی سکھ دیں گے جیسا وہ آج اپنے عوام کو دے رہے ہیں اور خود ہر دکھ جھیل رہے ہیں۔

ہمارے ان دنوں کے حکمرانوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ نماز روزہ کے پابند ہیں۔ نماز روزے کے پابند تو ان کے عملے کے کئی اور لوگ بھی ہوں گے۔ مگر ان کی نیکی ان کی ذات تک جب کہ حکمرانوں کی نیکی لاکھوں کروڑوں عوام تک۔ ایک نیک نام افسر آ جائے تو محکمے کی بدعنوانی ختم ہو جاتی ہے یا کم پڑ جاتی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے اعلیٰ ترین حکمران اس قدر بے فیض ہیں کہ ان کی حکمرانی کو ان کے ماتحت بھی محسوس نہیں کرتے نہ کسی کو ان کی آمد کا پتہ چلتا ہے۔

نہ کسی کو ان کے جانے کا۔ صرف وہ چند لوگ سامنے آتے ہیں جو ان کے دور میں ہاتھ گرم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور آپ کی طرح میں بھی حیرت زدہ ہوں کہ سندھ میں رشوت کے کئی کیس سامنے آ رہے ہیں جن میں رشوت کا سرمایہ لاکھوں کروڑوں میں نہیں اربوں میں ہے اور ایسی مثالیں بھی ہیں کہ مختلف شعبوں میں سے کرپشن کا ایک معقول حصہ ہر ماہ پیش کیا جاتا تھا۔ داد دیجیے ان سیاستدان حکمرانوں کی جو اربوں کھا گئے اور اب ہر کسی کو للکار رہے ہیں۔

شاید اس لیے کہ انھیں معلوم ہے کہ وہ جن کو نشانے پر رکھے ہوئے ہیں وہ بھی کبھی ان کے ہمنوا تھے اور شاید اب بھی ہوں۔ میں نے ایک دو دن پہلے سولیوں کے گاڑنے کی بات کی تھی جب تک چوراہوں پر سولیاں نہیں گڑیں گی اور برے لوگ ان پر لٹکتے دکھائی نہیں دیں گے تب تک ہماری حالت یہی رہے گی کہ یکم رمضان المبارک کو بھی لوڈشیڈنگ۔ پہلے برے اور غلط لوگوں کی لوڈشیڈنگ ضروری ہے۔ پھر شاید اس کی ضرورت ہی نہ رہے۔

عبدالقادر حسن

Post a Comment

0 Comments