All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

جنوبی ایشیا میں بھارتی کی دہشت گردی

بھارت نے اپنی لاکھوں مسلح افواج کی طاقت سے کشمیر میں رائے شماری سے متعلق اقوام متحدہ کی دو قراردادوں پر عملدرآمد کیخلاف 42 سال مزاحمت کی، جب 90ء کے اوائل میں کشمیری تنظیموں نے مشترکہ پلیٹ فارم انتفادہ کی طرز پر اقوام متحدہ کی قرارداد پر عملدرآمد کرانے کیلئے پرامن لیکن انتہائی منظم جدوجہد کا آغاز کیا تو بھارت کیلئے اسے قابو کرنا مشکل ہو گیا۔ کشمیریوں نے لاکھوں کی تعداد میں ریلیز ، آزادی مارچ ، جلوسوں اور پبلک مقامات کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع کیا جس سے گھبرا کر بھارت نے پہلے تو نئی دہلی میں مقیم بڑی تعداد میں تعینات صحافیوں پر مقبوضہ کشمیر کو رپورٹ کرنے پر پابندیا لگائیں۔ وہ پرمٹ لے کر ہی سری نگر جا سکتے تھے جو اکاد کا صحافیوں کو وقفے سے ہی ملتا تھا۔
پھر بھارتی فوج نے جلسے جلوسوں پر لاٹھی چارج شروع کیا جو جلد ہی اوپن اور سیدھی فائرنگ میں تبدیل ہو گیا، نتیجتا شہادتوں اور بڑے پیمانے پر گرفتاریو کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کشمیری نوجوان بڑی تعداد میں گرفتار کر کے راجھستان کے تپتے ہوئے جیلوں اور ٹارچر سیلز میں پہنچائے جانے لگے۔ گویا اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کرانے کی کشمیریوں کی تحریک کیخلاف روایتی حکومتی سفاکانہ اقدامات کا سلسلہ شروع ہو گیا لیکن تحریک اور شدت سے ابھرتی گئی۔ پاکستان کی طرف سے کشمیریوں کی سیاسی اور بھرپور سفارتی معاونت کا سلسلہ شروع ہو گیا کہ ساری دنیا پاکستان کو ہی عالمی مسئلہ کشمیر کے اولین فریق کے طور پر جانتی ہے جس کا ایک ہی اور اٹل موقف ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی منظور قراردادوں کے مطابق کشمیر میں رائے شماری (جسکا ایک ہی سوال ہوگا کہ کشمیریوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا ہے یا بھارت کے ساتھ؟) کرا کر حل کیا جائے، پاکستان کی موجودہ سول اور فوجی قیادتوں نے واضح کیا ہے کہ اسکے علاوہ مسئلہ کشمیر کا کوئی دوسرا حل قابل قبول نہیں ہو گا۔ واضح رہے کہ جب مقبوضہ کشمیر کی متذکرہ تحریک حصول حق خوددارادیت میں شہادتوں کا سلسلہ بڑھنے سے تحریک بھارتی افواج کے کنٹرول سے باہر ہو گئی اور نہتے کشمیری نوجوانوں نے سروں پر فائرنگ کے مقابل مجبورا پتھراؤ کا سلسلہ شروع کیا تو بین الاقوامی میڈیا انسانی جانوروں کے روز مرہ ضیاع پر کشمیر کی تحریک کو بہت حد تک کور کرنے پر مجبور ہو گیا ۔

اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے بھارت نے سفاکی کی شہرت کے حامل گورنر کو سرینگر میں تعینات کیا جس کی انتظامیہ کے سائے میں کشمیری خواتین کو گھروں سے نکال کر جلوسوں سے گرفتار کر کے بھارتی درندہ فوج نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت گینگ ریپ کی دہشت گردی کا سلسلہ شروع کیا ۔ یہ واقعات کوئی اکادکا یا دو چار نہیں ، بلکہ بڑی مکاری سے دہشت گردی کا سلسلہ وہاں بڑھ چڑھ کر کیا گیا جہاں تحریک زور پکڑتی۔ بھارتی فوج کے اس بزدلانہ شرمناک اور دہشت گرد منصوبے نے افغان جنگ 1979ء سے 1990ء تک کی پیداوار جہادی تنظیموں (جن کی بڑی تعداد پاکستان قبائلی علاقوں میں اور کچھ شہروں میں تھی) کو مشتعل کر دی اور انہوں نے کشمیریوں کی معاونت کے لئے انتہائی نامساعد جغرافیائی حالات اور پاکستانی انتظامیہ کی رکاوٹوں کے باوجود تربیت یافتہ کچھ نہ کچھ مجاہدین کو خفیہ طریقے سے کشمیر بھیجنے کا سلسلہ شروع کر دیا جن کے گوریلا ٹائپ ایکشن سے بھارت ہراساں ہو گیا اور اس نے ساری دنیا میں پاکستان کے کشمیر میں ‘‘دہشت گرد’’ بھیجنے کا واویلا شروع کیا۔

حالانکہ پاکستانی حکومت انہیں لائن آف کنٹرول عبور کرنے کے لئے ممکنہ حد تک روکتی رہی۔ اس پس منظر میں بھارتی دہشت گردی کا آغاز اس میں اضافہ اور پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا کافی حد تک کامیاب پروپیگنڈہ بہت واضح ہے۔ ادھر مغرب میں افغان جنگ کے اختتام پر امریکہ اور نیٹو ممالک میں سوویت ایمپائر کے منتشر ہونے کے بعد مسلم فنڈامینٹل ازم یعنی مسلم بنیاد پرستی کو مغرب کے لیے نئے خطرے کے طور پر پیش کیا گیا حالانکہ کوئی مسلم ریاست انتہا پسندانہ رجحانات میں مبتلا تھہ نہ ہی کسی اسلامی ملک میں عوامی سطح پر ایسے رجحانات تھے حقیقت یہ ہے کہ وہ وقت تھا جب بھارت میں بنیاد پرستی بھارتی حدود میں پروان چڑھ رہی تھی یا اس کے رد عمل میں سکھوں کی آزاد خالصتان کی ایسی تحریک نے جنم لیا جسے بھارت نے ریاستی دہشت گردی سے ہزار ہا سکھوں کا قتل عام وقتی طور کر کے پوری طاقت سے کچل دیا تھا لیکن حقیقت میں یہ مصلحتی طور پر دوبارہ منظم کرنے کے لئے لوپروفائل میں چلی گئی۔ اب اس کے دوبارہ ابھرنے کے عندیئے مل رہے ہیں ۔ بھارت میں ہندو بنیاد پرستی کا گہرا اثر چھوٹ ذات کے ہندوؤں خصوصا نچلی ذات کے ہندوؤں پر پڑا جس کے نتیجے میں دلت لیڈر ہزار ہا کارکنوں کے ہمراہ اپنے نظریاتی لیڈر ڈاکٹر ایمبیڈکر (بھارتی آئین کے آرکیٹکٹ) کی پیروی کرتے ہوئے ہندو مت چھوڑ کر بدھ مت میں داخل ہونے لگے۔

بھارتی سرکار نے ان خبروں کو روکنے کے لئے بڑے ہاتھ پاؤں مارے لیکن خبریں آ ہی گئیں اور سکھوں کی طرح دنیا بھر میں دلت نیٹ ورک تیزی سے بڑھنے لگا۔ مودی کی حکمران جماعت کے تربیت یافتہ عسکری ونگ اگر بھارت بھر میں مقامی دلت لیڈروں کو گلی محلوں اور دیہات میں بڑی مکاری سے ہراساں نہ کرتے رہتے تو ڈاکٹر ایمبیڈکر کی پیروی میں لاکھوں نہیں کروڑوں اچھوت بدھ اور مسلمان ہو چکے ہوتے۔ امر واقعہ ہے کہ اندرون بھارت اوائل 80ء سے زور پکڑتی ہندو بنیاد پرستی نے آج عملا بھارت کو سیسکولر سے بنیاد پرست ریاست میں تبدیل کر دیا ہے جہاں گجراتی مسلمانوں کے قتل عام میں واضح طور پر ملوث مودی بھارتی اکثریت سے وزیر اعظم بن گیا۔ جو اپنے اقدامات اور جسکے پارٹی ورکر گھر واپپپسییی کے نام پر مسلمانوں اور عیسائیوں کو تشدد سے ہندو بنانے کی تحریک شروع کئے ہوئے ہیں۔

کلام اور باڈی جیسٹر سے یکدم ہندو بنیاد پرست ہی معلوم دیتے ہیں وزیر اعظم بن کر انہوں نے بھارت میں ہندوازم کے اختیار کی پہلے ایکسٹرنل اپروچ سے زیادہ انٹرنل غلبے کی بات کھل کر کی اور پاکستان سے مذاکرات کی بحالی کو ٹالا اور جب انکی بنیاد پرستی اندرون بھارت رنگ دکھانے لگی تو پھر گزشتہ سال منتخب ہونے کے کچھ عرصے بعد ہی پاکستان کی مشرکی ورکنگ بارڈر پر پاکستانی سرحدی دیہات پر فائرنگ کا بلااشتعال لیکن طویل دور شروع کر دیا جبکہ پاکستان نے اپنی اندرونی دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ شروع کردی جسکو پوری دنیا میں سراہا جا رہا ہے لیکن بھارت میں اتنا حوصلہ کہاں کہ پاکستان کے اندرون ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وہ خاموش رہے وہ تو اس جنگ کو بڑھانے اور طوالت دینے کے لئے افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں جتنی ہو سکتی ہے براہ راست دہشت گردی ایکسپورٹ کر رہا ہے۔ برما کے اندر جا کر علیحدگی پسندوں کے ٹھکانے تباہ کرنے کی رنگون سے تردید نے برما کو دہشت زدہ کرنے کی خواہش تو آشکار کردی۔

برسراقتدار آتے ہی مودی نے چند ہی ہفتوں بعد نیپال کے تاریخی مندروں کا دورہ کیا اور واضح کیا کہ نیپال ان کے بہت زیر اثر ہندو ریاست ہے ۔ بنگلہ دیش کے حالیہ دورے میں بھی اس نے بنگلہ دیشیوں پر واضح کیا ہے کہ اسکا قیام بھارتی قربانیوں کے مرہون منت ہے اور بنگالیوں کو یاد دلایا کہ آزاد بنگلہ دیش کے قیام کے لئے وہ انکے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلے ۔ ادھر افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی برآمد کرنے کے ثبوت پاکستانی خفیہ اداروں نے حاصل کر کے پوری دنیا میں بھارت کی دہشت گردی کو آشکار کرنے کی کوشش کی ہے کیا اس کوشش کو مزید بڑھایا نہیں جا سکتا کہ بھارت کے متذکرہ دہشت گردانہ کردار کو پوری دنیا پر واضح کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت ایک عرصے سے اپنے اندر اقلیتوں اور کمزور طبقات کو دہشت زدہ کر رہا ہے اور اس کارِ بد میں ملوث شخص جب بھارتی وزیر اعظم بن گیا ہے تو بھارتی ریاستی دہشت گردی چاروں طرف سے اس کی سرحدوں سے باہر آ رہی ہے کیا ہم اسے پوری دنیا پر آشکار کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔؟

ڈاکٹر مجاہد منصوری

بشکریہ روزنامہ جنگ


Post a Comment

0 Comments