All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

’جتنے پیسے اتنا پانی‘

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے علاقے اورنگی کے رہائشیوں کو پہلی بار گھر کے قریب میٹھا پانی دستیاب ہوا ہے، پہلے یہ لوگ ٹینکروں کا کھارا پانی استعمال کرتے تھے۔ بقول ان کے کھارے پانی کے باعث انھیں پیٹ کی تکلیف رہتی تھی اور اب کراچی واٹر بورڈ اس غریب بستی کو مفت ٹینکر فراہم کر رہا ہے۔
لیکن ہر بستی کے رہائشی اتنے خوش نصیب نہیں۔ مچھر کالونی میں ایک گھر کے باہر بھی لوگ ہاتھوں میں برتن اٹھائے اپنی باری کے منتظر ہیں پر یہاں مفت نہیں بلکہ پیسوں سے پانی دستیاب ہے۔

گھر کے مالک نے بتایا کہ وہ تین روپے میں پانچ لیٹر جبکہ پانچ روپے میں آٹھ لٹر پانی فروخت کرتے ہیں شام تک ان کی ڈھائی سے تین سو روپے تک آمدن ہو جاتی ہے۔
مچھر کالونی میں پانی کی لائن موجود ہے لیکن پانی صرف دکانوں پر ہی دستیاب ہے۔ غریب بستی کے لوگوں کی آمدنی پر یہ ایک بڑا بوجھ ہے۔
مسمات زرینہ کچھی نے بتایا وہ سارا دن جھینگے صاف کرتی ہیں تب جاکر سو روپے جڑتے ہیں جبکہ انھیں روزانہ 50 سے 60 روپے میٹھے پانی کے لیے دینے پڑتے ہیں جو پینے اور باورچی خانے میں استعمال ہوتا ہے، باقی فرش دھونے اور واش روم وغیرہ کے لیے زیر زمین کھارے پانی استعمال کرتی ہیں۔

صحت کے عالمی ادارے ڈبلیو ایچ او کے معیار کے مطابق کراچی کی ضرورت 
سو ملین گیلن پانی ہے لیکن دستیاب صرف ساڑہ پانچ سو ملین گیلن ہے، حب ڈیم سے عدم دستیابی کے باعث سو ملین گیلن پانی کم ہوجاتا ہے۔

ایم ڈی واٹر بورڈ ہاشم رضا زیدی کا کہنا ہے کہ نظام بوسیدہ ہونے کی وجہ سے 510 ملین گیلن پانی آتا ہے جس میں 270 ملین گیلن اسٹیل ملز، صنعتیں ، پورٹ قاسم اور ڈی ایچ اے جیسے بڑے کھاتے داروں کے پاس چلا جاتا باقی پانی گھریلو صارفین کو فراہم کیا جاتا ہے۔
کراچی واٹر بورڈ کے مطابق شہر کی تقریباً 30 فیصد آْبادی ٹینکروں کے ذریعے پانی حاصل کرتی ہے، ان علاقوں میں واٹر بورڈ کا نظام ہی دستیاب نہیں۔ شہر میں اس وقت بھی 20 سے زائد ہائیڈرنس موجود ہیں جبکہ قلت اور چوری کی شکایت پر سو سے زائد غیر قانونی ہائیڈرنٹس توڑ دیےگئے تھے۔
شہر کے مغربی علاقوں کے لیے قائم سخی حسن ہائیڈرنٹ سے روزانہ 12 سو سے زائد ٹینکر پانی بھرتے ہیں، جن میں سے صرف ڈھائی سو کے قریب عوام کو مفت سروس فراہم کر رہے ہیں۔

سرکاری ہائیڈرنٹس سے سرکاری نرخ فی روپیہ فی گیلن ہے، لیکن ٹینکر مالک کہتے ہیں کہ جتنی پانی کی مقدار اور فاصلہ زیادہ۔ پیسے بھی اسی حساب سے لیے جاتے ہیں۔

ایک ٹینکر مالک نے بتایا کہ رینجرز نے فی گاڑی بھرائی 70 روپے ہے لیکن وصول سات سو روپے کیے جاتے ہیں۔ فی پھرے پر ان کا خرچہ ڈھائی ہزار روپے آتا ہے اور وہ آگے تین سے ساڑہ تین ہزار روپے میں فروخت کرتے ہیں۔
کراچی واٹر بورڈ کے ایم ڈی ہاشم رضا زیدی تسلیم کرتے ہیں کہ اس کاروبار میں استحصال کا عنصر موجود ہے تاہم ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ واٹر بورڈ کے جو ماتحت ہائیڈرنٹس ہیں وہاں سے منصفانہ تقسیم ہو۔

’اب جس ٹینکرکو دن میں 4 کے بجائے ایک پھیرا مل رہا ہے تو وہ 5 پھیروں کے پیسے لے رہا۔ یہ خالص پرائیوٹ بزنس ہے اس کے باوجود انھوں نے اس بات کی تشہیر کی تھی کہ اگر کسی کو شکایت ہے تو اطلاع دیں لیکن لوگ شکایت نہیں کرتے انھیں معلوم ہے کہ اگر ایسا کیا تو اگلی بار ٹینکر نہیں آئے گا۔
شہر میں پانی کی قلت کے ساتھ منرل اور ٹریٹیٹ واٹر کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے۔ مختلف ناموں اور معیار کے ساتھ یہ پانی 25 روپے سے لے کر 80 روپے تک دستیاب ہے۔جس کی جیب جتنی اجازت دے اس کے پاس اتنا ہی پانی دستیاب ہے

’کراچی میں پانی کے مسائل‘ کتاب کے مصنف اور این ڈی ڈی یونیورسٹی کے استاد پروفیسر نعمان احمد کا کہنا ہے کہ کچھ تو مستند کمپنیاں ہیں جو منظم طریقے سے کاروبار کرتی ہیں اور کہیں پر واٹر بورڈ کی لائن سے پانی چوری کرلیا جاتا ہے یا زمین پانی کو آرو پلانٹس کے ذریعے میٹھا بناکر مارکیٹ میں فراہم کیا جاتا ہے۔

شہر میں اگر گھر کے نلکے میں پانی آ بھی رہا ہے تو کئی گھرانے یہ پانی پینے کے لیے استعمال نہیں کرتے۔ایم ڈی واٹر بورڈ ہاشم رضا اعتراف کرتے ہیں کہ لائن میں سیوریج کا پانی مل جاتا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ شاذو نادر ہی کوئی لائن ہو جہاں سے غیر قانونی کنیکشن نہ لیے گئے ہوں ۔

کراچی میں پانی کی صورتحال سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ پانی کی فراہمی اب ریاست کی ذمہ داری نہیں بلکہ آپ کی جیب کا کمال ہے۔ جس کی جیب جتنی اجازت دے اس کے پاس اتنا ہی پانی دستیاب ہے۔

ریاض سہیل
بشکریہ
بی بی سی اردو 

Post a Comment

0 Comments