All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

نانی قتل ہو گئی...وسعت اللہ خان


بچپن میں جو باتیں مسلسل کان میں پڑتی تھیں ان میں یہ بھی تھی کہ بیٹا اگر کسی انسان کا کردار پرکھنا ہو تو اسے کھانا کھاتے دیکھ لو یا لین دین کر لو یا پھر اس کے ساتھ ایک آدھ سفر کر لو۔ شخصیت کا سارا کھرا کھوٹا بے لوثی و خود غرضی سمیت آئینے جیسا نظر آ جائے گا۔ اور اگر یہ پرکھنا ہو کہ کوئی قوم کس کیفیت سے گزر رہی ہے تو پھر اس کے بچوں کے ساتھ کچھ وقت گزار لو۔ سب اجتماعی کچا چٹھا کُھل جائے گا۔

دو روز پہلے آئی اے رحمان صاحب کی ایک تحریر نگاہ سے گزری۔ مضمون کے آخر میں انھوں نے یہ واقعہ بیان کیا کہ ’’حال ہی میں ڈیفنس کراچی میں جس خاندان کے پاس میں رکا۔ اس خاندان کے ایک چار سالہ بچے نے اپنی نانی کی وفات کی خبر سناتے ہوئے کہا ’’نانی قتل ہو گئی‘‘ ۔ گویا اب ہمارے بچوں کے لیے کسی کی موت کا مطلب قتل ہونا ہی ہے۔ یہ ہے وہ ماحول جس میں پاکستان کی نئی نسل پرورش پا رہی ہے

پچھلے دو برس سے ایک مشغلہ میں نے یہ بھی پال لیا ہے کہ جب بھی کچھ فرصت پاتا ہوں محلے میں پانچ تا دس برس کے بچوں کے درمیان بیٹھ کر ان سے گپ کرتا ہوں اور یوں ان نئی کونپلوں کے دل و دماغ میں جھانکنے کی اپنی سی کوشش کرتا ہوں۔ مجھے اس عمر کے بچوں سے ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔
 ابے ٹھیک طرح سے گیند کروا ورنہ چھید دوں گا سالے‘‘(گلی میں بیٹنگ کرنے والے اس بچے کی عمر بمشکل پانچ برس ہو گی۔ جب کہ باؤلر بھی اتنی ہی عمر کا تھا)۔

 انکل کل یہاں مارکیٹ میں دو لڑکے آئے تھے ڈکیتی کرنے۔ بڑی ڈینجر شکلیں تھیں ان کی۔ ہم سب نے مل کر ایک حرامی کی خوب پھینٹی لگائی۔ ایک رینجر والی وین بھی آئی اور انھوں نے اس لونڈے کو پکڑ کے وین میں ڈال لیا۔۔ دوسرا سالا بھاگ گیا۔۔ سعید انکل نے کہا اگر اس وقت میرے پاس ٹی ٹی ہوتی تو دوسرے کو گرانا (یعنی ہلاک کرنا) کوئی بات ہی نہیں تھی۔۔ سعید انکل بالکل دبنگ اسٹائل ہیں۔۔ میں بھی بڑا ہو کر سعید انکل کی طرح ٹی ٹی رکھوں گا ۔۔۔۔ انکل آج کل بھرم بازی نہ کراؤ نا تو دوسرے محلے کے لونڈے بھی شیر ہو جاتے ہیں۔۔ (مجھے یہ کہانی سنانے والا بچہ بمشکل آٹھ برس کا ہے)۔

نکڑ پر ایک چھوٹی سی مارکیٹ ہے جس میں ایک کھلونے والے کی بھی دکان ہے۔ تمام کھلونے میڈ ان چائنا ہیں۔ غبارے، چھوٹی کاریں، بھالو، پزلز، نشانہ لگانے کے لیے بُلز آئی، کھلونا موبائل فون۔ مگر پانچ سے دس برس کے بچوں کی زیادہ تر دلچسپی ریوالور، بندوق، کلاشنکوف وغیرہ کے پلاسٹک ماڈلز میں ہوتی ہے۔ دکاندار سے پوچھیں کہ بھائی تو ایسے خطرناک کھلونے کیوں بیچتا ہے تو اس کا متوقع جواب یہی ہوتا ہے کہ سر جی آج کل یہ ہاٹ آئٹم ہے۔ بچے اور کچھ خریدتے ہی نہیں۔ کئی دفعہ سوچا بھی کہ یہ آئٹم دکان پر نہ رکھوں۔ پھر سوچتا ہوں کہ میں نہیں رکھوں گا تو بچے منظر مارکیٹ میں جا کر خرید لیں گے (منظر مارکیٹ میرے گھر سے تقریباً ایک کلو میٹر پرے ہے)۔

میرے محلے میں زیادہ تر لوگ یا تو درمیانے درجے کے سرکاری و کارپوریٹ ملازم ہیں یا پھر چھوٹے کاروباری۔ گویا متوسط طبقے کا علاقہ سمجھ لیجیے۔۔ ایک اکاؤنٹنٹ صاحب نے اپنے سات سالہ بچے کو کھلونوں کی دکان سے کلاشنکوف دلاتے ہوئے کہا مجھے ایسے کھلونے پسند نہیں۔ مگر نہیں دلواؤں گا تو اماں سے ضد کر کے پیسے لے لیں گے اور پھر خود خریدیں گے۔ اس بچے کی اماں ایک نجی اسکول میں ٹیچر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حالانکہ کلاس میں بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ وہ خطرناک نظر آنے والے کھلونے نہ خریدا کریں لیکن چونکہ ہر بچہ اسی طرح کے کھلونے خرید رہا ہے اس لیے اگر میں اپنے بچوں کو منع کروں تو انھیں بہت عجیب سا لگے گا۔

اب آئیے میں آپ کی اپنے بچوں سے ملاقات کرواؤں۔

یہ ہیں رافع صاحب جو ایک متوسط پرائیویٹ اسکول کی پہلی کلاس میں پڑھتے ہیں۔ ان کی عمر ہے پونے سات سال۔ پڑھائی میں تیز ہیں۔ دماغ بہت چلتا ہے اسی لیے خاصے جھکی بھی ہیں اور سوالات کی بوچھاڑ کر کے مدِ مقابل کو ٹی بی کروانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ تمام لڑکوں کی طرح ان کا جھکاؤ بھی اپنی والدہ کی طرف ہے۔ رافع صاحب مجھ سے سوائے تعلیمی فرمائشوں کے کوئی فرمائش نہیں کرتے کیونکہ انھیں انکار بھی سننا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے دیگر فرمائشیں وہ اپنی والدہ سے کرتے ہیں۔ رافع کے ہیرو سلمان خان ہیں۔ رافع صاحب کے پاس بہت سے کھلونے ہیں اور ان میں سے تیس فیصد کھلونے بندوقوں اور پستولوں پر مشتمل ہیں۔ دو سال پہلے تک وہ جب بھی ویک اینڈ پر فیملی آؤٹنگ کے لیے باہر جاتے تھے تو اپنا کوئی نہ کوئی پستول یا گن ضرور ساتھ رکھ لیتے تھے۔ تاکہ اگر کوئی موٹرسائیکل سوار لوٹنے کے لیے گاڑی کے قریب آئے تو اسے گولی مار سکیں۔

لیکن پچھلے ایک سال سے رافع میں یہ تبدیلی آئی ہے کہ کھلونا اسلحہ سے ان کی رغبت قدرے کم ہو گئی ہے اور مصوری اور اسکیچنگ میں بڑھ گئی ہے۔ جب سے رافع میاں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں بچوں کے قتلِ عام کی خبریں دیکھی اور سنی ہیں تب سے ان کی مصوری میں سے سپر مین اور اسپائیڈر مین نکل گئے ہیں اور اب وہ اپنی کاپی پر اکثر ایسے مسلح افراد کے خاکے بناتے ہیں جو بچوں کو مار رہے ہیں۔

کئی بار میں نے سوچا بھی کہ رافع کو ایسی تصویریں بنانے سے روکوں پھر یہ سوچ کے خاموش رہا کہ شائد یہ تصویریں ہی وہ روشندان ہیں جن سے وہ اپنا ذہنی غبار بغیر جانے باہر نکال رہا ہے۔

البتہ کبھی کبھی میں رافع سے کہتا ہوں کہ یار کسی وقت درخت، پھول اور پرندوں کی بھی تصویر اور اسکیچز بناؤ۔ وہ میرا کہنا مان کر ایسی تصویر بنا تو دیتا ہے مگر درخت، جھاڑی یا پھولوں کے پیچھے ایک چھپا ہوا کردار ضرور دکھاتا ہے جس کے پاس کوئی نہ کوئی اسلحہ ہوتا ہے۔ اور مجھے مطمئن کرنے کے لیے خود ہی وضاحت بھی کرتا ہے کہ بابا اس آدمی کے پاس گن اس لیے ہے تا کہ گندے بچے کوئی شرارت نہ کریں۔ ( یعنی اس کے ذہن میں ڈنڈے کا تصور بھی گن ہی ہے)۔

ایک اور بات میں نے نوٹ کی کہ رافع اپنی کاپی پر جب بھی پھول بناتا ہے ان کا رنگ سرخ ہی ہوتا ہے۔ مگر وہ یہ نہیں بتا پاتا کہ وہ ہمیشہ سرخ پھول ہی کیوں بناتا ہے۔ زیادہ حجت کی جائے تو کہتا ہے پتہ نہیں بابا ۔۔۔۔

اور یہ ہیں رافع کے چھوٹے بھائی واسع۔ ان کی عمر اس وقت سوا دو برس ہے۔ ابھی بولنا نہیں آتا۔ چار پانچ الفاظ ہی دہراتے رہتے ہیں۔ مگر انھیں ٹی وی پر وہ مناظر زیادہ اچھے لگتے ہیں جن میں فائٹ ہو۔ واسع جب بھی میرے کمرے میں آ کر میرے اوپر چڑھ کے پیروں سے ککیں لگاتا ہے اور منہ سے اوئے اور آ کی آوازیں نکالتا ہے تو مجھے فوراً اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس نے ابھی ابھی ٹی وی پر کیا دیکھا ہے۔ آج کل وہ ایک اور حرکت کرنے لگا ہے۔ اپنے بڑے بھائی کے کھلونوں میں سے ایک پستول اسے جانے کیوں پسند آ گیا ہے۔ صبح صبح وہی پستول ہاتھ میں پکڑ کے آتا ہے اور میری کنپٹی یا منہ پر رکھ کے ٹھش ٹھش کی آوازیں نکال کر مجھے جگاتا ہے۔

واسع تو خیر ابھی بہت ہی چھوٹا ہے مگر پونے سات سال کا رافع ہو یا محلے کے دیگر بچے۔ یہ نا تو اخبار پڑھ سکتے ہیں اور نا ہی ٹی وی پر خبریں دیکھ کر پوری طرح سمجھ سکتے ہیں۔ ان میں سے کسی نے خوش قسمتی سے اب تک اپنی آنکھوں سے کوئی قتل بھی ہوتے نہیں دیکھا۔ مگر ان سب پر اردگرد کی فضا لاشعوری طور پر پوری طرح اثر انداز ہے۔

اگر ان بچوں کا یہ حال ہے تو سوچئے ان بچوں کا کیا نفسیاتی حال اور مستقبل ہو گا جنہوں نے دو برس سے دس برس کی عمر کے درمیان تشدد، ریپ، قتل، قتلِ عام، گھروں کا نذرِ آتش ہونا، جبری نقل مکانی و گمشدگی، بمباری، پولیس تشدد، اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور اندر سمو لیا۔ یہ بچے لاکھوں نہیں کروڑوں میں ہیں۔ ( دو سے دس برس کی عمر یوں کہہ رہا ہوں کہ اسی عمر میں بچوں کی شخصی عمارت کا بنیادی ڈھانچہ بن جاتا ہے۔ باقی زندگی تو محض پلستر اتارنے چڑھانے اور رنگ بدلنے میں گزرتی ہے) میں اعتراف کرتا ہوں کہ رافع اور واسع کو ایک محفوظ ماحول تو کجا ویسا ماحول بھی نہیں فراہم کر سکتا جس کی چھایا تلے میں خود دو سے دس برس کا ہوا۔ مگر میرا اعتراف بھی ان بچوں کے کس کام کا؟

وسعت اللہ خان
بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس

Post a Comment

0 Comments