All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

حکمرانی یا سیاسی خودکشی...

جب نوے کی دہائی میں حکمران تھے تو میاں نواز شریف کی سیاست کا ہدف بے نظیر بھٹو سے حساب برابر کرنا ہوا کرتا تھا۔ مشیروں نے مشورہ دیا تھا کہ وہ سندھ کے ہاریوں میں زمینیں تقسیم کرکے وہاں سے ان کی سیاست کا خاتمہ کر سکتے ہیں ۔چنانچہ ہاریوں میں زمینوں کی تقسیم کا آغاز کر دیا گیا۔ زمینوں کی تقسیم کی ایک تقریب سے میاں صاحب واپس اسلام آباد تشریف لا رہے تھے۔ ان کی ساتھ والی نشست پر سعید مہدی بیٹھے تھے جبکہ پچھلی نشست سلمان فاروقی کے حصے میں آئی تھی ۔ میاں صاحب نے سعید مہدی سے کہا کہ ’’مہدی صاحب کیا خیال ہے آج سندھ کے اندر پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک میں ڈینٹ (Dent) پڑ گیا ہے یا نہیں ۔سعید مہدی نے جواب دیا کہ ہاں جی ۔کسی حد تک تو ڈینٹ پڑ گیا ہے۔ پچھلی سیٹ سے سلمان فاروقی نے سر آگے کر کے فرمایا کہ ’’سر آپ ڈینٹ کی بات کر رہے ہیں ۔ آپ نے تو پیپلز پارٹی کو اڑا کے رکھ دیا ‘‘۔

یہ تبصرہ سنتے ہی میاں صاحب نے سعید مہدی سے کہا کہ مہدی صاحب آپ ذرا پچھلی نشست پر چلے جائیں اور فاروقی صاحب کو ادھر بھیج دیں ۔چنانچہ فوراً نشستوں کا تبادلہ ہوگیا اور برابر والی نشست پر سلمان فاروقی صاحب براجمان ہو گئے ۔ اس کے بعد انہوں نے خوشامد اور تعریفوں کے کیا پل باندھے ہوں گے یہ تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن میاں صاحب کے چہرے کے تاثرات سے عیاں تھا کہ ان کو خوش رکھنے کا خاطر خواہ انتظام ہورہا ہے ۔

اب ایک دوسرا واقعہ ملاحظہ کیجئے۔ یہ بارہ اکتوبر 1999ء کی بغاوت سے چند روز قبل کی بات ہے ۔ جنرل پرویز مشرف اور میاں نواز شریف کے تعلقات شدید کشیدہ ہو گئے تھے لیکن میاں صاحب کے خوشامدی مشیر کڑا کے نکال کر انہیں تسلی دے رہے تھے کہ کوئی ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ میاں نوازشریف کے قریبی دوست حمید اصغر قدوائی جو اس وقت کینیا میں سفیر تھے اور جو جنرل پرویز مشرف کے بھی قریب تھے، سفارتی ذمہ داریاں چھوڑ کر اسلام آباد پہنچے ۔ وزیراعظم سے ملنے آئے تو وہاں سعید مہدی اور طارق فاطمی صاحب پہلے سے موجود تھے۔

 طارق فاطمی صاحب نے وزیراعظم صاحب سے امریکہ میں سفارت کا پروانہ حاصل کرلیا تھا اور اگلے روز وہ امریکہ میں ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے روانہ ہورہے تھے۔ حمید اصغر قدوائی نے میاں نوازشریف سے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ فوج کے ساتھ معاملات نہایت غلط سمت میں جارہے ہیں اور اگر وہ اجازت دیں تو ثالث بن کر وہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کر لیں۔

ابھی میاں صاحب جواب دینے کے لئے ذہن بنا رہے تھے کہ فاطمی صاحب گویا ہوئے ۔ کہنے لگے کہ سر جنرل پرویز مشرف ناراض بھی ہوں تو کیا کر سکتے ہیں ۔ اسمبلی میں دو تہائی مینڈیٹ آپ کو حاصل ہے ۔ پرویز مشرف کو آپ نے احسان کر کے آرمی چیف بنایا ہے لیکن اگر وہ احسان فراموشی کرنا بھی چاہیں تو آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ کیونکہ پوری قوم آپ کے ساتھ ہے ۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد تو آپ قائد اعظم سے بھی زیادہ مقبول بن گئے ہیں۔

ان حالات میں پرویز مشرف آپ کے خلاف اقدام کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔ قدوائی صاحب خواہ مخواہ ڈرا رہے ہیں ۔ قوم کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں ۔ پانچ سال تو کیا‘ میرا تو ایمان ہے کہ آج سے بیس سال بعد بھی آپ اس ملک کے حکمران ہوں گے ۔ فاطمی صاحب کا یہ عالمانہ تبصرہ سنتے ہی میاں صاحب کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ پھیل گئی ۔ فاطمی صاحب کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ فاطمی صاحب آپ امریکہ جاکر بس ان کے ساتھ ہمارے معاملات ٹھیک کرلیں۔

 پھر میں دیکھتا ہوں کہ اگلے بیس سال تک ہمیں کون حکومت سے نکالتا ہے ۔ یہ مکالمہ سن کر حمید اصغر قدوائی مایوس ہو کر کینیا روانہ ہوگئے جبکہ فاطمی صاحب سفیر بن کر امریکہ فتح کرنے کے لئے فاتحانہ انداز میں واشنگٹن چلے گئے ۔لیکن افسوس کہ انہیں واشنگٹن میں امریکی صدر کو اپنے کاغذات پیش کرنے کی مہلت بھی نہ مل سکی اور چند ہی روز بعد میاں نوازشریف‘ پرویز مشرف کے ہاتھوں وزیراعظم ہائوس سے نکل کر اٹک قلعہ جاپہنچے ۔ فاطمی صاحب اس کے بعد کئی سال تک نظر نہیں آئے اور جب میاں نوازشریف واپس تشریف لائے تو وہ بھی نظر آنے لگے ۔

سلمان فاروقی ان کا کیمپ چھوڑ کر اپنی اسی مہارت کی وجہ سے آصف علی زرداری صاحب کے مشیر خاص بن گئے ۔ جو چند دانے ان کے ساتھ کھڑے رہ گئے ‘ ان میں کوئی ایک بھی اس خوشامدی ٹولے میں شامل نہیں تھا۔ سندھ میں غوث علی شاہ ساتھ دے رہے تھے‘ پختونخوا میں سردار مہتاب ‘ اقبال جھگڑا ‘ صدیق الفاروق‘ پیر صابر شاہ ساتھ رہ گئے اور پنجاب میں سعد رفیق ‘ راناثناء اللہ اور پرویز رشید جیسے چند دانوں کے حصے میں وفاداری اور آزمائشیں آئیں ۔ خوشامد کے کڑاکے نکالنے والے زیادہ تر سیاسی ساتھی پرویز مشرف کی صف میں چلے گئے ۔ بدقسمتی سے آج ایک بار پھر میاں نوازشریف صاحب 1999ء کی طرح اس خوشامدی ٹولے میں پھنس گئے ہیں لیکن یہ کسی اور کی نہیں ان کی اپنی غلطی ہے کیوں کہ انہیں خوشامد گر پسند ہیں۔ چند بیوروکریٹس ، چند مشیران خاص اور چند کاروباری شخصیات نے ان کو گھیرے میں لے لیا ہے ۔

صبح و شام اجلاس ہورہے ہیں لیکن ان میں صرف یہی ٹولہ نظر آتا ہے یا پھر کہیں نہ کہیں دو تین متعلقہ بندوں کو نظر اتارنے کے لئے بلایا جاتا ہے ۔ فیصلے کابینہ میں ہورہے ہیں ‘ نہ کابینہ کی کمیٹیوں میں اور نہ پارلیمنٹ میں اور ظاہر ہے کہ ان آئینی فورمز کے علاوہ جہاں بھی فیصلے ہوں ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ۔ ایک رائے تو یہی ہے کہ خود حکمران بھی وقت گزارنا چاہتے ہیں ‘ اس لئے متعلقہ فورمز پر مشاورت اور فیصلوں کی بجائے صرف مخصوص لوگوں کے ساتھ میٹنگز کر کے جعلی طور پر یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ حکومت بہت کچھ کر رہی ہے۔

خوشامدیوں کا یہ ٹولہ وزیراعظم صاحب کو سب اچھا کی رپورٹ دے رہا ہے ۔ انہیں بتایا جارہا ہے کہ فوج بھی قابو میں ہے، طالبان کا بھی جینا حرام کر دیا گیا ہے، تحریک انصاف کا احتجاج بھی دفن ہوگیا ہے ، پیپلز پارٹی بھی مٹھی میں بند ہے ‘ معیشت بھی تیزی سے ترقی کررہی ہے اور امریکہ بھی انہیں آخری سہارا سمجھ رہا ہے لیکن کسی میں ہمت نہیں کہ انہیں بتاسکے کہ صرف حکومت کو نہیں بلکہ پورے نظام کو خطرہ ہے اور خطرہ کہیں اور سے نہیں خود وزیراعظم ہائوس کے اندر سے ہے ۔

 اور آخر میں ایک لطیفہ۔ آج کے اخباروں میں حکومت پاکستان کی طرف سے ایک اشتہار شائع ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’دہشت گردوں سے ہمدردی ۔پاکستان سے غداری ۔ جہاں دیکھیں ۔ اطلاع دیں۔ اپنے اردگرد پر نظر رکھیں کہ کہیں کسی اجتماع، تقریب، عبادت گاہ ‘ مدرسے یا درسگاہ میں دہشت گردی، انتہاپسندی اور فرقہ واریت کے ایجنڈے کو فروغ تو نہیں دیا جا رہا ۔

مثلاً دہشت گردوں کو مجاہدین کہنا‘ دہشت گردوں سے ہمدردی کا اظہار کرنا‘ دہشت گردوں کے لئے دعائیں کرانا‘ نفرت انگیز یا اشتعال انگیز تقاریر کرنا ....ایس ایم ایس اور سوشل میڈیا کے ذریعے اشتعال انگیز ‘ نفرت انگیز اور فرقہ واریت پر مبنی پیغامات کی تشہیر۔‘‘ یہ اشتہار اس حکومت کی طرف سے شائع ہوا ہے جو امریکہ کی طرح آج تک قوم کے سامنے دہشت گرد اور مجاہد کی متعین تعریف نہیں لاسکی ہے ‘ جس کے مشیر کل تک طالبان کی تعریفوں میں ہزاروں صفحات سیاہ کرچکے ہیں اور جو اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمین شپ سیاسی رشوت کے طور پر ایک سیاسی جماعت کو عنایت کر چکی ہے ۔ حیران ہوں کہ سرکار کے پیسے خرچ کرنے کی بجائے اگر آئی ٹی کی وزیرسے اپنے زیرانتظام سوشل میڈیا کی ایک رپورٹ طلب کی جاتی تو وزیراعظم صاحب کو خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ انتہاپسندی اور فرقہ واریت کو کون پھیلا رہا ہے۔

سلیم صافی

"بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ

Post a Comment

0 Comments