All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

پاک فضائیہ ابتدا سے آج تک......


ایئرکموڈور طارق محمود

شاہینوں کی جرات اوردلیری کی ایقان افروز داستان… یوم فضائیہ کے حوالے سے خصوصی تحریر *******

سات ستمبر کو یوم فضائیہ کہا جاتا ہے، یہ 1965ء کے اس دن کی یادگار ہے جب پاکستانی فضائیہ نے بھارتی فضائیہ کے پرخچے اڑا دئیے، ہمارے شاہین پائلیٹوں نے محدود وسائل کے باوجود اپنی بہادری اور دلیری کی حیرت انگیز مثال قائم کی۔ دنیا بھر میں پاکستانی فضائیہ کے اس کردار کو مانا اور تسلیم کیا جاتا ہے۔ کئی ممالک کی فضائیہ کی اکیڈمیوں میں ہمارے پائلٹوں کی پرفارمنس ڈسکس کی جاتی اور اس سے سبق اخذ کئے جاتے ہیں۔ آج اس دن کی یاد منانے کے ساتھ ہم اپنی فضائیہ کی تاریخ پر بھی نظر ڈالتے ہیں، دیکھتے ہیں کہ ابتداکہاں سے ہوئی اور آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔ تقسیم ہند کے وقت جس طرح دوسرے اثاثوں سے پاکستان کو محروم رکھا گیا،اسی طرح ہماری فضائیہ کو بھی اس کے حصّے کی افرادی قوّت اور طیارے نہیں دئیے گئے لیکن اس کے باوجود آج ہماری فضائیہ ہماری فضائوں کی حفاظت کیلئے پوری طرح چوکس ہے۔ اس نے وسائل کی کمی کے مقابلہ اچھّی تربیّت سے کیا ہے۔

آج ہم نہ صرف چھوٹے جہاز خود بنا رہے ہیں بلکہ دوست ملک چین کی مدد سے جے ایف 7 تھنڈر کی پیداوار بھی شروع ہوچکی ہے ۔ذیل میں پاک فضائیہ کی ابتدا سے آج تک کی داستان بیان کی جارہی ہے۔ چودہ اگست 1947ء برصغیر کے مسلمانوں کیلئے بہت اہمیّت کا حامل ہے کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے ان پراپنا خصوصی کرم کیا اورانہیں پاکستان جیسا خوبصورت ملک عطا کیا۔جب پاکستان بن گیا تو اس میں رہنے والے مسلمانوں کیلئے سب سے بڑا چیلنج اس نوزائیدہ مملکت کواپنے پاؤں پر کھڑا کرنا تھا۔ بانی پاکستانؒ بھی ملک کو تعمیر وترقّی کی شاہراہ پر رواں دواں دیکھنا چاہتے تھے۔ ملک کے دفاع کومضبوط اور ناقابل تسخیر بنانا ان کے ایجنڈے میں سرفہرست تھا۔ جب بھی انہیں کچھ وقت ملتا تووہ فوج کی یونٹوں اوردیگر دفاعی تنصیبات کا دورہ کرتے تھے۔

 وہ اپنی گوناں گوں مصروفیات سے کچھ وقت کسی نہ کسی طرح نکال ہی لیتے تھے اور دفاع پاکستان کے حوالے سے تیاریوں کا جائزہ لیتے تھے۔ تقسیم کے وقت دوسرے ملکی اداروں کی طرح دفاع کا بھی بُراحال تھا۔ائیرفورس کا نام اس وقت رائل ائیرفورس آف پاکستان تھا جس کی زبوں حالی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی کل افرادی قوّت 2232 افراد پر مشتمل تھی۔یہ مُٹھی بھر جوان اور افسر آج کی مضبوط پاک فضائیہ کے اصل معمار ہیں جنہوں نے نہ صرف پاک فضائیہ کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا بلکہ آج کے پائلٹس کوجدید ترین ایف سولہ اور جے ایف 17 تھنڈر طیارے اڑانے کیلئے مضبوط بنیاد بھی فراہم کی۔یہی لوگ قوم کے اصلی ہیروز ہیں جنہوں نے سرفراز رفیقی‘یونس‘ ایم ایم عالم‘ علاؤ الدین‘ راشد منہاس اور منیر جیسے بہادر پائلٹس کی کھیپ تیار کی۔ قیام پاکستان کے وقت ہماری فضائیہ کے پاس مختلف اقسام کے صرف 122 جہاز تھے جن میں 32 ڈکوٹاز‘ 35 ٹیمپیئس‘ 29 ہاورڈز‘ 16 ٹائیگرموتھ‘ 3 آسٹرفائیو اور سیون آسر چھ شامل تھے جنہیں کوہاٹ‘ چکلالہ اور رسالپور کے سٹیشن ہیڈ کوارٹرز میں تقسیم کیا گیا تھا۔اس وقت ہماری فضائیہ کے پاس صرف ایک فلائٹ سکواڈرن تھا۔ قائداعظمؒ دوسری جنگ عظیم (1939-45ء) کے دوران فضائیہ کی کارکردگی کا بہت باریک بینی سے مشاہدہ کر چکے تھے اسی لئے 1941ء میں علی گڑھ یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے کہا تھا کہ ’’مستقبل میں جو بھی جنگیں لڑی جائیں گی وہ فضائیہ کے درمیان ہی ہوں گی۔‘‘ ان کے اس خطاب سے قائداعظمؒ کی دوراندیشی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کیونکہ انہیں اندازہ تھا کہ مستقبل کی جنگوں میں فیصلہ کُن کردار فضائیہ ہی ادا کرے گی۔

 آزادی کے کچھ ہی عرصے بعد13 اپریل 1948ء کو قائداعظمؒ نے ائیرفورس ٹریننگ اکیڈمی رسالپور کا دورہ کیا تھا اوراس موقع پر کیڈٹس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا ’’ جس ملک کی فضائیہ مضبوط نہیں ہوتی وہ جارح قوتوں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ پاکستان کو اپنی فضائیہ کو جتنی جلدی ممکن ہوترقّی دینا ہوگی۔ یہ مستعد فضائیہ ہوگی جو کسی سے بھی کم تر نہیں ہوگی۔‘‘ بابائے قومؒ کا یہ خطاب پاک فضائیہ کی ترقّی کیلئے ملک کے غیر متزلزل عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ پاک فضائیہ کے جو بھی سربراہان آئے،انہوں نے بانی پاکستان کے ان الفاظ کو فضائیہ کی ترقّی اور اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے روشنی کے مینار کے طور پر استعمال کیا۔ پاک فضائیہ کی ہر دور کی قیادت کا یہ پختہ ایمان رہا ہے کہ ہم وسائل کی کمی کا مقابلہ اچھّی ٹریننگ سے کرسکتے ہیں۔ ہماری فضائیہ کی تاریخ میں 23 مئی 1956ء خاص اہمیّت کا حامل ہے کہ اس روز رائل پاکستان ائیرفورس کا نام بدل کر پاکستان ائیرفورس رکھا گیا تھا جس سے نہ صرف ائیرفورس کے جوانوں اور افسروں بلکہ پوری قوم کوخود اعتمادی حاصل ہوئی۔ اب پاک فضائیہ کے سامنے سب سے بڑا چیلنج اپنے بیڑے میں عمر پوری کرچکنے والے جہازوں کی جگہ نئے اورجدید طیاروں کی شمولیت کا تھا۔وسائل کی کمی کی وجہ سے پاک فضائیہ کے سامنے اور کوئی راستہ نہیں تھااس لئے 1957ء کے اوائل میں امریکہ سے 100 ایف 86 سیبر ائیرکرافٹ حاصل کئے گئے۔ 23 مارچ 1957ء کو ہمارے پائلٹس نے 64 درآمد شدہ طیاروں کا شاندار ائیرشو پیش کیا جونہ صرف ہمارے پائلٹس کی مہارت کا آئینہ دار تھا بلکہ پاک فضائیہ کے انجینئرزاور ماہرین کی ہُنرمندی کا بھی عکاس تھا۔یہ سال پاک فضائیہ کی تاریخ میں ایک اور حوالے سے بھی سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ جولائی 1957ء میں ائیرمارشل نورخان نے پاک فضائیہ کے پہلے سربراہ کے طور پراپنی ذمّہ داریاں سنبھالی تھیں۔

انہوں نے پی اے ایف کو جدید خطوط پر استوار کیا جس کا عملی مظاہرہ 1965ء میں پاک بھارت جنگ میں سامنے آیا جب ہماری فضائیہ نے اپنے سے کئی گنا بڑی فضائیہ کے یخئے ادھیڑ کر رکھ دئیے۔ اس وقت پاک فضائیہ کے پاس 148 ائیرکرافٹ تھے جبکہ اس کے مقابلے میں بھارت کے پاس 532 فائٹر جیٹ تھے۔پاک فضائیہ کے 22 بمباروں نے 167 کامیاب حملے کئے جبکہ بھارت کے 60 فائٹر جیٹ صرف 92 پروازیں ہی کرسکے۔اس طرح پاک فضائیہ کے شاہینوں نے فضائیہ کی تاریخ میں نئے ابواب کا اضافہ کیا۔ پی اے ایف فائٹرز کی اس شاندار کارکردگی کو دیکھتے ہوئے امریکہ نے نہ صرف دونوں ممالک پرپابندیاں لگادیں بلکہ اسلحے اور ہتھیارو ں کی فراہمی پر بھی پابندی عائد کر دی جس کے نتیجے میں بھارتی فضائیہ کو تو کوئی نقصان نہیں ہواکیونکہ وہ تو پہلے ہی امریکہ کی بجائے سوویت یونین پر زیادہ انحصار کر رہا تھا البتہ پاکستان کی فضائیہ کیلئے یہ پابندیاں بہت مُہلک ثابت ہوئیں لیکن ہماری قیادت کی بصیرت کے باعث یہ پابندیاں ہمارے لئے رحمت بن گئیں کیونکہ مُلکی دفاعی تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے نئی راہیں دریافت کر لی گئیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کے سب سے قابل اعتماد اور سدا بہار دوست چین کا کردار سب سے نمایاں ہے جس نے ہمیں ایف 6‘ اے 5 اور ایف 7 پی طیاروں کی خریداری کی اجازت دی۔ اس ڈیل سے نہ صرف ملکی دفاع مضبوط ہوا بلکہ خود انحصاری کی راہ پر بھی ہمیں گامزن کر دیاجس کے بعد ہم نے ترقی کرتے ہوئے چین کی مدد سے کامرہ میں ایروناٹیکل کمپلیکس کی تعمیر کی۔شروع شروع میں وہاں پی اے ایف کے طیاروں کی اوورہالنگ کی جاتی تھی لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس نے دوست ممالک سے بھی طیاروں کی مرمّت اور اوورہالنگ کے آرڈر لیناشروع کر دئیے جس سے نہ صرف بھاری زرمبادلہ کی بچت ہوئی بلکہ بھاری زرمبادلہ ملک میں آیا۔اگلے مرحلے میں اس ادارے نے جنگجوبیڑے کی اب گریڈیشن بھی شروع کر دی۔

 ساتھ ساتھ تربیتی طیاروں مشاق ‘ سُپر مشاق اورقراقرم 8 کی تیاری بھی شروع کر دی۔یہ تربیتی طیار ے نہ صرف پاک فضائیہ کی ضرورت پوری کررہے ہیں بلکہ دوست ممالک کو برآمد بھی کئے جا رہے ہیں۔ 1980ء میں بدلے ہوئے عالمی منظرنامے اورافغان جہاد کے لئے امریکہ کو پاکستان کی ضرورت تھی اس لئے اس نے پاکستان پر عائد پابندیاں اُٹھالیں اور پاکستان کو یہ موقع فراہم کیاکہ وہ اپنے فضائی بیڑے میں جدید ترین ایف سولہ طیارے شامل کرلے جن میں کچھ ایف سولہ طیارے توفوری طور پر پاکستان کے حوالے کر دئیے گئے جبکہ باقی کے بارے میں بہانہ تراشا گیا کہ پاکستان چونکہ اپنا ایٹم بم بنا رہا ہے اس لئے ہم اسے ایف سولہ طیارے نہیں دے سکتے۔

اگرچہ ان طیاروں کی قیمت بھی ادا کر دی گئی تھی۔1988ء میں پاکستان نے اپنے دفاع کو مزید مضبوط بنانے کیلئے ایف 7 پی طیارے درآمد کئے۔ 1977ء میں پاکستان ائیرفورس کی قیادت نے پرانے طیاروں کی جگہ ایف 7 پی جی کو بیڑے میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔اس طرح 27 مارچ 2002ء کو نئے طیاروںنے 36 سالہ پرانے ایف 6 طیاروں کی جگہ لی۔ 1992ء میں چین نے پاکستان کو ہلکے طیاروں کی تیاری میں شامل ہونے کی دعوت دی تو پی اے ایف پہلے ہی ایسی ٹیکنالوجی کی تلاش میں تھا اس لئے یہ دعوت قبول کرلی گئی اور1995ء میں دونوں ممالک کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پردستخط کردیئے گئے۔اس منصوبے کے تحت سُپر7 طیارے تیار ہونا تھے لیکن بعد میں ان طیاروں کا نام بدل کر جے ایف 17 تھنڈر رکھ دیا گیا۔ 1999ء میں حتمی معاہدے پر دستخط ہوئے اور 2002ء میں باقاعدہ پیداوار شروع ہوگئی ۔ستمبر 2002ء میں طیارے کا پہلا ڈیزائن تیار کیا گیا اور 2003ء میں پہلی بار یہ طیارہ جانگ دو ائیربیس چین کی فضا میں بلند ہوا جس کے چوتھے نمونے نے ہتھیاروں سے مسلّح ہو کردس مئی 2006ء کو کامیاب پرواز کی۔ یہ طیارہ مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد 23 مارچ 2007ء کو پہلی بار پاکستان کی فضاؤں میں بلند ہوا۔

جے ایف تھنڈر ہر قسم کے ہتھیار اور میزائل لے جا سکتا ہے اوراس کی پاکستان ایرونا ناٹیکل کمپلیکس کامرہ میں پیداوار شروع ہو چکی ہے۔یہ طیارہ پاک فضائیہ کے عمر پوری کرچکنے والے اے 5‘ ایف 7 اور میراج طیاروں کی جگہ لے گا۔ یہ طیارہ دن اور رات میں یکساں مہارت کے ساتھ اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ پاک فضائیہ ملکی سلامتی کو درپیش چیلنجز سے بے خبر نہیں،ہمارے شاہین ہر قسم کے خطرے کا جواب دینے اور ملکی سرحدوں کا دفاع کرنے کے لئے تیار ہیں۔ یوم فضائیہ ہمیں ایک بار پھر یہ یاد دلاتا ہے کہ ملک وقوم کے سپوتوں نے کس طرح جرات کے ساتھ جنگ پینسٹھ میں دفاع کیا اور جب بھی مشکل وقت آیا، یہ ایمان افروز داستان دہرائی جائے گی، انشااللہ۔ ٭

Post a Comment

0 Comments