All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

علاقائی ثقافتیں اور عورتوں کا قتل.........


کیسے کیسے گھبرو‘ غیرت مند پنجابی اور اپنی بڑائی کی داستانیں بیان کرنے والے زندہ دلان لاہور اس دن ہائی کورٹ میں موجود تھے جب ایک بچی اینٹوں اور پتھروں کی زد میں تھی۔ وہ تڑپتی سسکتی رہی لیکن کسی جاٹ‘ راجپوت‘آرائیں‘ کشمیری‘سید‘ گجر اور دیگر پنجابی غیرت مند اقوام کے فرد میں ہمت نہ ہوئی کہ اس کی جان بچاتااور کیونکر بچاتا۔ کہ یہ رویہ تو ان کے اپنے رگ و پے میں تین ہزار سال سے ایک روایت کے طور پر دوڑ رہا ہے کہ عورت ان کی ذاتی جاگیر ہے۔

جاٹ کی لڑکی‘ راجپوت کی بیٹی یا گجر کی بہن کسی دوسرے خاندان میں اپنی مرضی سے شادی کر کے تو دکھائے۔ جو عورت ہماری ناک کٹوائے گی ہم اسے دنیا میں رہنے نہیں دیں گے۔ یہ عورتیں ہماری روایات کو نہیں جانتیں‘ ہمارے آبائو اجداد کا انھیں علم نہیں۔ ہم تو وہ لوگ ہیں کہ جب جنگ کرنے نکلتے تو قلعوں میں عورتوں کو بند کر کے آگ لگا دیتے تھے تاکہ شکست کی صورت میں یہ دشمن کے ہاتھ نہ آ جائیں۔ ہم تو نسل در نسل ایک خون اور ایک ہی برادری میں رشتے کرتے تھے کہ کہیں ہماری رگوں میں کسی ادنیٰ خون کی آمیزش نہ ہو جائے۔

یہ سب صرف پنجاب یا پنجابیوں تک محدود نہیں۔ بلوچستان میں جب کسی عورت کو سیاہ کار کیا جاتا ہے تو پورے کا پورا قبیلہ اسے بلوچی رسم و رواج کا نام دیتا ہے۔ ہر قبیلے کا ہزاروں سال سے عورتوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک اور رویہ ہے جو چلا آ رہا ہے۔مری قبائل کے لوگ اپنی عورتوں کو گوشت نہیں کھلاتے کہ وہ کہتے ہیں کہ جو خود گوشت ہے اسے گوشت کیا کھلانا۔ سیاہ کاری میں جب لڑکی کو قتل کیا جاتا ہے تو پھر پورے قبیلے پر یہ فرض عاید ہو جاتا ہے کہ اس لڑکے کو بھی قتل کریں۔

اگر سیاہ کار عورت بھاگ کر سردار کے ہاں پناہ لے لیتی ہے تو پھر اس کی جان تو بچ جاتی ہے لیکن اس کو سندھ کے علاقے میں بیچ دیا جاتا ہے اور اس کی فروخت سے ہونے والی آمدنی میں آدھی رقم سردار کا حصہ ہوتی ہے اور آدھی گھر والوں کا۔ یہ سب بلوچ غیرت اور بلوچ رسم و رواج کے نام پر ہو رہا ہوتا ہے۔ پشتونوں میں بھی سیاہ کاری کے ویسے ہی قانون کئی ہزار سال سے نافذ العمل ہیں‘ ان کے ہاں تو صلح کی صورت میں عورتیں بدلے میں دینے کا رواج آج تک چلا آ رہا ہے۔ ’’سوارا‘‘ کی رسم اسی کا ایک روپ ہے۔

غیرت مند سندھی بھی جو کئی ہزار سال سے اجرک‘ سندھی ٹوپی‘ ملاکھڑا‘ الغوزہ اور رقص کو اپنی ثقافت کا حصہ سمجھتے ہیں وہ کارو کاری کو بھی ویسے ہی ثقافت کا جزو لاینفک قرار دیتے ہیں۔ ان کے سامنے بھی اگر کسی عورت کو اس جرم میں قتل کیا جا رہا ہو تو کوئی سومرو‘ گبول‘ پلیجو‘ زرداری‘ ابڑو یا بھٹو اسے بچانے کے لیے نہیں آتا۔ کسی کو ایک مظلوم کی جان بچانے کے لیے غیرت و حمیت کی داستانیں یاد نہیں آتیں۔

وہ بلوچ جو حرّیت کے گیت گاتے ہیں‘ اپنی بہادری کے قصوں پر نازاں ہوتے ہیں ان میں سے بھی کسی مری‘ بگٹی‘ مینگل‘ بادینی‘ جمالدینی‘ رئیسانی‘ پرکانی یا لہڑی کو آپ بہادری کا طعنہ دے کر دکھائیں اور انھیں اس مظلوم عورت کے پیچھے پورا قبیلہ پڑا ہوا ہے اور وہ جان بچانے کو بھاگ رہی ہے‘ دربدر ہو رہی ہے‘ تمہیں تمہاری شجاعت کا واسطہ اس کی جان بچائو تو کوئی آگے نہیں بڑھے گا بلکہ کتنے آرام سے کہہ دے گا کہ یہ ان کے قبیلے کی رسم ہے۔ عورت ان کی ہے میں کیا کروں اور پھر کہے گا کہ اگر میرے قبیلے میں بھی کوئی ایسی عورت ہوتی تو میں بھی اس کے ساتھ یہی سلوک کرتا۔ میں نہیں چاہتا کہ لوگ میرے بعد آنے والی میری نسلوں کو یہ طعنہ دیں کہ تمہارا باپ یا دادا بے غیرت تھا۔ بلوچستان میں ایک بڑے سردار کی بیٹی پر یہ الزام لگا تھا، پڑھا لکھا آدمی تھا، اس نے بیوی کو قتل کرنے سے انکار کر دیا ۔

آج تک اپنے قبیلے میں وہ اور اس کی اولاد واپس نہ آ سکی۔ یہی حال پشتون معاشرے کا ہے وہاں تو ایسی باتوں کا بھی عورت پر الزام لگا کر قتل کر دیا جاتا رہا ہے کہ وہ بے چاری بکریاں چرانے گئی‘ راستے میں سوکھی گھاس پر سستانے کو لیٹ گئی‘ کپڑوں میں گھاس کے تنکے دیکھ کر خاوند نے قتل کر دیا۔ یہ واقعہ صدیوں پرانا نہیں بلکہ چند سال پہلے میری وہاں نوکری کا قصہ ہے۔ ایسے کتنے واقعات روز ہوتے ہیں لیکن کوئی یوسفزئی‘ کاکڑ‘ خلجی‘ غوری‘ اچکزئی اپنی بہادری کے جوہر دکھانے کے لیے اپنے قبیلے کے لوگ لے کر ان عورتوں کی داد رسی کے لیے باہر نہیں آیا۔ سب اسے ایک ثقافتی مجبوری سمجھتے ہیں۔ بڑے سے بڑا پڑھا لکھا پنجابی‘ سندھی‘ بلوچ اور پٹھان اپنی اس نسلی ثقافت کا اسیر ہے۔

لیکن میرا المیہ یہ ہے کہ جب بھی ان ’’عظیم‘‘ ثقافتوں کی بھینٹ کوئی عورت چڑھتی ہے تو میرے ملک کے اکثر ’’عظیم‘‘ دانشور اس کی سزا مسلمانوں کو گالی دینے سے دیتے ہیں۔ انھیں فوراً مسلم امہ یاد آ جاتی ہے انھیں اسلام کے نام پر بنا ہوا ایک ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ستانے لگتا ہے۔ کوئی ان لوگوں کی جانب انگلی نہیں اٹھاتا کہ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم تین ہزار سال سے سندھی‘ بلوچ‘ پشتون اور پنجابی ہیں‘ چند سو سالوں سے مسلمان ہیں اور تقریباً 70 سال سے پاکستانی۔ میرے آقا سید الانبیاﷺ نے جب عرب کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تھی تو عرب کے بدّو بھی یہی کہتے تھے کہ ہم ہزاروں سال سے عرب ہیں ‘تم یہ نئی باتیں کہاں سے لے کر آئے ہو۔

ہم اپنی ثقافت تہذیب روایات کو کیسے چھوڑ دیں۔ کوئی کالم نگار‘ تجزیہ نگار یا اینکر پرسن آج تک یہ سوال اٹھانے کی جرات نہیں کرسکا کہ تم جن ثقافتوں پر ناز کرتے ہو ان میں بھنگڑا ساگ اور ہیر کے ساتھ غیرت کے نام پر قتل بھی تو اس کا حصہ ہے۔ اجرک ٹوپی اور دھمال کے ساتھ کاروکاری‘ لیوا‘ نڑسر اور بلوچی پگڑی کے ساتھ سیاہ کاری اور اتنڑ رباب اور ٹپوں کے ساتھ ’’سوارا ‘‘بھی تمہاری تین ہزار سالہ ثقافتوں میں رچی ہوئی لعنتوں میں سے ایک ہیں۔ کوئی ان قوم پرست رہنمائوں کا گریبان تھام کر سوال نہیں کرتا۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ تم کیسے غیرت مند پنجابی‘ پٹھان‘ بلوچ اور پشتون ہو جو مجبور اور کمزور عورتوں کو قتل کرتے پھرتے ہو۔

ہر ایک کو مسلمان مولوی‘ اسلام اور نظریہ پاکستان یاد آ جاتا ہے۔ اس لیے کہ ان سب کے دماغوں میں صرف ایک مقصد چھپا بیٹھا ہے کہ وہ کس طرح اسلام اور رسولؐ اللہ کے فرمودات کو نشانہ بنائیں ۔لیکن ایسا کرنے کی جرات نہیں کر پاتے ۔اسی لیے جب بھی کوئی مجبور عورت جو ثقافت کے نام پر قتل کی جاتی ہے تو اس جرم کی غلاظت کو مسلمانوں‘ مولویوں اور نظریہ پاکستان کے کھاتے میں ڈال کر اسلام اور مسلمان کو بدنام کرنے کا ’’خوشگوار‘‘ فریضہ انجام دیتے ہیں اور پھر اس پر پھولے نہیں سماتے۔ وہ اسلام جو بے گناہ عورت کو قتل کرنے کے بارے میں قرآن کی ’’سورۃ التکویر‘‘ میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی ناراضگی اور غصے کو کس شدت سے بیان کرتا ہے۔

اس سورہ کا بہائو ایک خاص کیفیت میں اس غصے اور ناراضگی کی طرف لے جاتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے‘ ’’جب سورج لپیٹ دیا جائے گا‘ جب ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گر پڑیں گے‘ جب پہاڑوں کو چلایا جائے گا‘ جب دس مہینے کی حاملہ اونٹیوں کو بھی بے کار چھوڑ دیا جائے گا‘ جب وحشی جانور اکٹھے کر دیے جائیں گے اور جب لوگوں کے جوڑے بنا دیے جائیں گے‘ ‘۔قیامت کی یہ کیفیت بتانے کے بعد اللہ اس منظر نامے میں یہ سوال اٹھاتا ہے۔ ’’جس بچی کو زندہ گاڑھا گیا اسے پوچھا جائے گا کہ تمہیں کس جرم میں قتل کیا گیا ‘‘یعنی اللہ اس وقت قاتل کے چہرے کی طرف دیکھنا تک گوارا نہیں کرے گا۔

یہ وہ دن ہو گا جب نہ پنجابی غیرت کام آئے گی اور نہ پشتون حمیت۔ نہ بلوچی شجاعت اور نہ ہی سندھی تہذیب۔ اس دن صرف میرے رب کا فیصلہ ہو گا لیکن میرے ملک کے عظیم دانشور جو ساٹھ سال سے اس ملک کے لوگوں کو پنجابی‘ پشتون‘ بلوچ اور سندھی بنانے میں مصروف عمل ہیں وہ انھیں مسلمان کیسے بنا سکتے ہیں۔ انھیں اپنی ثقافتوں پر فخر اور غرور سکھائو گے تو ایسے ہی ہائی کورٹ کے دروازوں پر بچیاں قتل ہوتی رہیں گی۔

Enhanced by Zemanta

Post a Comment

0 Comments