All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

سوئس بینکوں سے 200 ارب ڈالر کی واپسی


حکومت نے قومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور سرمایہ داروں کے سوئس بینکوں میں غیر قانونی طور پر جمع200 ارب ڈالر واپس لانے کے لیے اقدام کر رہے ہیں، رقوم جمع کرانے والوں کے نام اور اکائونٹ کی تفصیلات حاصل کرنے کے لیے سوئٹزرلینڈ اور پاکستان کے درمیان ٹیکس معاہدے میں ترامیم کے لیے 26 اگست کو مذاکرات ہوں گے۔

حکومت کا یہ اعلان بلاشبہ خوش آئند ہے اور اس سمت میں سوئس حکام سے رابطہ، معاہدہ کے حوالے سے پیش قدمی خلوص نیت اور ملکی معیشت کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ٹھوس قانونی طریقوں سے ہوئی تو امید کی جا سکتی ہے کہ لوٹی ہوئی رقوم کا یہ شرمناک ڈرامہ اپنے منطقی انجام تک جلد پہنچ سکتا ہے چونکہ جو معاشی نظام ایک برادر عرب ملک کے دیئے ہوئے ڈیڑھ ارب ڈالر کے ‘‘تحفہ‘‘ پر خوشی سے جھوم اٹھتا ہو اسے اگر 200 ارب ڈالر کی لوٹی ہوئی رقم چھپر پھاڑ کر مل جائے تو کئی بیمار ادارے اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکتے ہیں۔ تاہم سوئس بینکوں میں پاکستانی سیاست دانوں، سرمایہ داروں اور بیوروکریٹس کی مشہور زمانہ کرپشن یا کمیشن سے حاصل شدہ رقوم کے معاملات کی گونج ملکی و غیر ملکی میڈیا میں کئی برسوں سے جاری ہے۔

جمعے کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران ڈاکٹر عارف علوی کے سوال پر پارلیمانی سیکریٹری خزانہ رانا افضل خان نے بتایا کہ وفاقی حکومت غیرقانونی اثاثوں کی واپسی کے حوالے سے نئے سوئس قوانین ’’غیر قانونی اثاثوں کو واپس لانے کا ایکٹ 2010ء ‘‘ کی مدد لینے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کر رہی ہے، یہ قانون اب سوئس حکومت کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ سوئس بینکنگ انڈسٹری میں جمع کردہ ناجائز طور پر حاصل کردہ رقم کے بارے میں خفیہ معلومات کا تبادلہ کر سکتی ہے، اس حوالے سے وفاقی کابینہ بھی 20 ستمبر 2013ء کو سوئس بینکوں سے رقوم واپس لانے کے لیے ٹیکس معاہدے کی منظوری دے چکی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ26 اور 28 اگست کے دوران پاکستان کا وفد سوئٹزرلینڈ جائے گا اور ٹیکس معاہدے میں ترامیم پر بات چیت کرے گا، ٹیکس معاہدے میں ترامیم کے بعد سوئس حکومت اکاؤنٹ ہولڈر کے نام اور رقوم کی معلومات دینے کی پابند ہو گی۔ انھوں نے بتایا کہ دنیا کے مختلف ممالک کے 32 ہزار ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہیں، ان بینکوں میں پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر موجود ہیں۔ زہرہ ودود فاطمی کے سوال پر پارلیمانی سیکریٹری نے بتایا کہ ہم ٹیکس کلچر کوا یک دم تبدیل نہیں کر سکتے، مرحلہ وار کام جاری ہے، ٹیکس چوروںکی نشاندہی جو غیر ملکی سفر پر لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں مگر ٹیکس نہیں دیتے، ہم نے ہوم ورک مکمل کر لیا نتائج آنے میں وقت لگے گا۔

قوم ایک عرصہ تک سرے محل کی داستانوں میں گم رہی، گزشتہ ادوار میں آمرانہ اور جمہوری حکومتوں پر کرپشن کی سرپرستی اور بد انتظامی کے الزامات لگے، ایک طرف عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لیے جاتے رہے، دوسری طرف سوئس بینکوں میںجمع شدہ رقم کی بازیابی کے ہمہ جہتی دعوئوں سے آسمان سر پر اٹھا لیا گیا مگر رقوم واپس نہیں آئیں، اب جب کہ حکومت اس محاذ میں ممکنہ پیشرفت کا عندیہ دے رہی ہے تو کچھ نہ کچھ ہو کر رہنا چاہیے ورنہ عوام یہی سمجھیں گے کہ ان کے دکھوں کا مداوا سوئس بینکوں میں رکھی ہوئی رقوم سے نہیں ہو گا۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سوئس بینکوں میں لوٹی ہوئی رقوم پاکستان کے اقتصادی نظام میں مضمر کرپشن، بد دیانتی، لوٹ کھسوٹ اور کاروباری اور تجارتی معاملات میں اعلیٰ سطح پر ہونے والی ’’ڈیل‘‘ کا شاخسانہ ہے جس نے ملکی اقتصادی نظام کے استحکام اور انتظامی و ریاستی اداروں میں موثر چیک اینڈ بیلنس اور مالیاتی شفافیت کے سارے خواب بکھیر کر رکھ دیئے۔ لوٹ کھسوٹ بذات خود ایک کلچر بن گیا۔ اس لیے اگر حکومتی اقدامات سے سوئس بینکوں میں پاکستان سے لوٹی ہوئی اس دولت کا ارتکاز اپنے دی اینڈ تک پہنچتا ہے تو اس سے بڑی کامیابی اور کیا ہو سکتی ہے۔ کیونکہ ملکی معیشت خود انحصاری کی طرف مائل بہ سفر ہو گی تو عوام کو آسودگی نصیب ہو گی، جب کہ ہمارے معاشرتی، اخلاقی اور سماجی انحطاط اور کاروباری دیوالیہ پن کی کوئی انتہا نہیں رہی۔

جن سیاست دانوں، سرمایہ داروں اور بیوروکریٹس نے اتنی دولت وہاں کے بینکوں میں چھپا کر رکھی ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ قومی وقار، مروت، حیا، قوم پرستانہ جذبات اور ملکی ترقی و عوامی خوشحالی کے اہداف سے ان طبقات کا کوئی تعلق نہیں، یہ اہل زر اسیر حرص ہیں۔ یاد رہے سپریم کورٹ کی ہدایت پر سوئس حکومت کو خط نہ لکھنے کی پاداش میں سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اپنی وزارت عظمیٰ گنوا چکے ہیں۔ حکومتی عہدوں پر فائز افراد سمیت بااثر خاندانوں اور کالے دھن کی انڈر گرائونڈ معیشت کے بڑے کھلاڑیوں کی سوئٹزرلینڈ کی آف شور بینک برانچوںمیں اندازاً 50 سے 200 ارب ڈالر کی واپسی کے لیے جو بھی ہو سکتا ہے حکمرانوں کو کسی مصلحت کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔ تاہم کئی اقتدار یافتہ اور با اثر شخصیات کے ضمیر کے لیے یہ ’’دست ِتہہ سنگ‘‘ والی آزمائشی گھڑی بھی ثابت ہو گی۔

کئی معتبر سیاسی نام اس قصے کی زینت بنے ہوئے ہیں لیکن قومی خوشحالی اور عوام کی تقدیر بدلنے کے دعویدار سیاست دانوں کو سوئس بینکوں سے لوٹی ہوئی رقوم کی بازیابی کے لیے واضح قانونی راستے اختیار کرنا ہوں گے۔ یکم اکتوبر 2010 ء کو سوئس پارلیمنٹ نے تاریخی Return of Illicit Assets Act کی منظوری دی جس کے تحت پاکستان سمیت ترقی پزیر ملکوں کو سوئس بینکوں کے خفیہ اکائونٹس تک قانون و آئینی رسائی اور ایف بی آر حکام و دفتر خارجہ کے اقدامات کے ذریعے ڈبل ٹیکسیشن گریز کے معاہدہ کی روشنی میں بھی کامیابی کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔

سوئس آئین کے آرٹیکل 25 (1) کے تحت خفیہ اکائونٹ کی اطلاعات، اکائونٹ ہولڈرز کے نام و دستاویزات کے حصول اور ان کے سرکاری طور پر افشاکی راہ میں کوئی قانونی رکاوٹ بھی نہیں ہو گی، بھارت سوئس حکام سے اس نوعیت کا نہ صرف معاہدہ کر چکا ہے بلکہ بھارتی حکومت انڈین بیوروکریٹس، صنعتکاروں، سیاست دانوں اور سیٹھوں کے تقریباً 1.4 ٹریلین ڈالرکالے دھن کی واپسی کی کوششیں کر رہی ہے۔ راجیہ سبھا کے رکن آر جے ملانی نے سپریم کورٹ کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت سوئس بینکوں کے کالے دھن والوں کو کسی قسم کی چھوٹ نہیں دے سکتی۔ دوسری طرف منی لانڈرنگ کیسز کے خلاف برطانیہ اور امریکا سمیت تمام یورپی ممالک حساسیت کی حد تک چوکنے ہیں اور ایسی کسی مشکوک رقم کی ٹرانزیکشن آسان نہیں۔

گزشتہ سال تحقیقاتی جرنلسٹس عالمی کنسورشیم نے 10 ہزار ایسی کمپنیوں اور ٹرسٹوں کے خفیہ و مشکوک اکائونٹس کی تفصیل جاری کی تھی جو سنگاپور اور کیر یبین جزائر کے سیف ہیونز میں چھپا کر رکھے گئے۔ ایک پاکستانی ماہر قانون کا کہنا ہے کہ سوئس بینکوں میں رکھی ہوئی تمام دولت غیر قانونی یا کالے دھن پر مشتمل نہیں ہو سکتی، قانونی رقوم بھی ہو سکتی ہیں مگر مجرمانہ طریقے سے حاصل شدہ رقوم کی متعلقہ حکومتوں کو واپسی ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنے وعدے کا پاس رکھے اور سوئس بینکوں سے پاکستانی خزانے سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے میں جرات مندانہ پیش قدمی کا مظاہرہ کرے، عوام اس کا ساتھ دیں گے۔

Enhanced by Zemanta

Post a Comment

0 Comments