All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

پاکستان میں صوبائیت کازہر کیوں پھیلا؟


                     

پاکستان ایک وحدت ہے اور اس وحدت میں صوبوں کی حیثیت کثرت اور تنوع کی ہے۔ جس طرح زندگی کا اصول وحدت ہے، اسی طرح کثرت اور تنوع بھی زندگی کی حقیقت ہے۔ قرآن مجید نے صاف کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو قبیلوں میں پیدا کیا لیکن اس کی وجہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ امتیاز سے قبیلوں کی شناخت اور تشخص متعین ہوتا ہے اور وہ فرق سے ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں۔ لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے تنوع کو تضاد بنادیا ہے، چنانچہ ہماری قوت کمزوری میں ڈھل گئی ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اہلِ ایمان کو ہدایت کی ہے کہ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ قبیلوں کا امتیاز شناخت کے لیے ہے۔ تعصب اور جھگڑے کے لیے نہیں۔ اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو عصبیت پر مرا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ لیکن وطن عزیز میں صوبائیت ہر طرف بنکارتی پھر رہی ہے۔ اس کا ایک ثبوت گزشتہ انتخابات کے نتائج ہیں۔

ان نتائج کا لب لباب یہ ہے کہ پنجاب میں میاں نوازشریف اور سندھ میں پیپلزپارٹی کو غلبہ حاصل ہوا۔ کراچی میں ایم کیو ایم اور خیبر پختون خوا میں عمران خان کو کامیابی ملی۔ عمران خان اگرچہ صوبائیت سے دور کھڑے ہیں مگر انہیں ان کے مخصوص پس منظر کے بغیر خیبر پختون خوا میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔ بلاشبہ گزشتہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی اور کراچی میں دھاندلی کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے، لیکن کراچی کو نظرانداز کر بھی دیا جائے تو ملک میں لوگوں کی اکثریت نے کسی نہ کسی طرح کے صوبائی تعصب کے تحت ووٹ ڈالے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ صوبائیت کیا ہے اور اس کا زہر پاکستان میں کیوں پھیلا؟

صوبائیت ایک عصبیت ہے اور اس کا مطلب امت، ملّت یا قوم کے سمندر میں کنواں کھودنا ہے۔ صوبائیت تین حوالوں سے اپنا تشخص متعین کرتی ہے۔ ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو صوبائیت مخصوص جغرافیے پر اصرار کا دوسرا نام ہے۔ تاہم صوبائیت کا زیادہ مستحکم حوالہ نسل ہے۔ البتہ صوبائیت کے سلسلے میں زبان کی اہمیت بھی بنیادی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب کوئی شخص اپنے جغرافیے، اپنی نسل اور اپنی زبان پر اس طرح اصرار کرے کہ اس سے احساسِ برتری یا احساسِ کمتری کی بو آئے تو وہ صوبائی عصبیت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ تاہم عصبیت صرف احساسِ برتری یا احساسِ کمتری کا نام نہیں۔ عصبیت میں اپنے گروہ سے ایسی محبت کی جاتی ہے جس میں دوسرے گروہ کی نفرت بھی شامل ہو۔

کسی انسان اور گروہ کا نسلی تشخص ایک حادثاتی چیز ہے لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حادثاتی چیز کو بھی عصبیت کی بنیاد بنا لیا گیا ہے۔ چنانچہ کسی کو اپنے پنجابی ہونے پر فخر ہے، کسی کو سندھی، پشتون اور بلوچ ہونے پر۔ مہاجر کسی نسل کا نام نہیں ہے، مگر پاکستان میں ایم کیو ایم نے مہاجروں کو بھی نسل بنا کر کھڑا کردیا ہے۔ نسلی عصبیت بنکارتی ہے تو اپنی قدامت کو حوالہ بناتی ہے، حالانکہ اسلام کے دائرے میں اصل چیز نسل اور اس کی قدامت نہیں بلکہ حق سے وابستگی ہے۔ لیکن نسل کا تعصب نسل ہی کو حق بنا دیتا ہے اور نسل کی قدامت اس کے حق ہونے کی دلیل بن جاتی ہے۔ سندھ میں بسنے والے قوم پرستوں کی بڑی تعداد اپنی جڑیں موئن جو دڑو میں تلاش کرتی رہتی ہے۔ یہ لوگ راجا داہر کو ہیرو اور محمد بن قاسم کو ولن کہتے ہیں۔ پنجاب میں بعض لوگوں کی پنجابیت اس حد تک جاتی ہے کہ وہ رنجیت سنگھ کو دھڑلے سے اپنا ہیرو کہتی ہے۔ بلوچستان میں قوم پرستوں کی بڑی تعداد اپنے قبل از اسلام کے ماضی پر فخر کرتی ہے اور کہتی ہے کہ ہم تو اتنے قدیم ہیں کہ اسلام سے پہلے بھی ہمارا وجود تھا۔ نسلی قدامت کا یہ تصور اسلام کی ضد تو خیر ہے ہی، اس میں عقلی اعتبار سے بھی کوئی معنی نہیں۔ اس لیے کہ قدامت اہم ہے لیکن زندگی میں اصل چیز صرف قدیم ہونا نہیں جدید ہونا بھی ہے۔ یعنی دیکھنے کی اصل بات یہ ہے کہ کوئی نسل اپنی قدامت کو کتنا نیا بنا سکتی ہے اور عصری دنیا میں اس کی قدامت کی خدمات یا Contributions کیا ہیں؟ اگر عصرِ حاضر میں قدامت کی کوئی خدمات نہیں ہیں تو پھر ایسی قدامت میوزیم میں رکھے جانے کے لائق ہے اور میوزیم میں مُردہ چیزیں رکھی جاتی ہیں۔

صوبائیت کے زہر کا ایک حوالہ زبان ہے۔ مسلمانوں میں زبان کا تعصب ہو ہی نہیں سکتا اس لیے کہ قرآن کہتا ہے کہ رنگوں اور زبانوں کا اختلاف اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے۔ لیکن پاکستان کی تاریخ میں زبان کے تعصب نے تباہ کن کردار ادا کیا ہے۔ بنگالی پاکستان بنانے والے تھے اور قیام پاکستان کے سلسلے میں ان کا کردار سب سے زیادہ تھا، مگر انہوں نے بنگالی زبان کی محبت کو تعصب میں ڈھال لیا اور اس پر اتنا اصرار کیا کہ بنگالی جوڑنے والی قوت کے بجائے توڑنے والی قوت بن گئی۔ ہم نے حال ہی میں اس حوالے سے بنگلہ دیش کے ایک صحافی کا تبصرہ پڑھا۔ اس صحافی نے کہا کہ اگر 1970ء میں بنگلہ دیش کے اندر بھارتی فلمیں دیکھی جارہی ہوتیں تو مشرقی پاکستان کبھی الگ نہ ہوتا۔ ظاہر ہے کہ بھارتی فلموںکی زبان اور شاعری اردو میں ہے اور آج بنگلہ دیش میں بھارتی فلمیں خوب دیکھی جارہی ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ کم از کم فلم کی سطح پر بنگلہ دیش میں اردو اب بنگالیوں کی پہلی زبان بن چکی ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ اسلام اور پاکستان کی بقا کے لیے اردو کو گلے نہیں لگایا جا سکتا تھا مگر فلموں کے ذریعے اردو کو دل و دماغ میں اتارا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ معاملہ صرف مشرقی پاکستان تک محدود نہیں۔ نواب اکبر بگٹی نے طویل عرصے تک احتجاجاً اردو میں کلام نہیں کیا،جیسے اردو نے ان کو کوئی ذاتی نقصان پہنچایا ہو۔ ایک پنجابی پروگرام میں اردو کے مشہور نقاد اور ادیب احمد ندیم قاسمی سے پوچھا گیا کہ آپ نے ساری زندگی اردو میں لکھا اور پنجابی کو نظرانداز کیا، تو انہوں نے اس کے جواب میں اردو میں لکھنے پر افسوس کا اظہار کیا۔ اردو کی طرح پنجابی بھی ہماری زبان ہے اور احمد ندیم قاسمی کو پنجابی میں بھی لکھنا چاہیے تھا، مگر اس کے باوجود اردو میں اظہارپر کفِ افسوس ملنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ اسی طرح مہاجروں میں ایک عنصر ایسا ہے جو اردو پر اس طرح فخر کرتا ہے جیسے اردو اس کے باپ دادا کی جاگیر ہو۔ حالانکہ اردو کی تخلیق برصغیر کی پوری ملتِ اسلامیہ نے کی ہے۔ یہاں تک کہ اردو کے فروغ میں ہندوئوں کا کردار بھی اہم ہے۔

صوبائیت کی نمود اور فروغ میں ناانصافی کے شعور نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ مشرقی پاکستان کی آبادی 54 فیصد تھی مگر پہلے مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے ان پر مساوات یا Parity کا اصول تھوپا اور ان سے کہا کہ آپ کو 54 فیصد آبادی کے باوجود پچاس فیصد وسائل پر گزارا کرنا ہو گا۔ لیکن اس مساوات کی بھی پوری طرح پاسداری نہ کی گئی، نتیجہ یہ کہ مشرقی پاکستان کا احساسِ محرومی مسئلے سے بحران میں تبدیل ہو گیا۔ بلوچستان کی آبادی کم ہے مگر بلوچستان جغرافیائی اعتبار سے پاکستان کا نصف ہے اور اس کے معدنی وسائل سے پورا ملک استفادہ کرتا ہے۔ لیکن بلوچستان میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ ان کی گیس سے ان کے سوا پوری قوم فائدہ اٹھاتی ہے۔ اسی طرح سندھ میں کوٹہ سسٹم نے سندھ کے شہری علاقوں میں احساسِ محرومی کو ہوا دی۔ کوٹا سسٹم ایک عرصے کے لیے سندھ کی ضرورت تھا، لیکن کوئی معاشرہ میرٹ کو دائمی طور پر نظرانداز کرکے زندہ نہیں رہ سکتا۔

پاکستان کی تاریخ کے مختلف ادوار میں اندھا دھند فوجی آپریشنز نے بھی صوبائیت کو ہوا دی ہے۔ مشرقی پاکستان ملک کا اکثریتی علاقہ تھا اور 1970ء کے انتخابات کے بعد اقتدار شیخ مجیب کو ملنا چاہیے تھا، لیکن مغربی پاکستان کے حکمران طبقے نے انصاف اور سیاسی نظام کے قواعد و ضوابط کو روند ڈالا۔ اس صورتِ حال سے جو منظر نامہ وجود میں آیا اس میں مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا تھا، لیکن جنرل یحییٰ اور بھٹو صاحب نے مذاکرات کے بجائے طاقت کے اظہار اور استعمال کا راستہ اختیار کیا اور فوجی آپریشن نے دیکھتے ہی دیکھتے مشرقی پاکستان کو نفسیاتی اور جذباتی طور پر بھی پاکستان سے الگ کردیا۔ بلوچستان کی گزشتہ 40 سال کی تاریخ میں پانچ فوجی آپریشن کیے گئے ہیں اور جنرل پرویز مشرف نے کسی جواز کے بغیر نواب اکبر بگٹی کو قتل کرکے بلوچستان کو صوبائیت اور قوم پرستی کی آگ میں جھونک دیا ہے۔

پاکستان میں قوم پرستی اور صوبائیت کی تاریخ کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ بیرونی طاقتوں نے ہماری داخلی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا ہے اور انہوں نے صوبائیت اور قوم پرستی کو ہوا دی ہے۔ مشرقی پاکستان میں بھارت کی مداخلت کے بغیر وہ کچھ نہیں ہو سکتا تھا جو ہوا۔ بھارت نے فوجی مداخلت تو بہت بعد میں کی، اس نے مشرقی پاکستان کے تعلیمی نظام میں موجود ہندوئوں کو قوم پرستی اور صوبائیت کی آگ بھڑکانے کے لیے بہت پہلے سے استعمال کرنا شروع کردیا تھا۔ 1980ء کی دہائی میں روس پشتون اور بلوچ قوم پرستوں کی سرپرستی کررہا تھا۔ ایم کیو ایم اگرچہ جنرل ضیاء الحق کی تخلیق تھی مگر بعدازاں غیرملکی طاقتیں بھی اس کی پشت پر کھڑی ہوگئیں۔ اس کے بغیر الطاف حسین کو نہ برطانیہ میں پناہ مل سکتی تھی، نہ وہ برطانیہ کے شہری بن سکتے تھے اور نہ برطانیہ میں بیٹھ کر کراچی اور حیدرآباد میں سیاست کرسکتے تھے۔ یہی معاملہ اب بلوچستان کا ہے جہاں امریکہ اور بھارت قوم پرستوں کی ہر ممکن مدد کررہے ہیں۔

انسان کی زندگی مختلف دائروں کی کلیّت کی زندگی ہے۔ ایک سطح پر انسان صرف ایک فرد ہوتا ہے، لیکن اگر انسان صرف ایک فرد بن کر رہ جائے تو اس کی زندگی تباہ ہوجائے گی۔ انسان خاندان کا رکن ہوتا ہے، لیکن اگر وہ صرف اپنے خاندان کی رکنیت ہی کو سب کچھ سمجھ لے تو اس کی زندگی میں ایک ہولناک عدم توازن پیدا ہوجائے گا۔ اسی طرح انسان ایک نسل اور ایک قوم کا حصہ ہوتا ہے، لیکن ایک نسل اور ایک قوم کا تشخص بھی سب کچھ نہیں ہوتا۔ تجزیہ کیا جائے تو صوبائیت کی عصبیت زندگی کو ایک دائرے اور ایک سطح تک محدود کرنے اور زندگی کی کلیّت کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ ہوتی ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جب صوبائیت کسی سیاسی جماعت کا سیاسی مفاد بن جاتی ہے تو پھر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے فروغ کے لیے کام کرتی ہے۔ 1990ء کی دہائی میں میاں نوازشریف اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ تھے اور اسلامی جمہوری اتحاد پوری قوم کا ترجمان تھا، لیکن اس کے باوجود میاں صاحب نے اپنی انتخابی مہم میں جاگ پنجابی جاگ کے نعرے لگوائے۔ پیپلزپارٹی خود کو وفاقی جماعت کہتی ہے لیکن جب وہ سندھ میں آتی ہے تو ایک مقبول قوم پرست جماعت نظر آتی ہے۔ وہ چالیس سال تک اجرک والوں کے لیے تو کچھ نہیں کرتی مگر ’’اجرک ڈے‘‘ ضرور مناتی ہے۔ یہی معاملہ اے این پی اور ایم کیو ایم کا ہے۔ اے این پی خود کو ترقی پسند کہتی ہے مگر اس کی ترقی پسندی کبھی بھی صوبہ خیبرپختون خوا سے بلند نہ ہوسکی۔ ایم کیو ایم مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ ہوگئی مگر اس کی ’’مہاجریت‘‘ ہی آج بھی اس کی اصل شناخت ہے حالانکہ اس نے مہاجروں کو جتنا نقصان پہنچایا ہے کوئی اور جماعت اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ صوبائیت اور اس کے زہر کا کیا علاج ہے؟

اسلام ایک ایسی حقیقت ہے جو اپنی اصل اور اظہار دونوں میں کلیّت پسند یا All-Inclusive ہے۔ وہ ایک جانب فرد کی انفرادیت کو تسلیم کرتا ہے، دوسری جانب ثقافتی تنوع کو دل وجان سے قبول کرتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ تم ایک سطح پر ایک قوم، دوسری سطح پر ایک ملت اور بلند ترین سطح پر ایک امت ہو۔ امت کا تصور اسلام کا اصل تصور ہے اور اس تصور کی تعریف کلمہ طیبہ سے متعین ہوتی ہے۔ برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ نے امت کے تصور کو جس طرح سمجھا، جذب کیا اور برتا ہے اس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔ پاکستان خود امت کے تصور کی عطا ہے۔ چنانچہ پاکستان میں امت کے تصور کو عام کرکے ہی صوبائیت اور نام نہاد قوم پرستی کو شکست دی جا سکتی ہے۔ امت کے تصور کے تحت لوگوں کو بتانے کی ضرورت ہے کہ اسلام تمہارے نسلی اور لسانی تشخص کو ختم نہیں کرتا، بس وہ اس تشخص کو اپنے ماتحت کرتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ تمہارے کسی تشخص کو اسلام اور اس کے تصورِ امت سے زیادہ اہم نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح اسلامی معاشرے کی ایک بنیاد اور خوبی انصاف ہے۔ جس معاشرے میں انصاف ہوتا ہے وہاں ’’تنوع‘‘ آسانی کے ساتھ ’’تضاد‘‘ نہیں بنتا، اور نہ ہی انصاف سے ہمکنار معاشروں میں بیرونی قوتوں کو کھل کھیلنے کے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا ہے کہ معاشرہ کفر کے ساتھ باقی رہ سکتا ہے مگر انصاف کے بغیر باقی نہیں رہ سکتا۔ اور اسلام معاشرے کو انصاف سے آگے بڑھ کر احسان کی خوبی سے آراستہ کرنا چاہتا ہے اور احسان میں ’’دوسرے‘‘ کی اہمیت غیر معمولی ہے، کیونکہ احسان کا تصور دوسرے کے حوالے سے ہی بروئے کار آتا ہے۔

شاہنواز فاروقی

Enhanced by Zemanta

Post a Comment

0 Comments