All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

وزیر اعظم کے حوالے سے ایک چونکا دینے والی خبر!



روزنامہ جنگ میں پرویز بشیر کی بائی لائن خبر جنگ ایسے کثیر الاشاعت اخبار میں چھپنے کے ناتےاتنی دور تک جائے گی اس کا کچھ اندازہ تو تھا لیکن اس حد تک اندازہ نہیں تھا کہ اندرون ملک اور بیرون ملک تک اس کی اتنی گونج سنائی دے گی۔ دراصل خبر تھی بھی بہت چونکا دینے اور حیران کرنے والی کہ ملک کے وزیر اعظم کا بغیر کسی سکیورٹی اور بغیر کسی کروّفر کے خاموشی کے ساتھ ایک معمولی سے شخص سے ملنے اس کے دفتر میں چلے آنا اور خود مین ٹیبل کے دوسری طرف بیٹھ کر اس شخص کو مین چیئر پر بیٹھے رہنے پر اصرار کرنا، یہ باتیں حیران کرنے والی تو ہیں۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ وزیر اعظم رستے میں ہر ٹریفک سنگل پر رکتے بھی رہے اور جب وہ مذکورہ دفتر پہنچ کر کار سے اترے تو وہاں کھڑے لوگ حیرت سے انہیں دیکھ رہے تھے۔ انہیں یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ پاکستان کا وزیر اعظم ان کے سامنے کھڑا ہے۔

اس خبر کی اشاعت کے بعد جہاں لوگ وزیر اعظم کے اس اقدام کو سخت حیرت کے عالم میں سراہا رہے تھے وہاں ان کی اکثریت کا یہ بھی خیال تھا کہ وزیر اعظم کو دہشت گردی کے موجودہ ماحول میں اتنا بڑا رسک لینا نہیں چاہئے تھا۔ میں ان سے متفق ہوں لیکن میں جو تھوڑا بہت میاں نواز شریف کو جانتا ہوں اس کے پس منظر میں میری حیرت دوسروں سے کم ہے۔ میاں صاحب سے اختلاف رکھنے والے ممکن ہے اس حقیقت سے بھی انکار کریں کہ میاں صاحب کا آئیڈیل پاکستان مہذب اور ترقی یافتہ ملکوں کی مثبت روایات والا پاکستان ہے، ان ملکوں میں وزیر اعظم اور تھوڑے بہت حفاظتی اقدامات کے ساتھ گھر سے نکلتے ہیں، میاں صاحب کے دل میں بھی یہ خواہش بہت شدت سے موجود ہے چنانچہ پاکستان کی موجودہ دہشت گرد فضا میں بھی انہیں جب موقع ملتا ہے، وہ اپنی یہ خواہش پوری کرتے ہیں۔ اس طرح کے دو تین واقعات کا میں عینی شاہد ہوں، ایک بار انہوں نے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا تھا اور اس دوسری جگہ کا صرف ایک شخص کو پتہ تھا تاہم اس نے مناسب سمجھا کہ حاجی شکیل کو یہ بتادیا جائے ،حاجی صاحب یہ سن کر پریشان ہوگئے اور ان سے زیادہ پریشانی سکیورٹی آفیسر کو تھی۔ اس نے کہا کہ وزیر اعظم سے پوچھا جائے کہ ان کے رستے میں’’روٹ‘‘لگادیا جائے۔ واضح رہے یہ ’’روٹ‘‘ وہ بلا ہے جس کے لگتے ہی سارے رستے بند کردئیے جاتے ہیں، جس پر عوام روٹ کھلنے کے بعد بھی کئی کئی گھنٹے ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں اور حکمرانوں کو بددعائیں دیتے ہیں۔ اس شخص نے میاں صاحب کو ان کا پیغام پہنچایا۔میاں صاحب نے پہلے تو روٹ نہ لگانے اور پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا’’انہیں کہیں کہ وہ صرف دو منٹ پہلے روٹ لگائیں تاکہ عوام کو تکلیف نہ ہو‘‘چنانچہ ایسا ہی ہوا صرف دو منٹ کے لئے ٹریفک رکا اور اس کے بعد میاں صاحب اپنے اس دوست کے ساتھ جب مطلوبہ مقام پر پہنچے تو وہ لوگ بھی حیران رہ گئے کیونکہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنا بڑا لیڈر ایک عوامی جگہ پر اتنی سادگی سے ان کے درمیان موجود ہو سکتا ہے۔

میں نے میاں صاحب کے ذہن میں موجود آئیڈیل پاکستان کی بات کی تھی جس کا تعلق پاکستان کے عوام کو بھی ترقی یافتہ ملکوں کے عوام ایسی سہولتیں دینے سے ہے تو اسی وژن کے تحت انہوں نے موٹر وے بنائی، جسے اب پورے پاکستان تک پھیلائے جانے کا منصوبہ ہے۔ بیرون ملک سے پاکستان آنے والے پاکستانیوں اور غیر پاکستانیوں کے ساتھ ائیر پورٹ پر مہذب رویہ اپنائے جانے کے لئے گرین چینل کا آغاز کیا۔ ملک کی معاشی ترقی کے لئے ماڈرن ائیر پورٹس بنائے، گواردر کی بندر گاہ تعمیر کی ،جس کا پاکستانی عوام کی معاشی فلاح و بہبود کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ کراچی سے پاکستان تک بائی روڈ سفر کرنے والے عوام کو قدم قدم پر محصول چنگی کے نام پر بھتہ مافیا کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ میاں نواز شریف نے عوام کو ریلیف دینے کے لئے محصول چنگی کا سلسلہ ختم کردیا۔ سرائیکی علاقوں میں ایک عرصے سے سائیکل رکشہ چلتا تھا جن کے ڈرائیور بالآخر ٹی بی ایسے موذی مرض کا شکار ہوجاتے تھے۔ یہ بات شرف انسانیت کے منافی تھی کہ دو چار لوگ پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوں اور ایک نحیف و نزار انسان شہر بھر میں انہیں جانوروں کی طرح کھینچتا پھرے۔ میاں نوازشریف نے اپنی گزشتہ وزارت عظمیٰ کے دوران یہ لعنت بھی ختم کردی اور سائیکل رکشے کے جگہ انہیں موٹر سائیکل رکشہ دے دئیے۔ اسی طرح انہوں نے عوام کو مہذب اور ترقی یافتہ ملکوں کے عوام کی طرح ان ٹیکسیوں میں سفر کی سہولت دینے کا نظام بنایا جو ائیر کنڈیشنڈ تھیں اور جن میں میٹر لگے ہوئے تھے، مگر یہ منصوبہ خود ان لوگوں نے ناکام بنادیا جن کے لئے سہولت مہیا کی گئی تھی، کچھ تو ٹیکسی ڈرائیوروں نے جو خود بھی عوام ہی میں شمار ہوتے ہیں ان کے میٹر اتاردئیے، پیلا رنگ ختم کرکے دوسرا پینٹ کروالیا، اور اس کے علاوہ کچھ بدنیت اور بے ایمان لوگوں نے خود کو ٹیکسی ڈرائیور ظاہر کرکے یہ گاڑیاں حاصل کرلیں اور انہیں ذاتی استعمال میں لے آئے۔ سارا قصور حکمرانوں کا نہیں ہوتا، ہمارا بھی ہوتا ہے۔ بہرحال نواز شریف نے سندھ کے ہاریوں میں زمینیں تقسیم کیں، پاکستان کے کئی شہروں میں بے گھر لوگوں کے لئے بہترین فلیٹ بنائے، جو ان کی حکومت ختم ہوتے ہی مشرف حکومت نے ایک کمپنی کو بیچ دئیے۔ اس کے علاوہ بے شمار ایسے کام ان کے کریڈٹ پر ہیں جو پاکستانیوں کو عزت و وقار سے زندہ رہنے کے حوالے سے ان کی خواہش کا مظہر ہیں۔ یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ میاں شہباز شریف ایسی انقلابی سوچ کا حامل اور انتہائی متحرک شخصیت ان کا دست و بازو ہے، چنانچہ پنجاب میں تاریخی نوعیت کے منصوبوں پر عمل ہوچکا ہے اور ابھی بہت سے پائپ لائن میں ہیں۔ دوسری طرف جیسا کہ میں ابھی عرض کررہا تھا، وفاقی حکومت میاں نواز شریف کی قیادت میں توانائی کے مسئلے کے حل کے لئے شب و روز کوشاں ہے اور یہاں بھی شہباز شریف اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، میں نے موجودہ حکومت کے برسراقتدار آتے ہی جو بات کی تھی وہ میں ایک بار پھر پورے یقین سے دہراتا ہوں کہ اگر دہشت گردی پر قابو پالیا گیا تو پانچ سال کی مدت پوری ہونے تک موجودہ حکومت پاکستانی عوام کے لئے وہ کچھ کر گزرے گی جس کی توفیق ان سے پہلے کے حکمرانوں کو حاصل نہیں ہوئی تھی۔

ایک بات اور میاں نواز شریف ذاتی طور پر شاہانہ زندگی گزارتے ہیں جو میری بھی خواہش ہے مگر افسوس میرے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں تاہم میاں صاحب سرکاری سطح پر چادر کے مطابق پائوں پھیلانے لگے ہیں، مگر ان کے سامنے چار آنسو بہا کر کوئی بھی ان کی ذاتی جیب خالی کرسکتا ہے۔ وہ عجز و انکسار کا پیکر ہیں، جنرل ضیاء الحق مرحوم بھی عجز و انکساری کا مظاہرہ کرتے تھے مگر وہ ظالم انسان تھے۔

میاں نواز شریف ایک درد دل رکھنے والے شخص ہیں اور ان کا عجز و انکسار ظاہری نہیں ان کے اندر سے پھوٹتا ہے، اپنی سابقہ وزارت عظمیٰ کے دوران ایک بار انہوں نے چند دوستوں کو اپنے محل نما گھر (ایسے گھر اور بھی بہت سے صنعتکاروں کے ہیں) میں ناشتے پر مدعو کیا اور بے شمار ملازموں کی موجودگی کے باوجود مسلسل کھڑے ہو کر انہیں خود’’سرو‘‘ کرتے رہے۔

میں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے بہت سے کاموں کا مداح ہونے کے باوجود ہر دور میں انہیں ٹوکتا بھی رہا ہوں، اس بار یہ ’’ٹوکا ٹاکی‘‘ پہلے سے زیادہ ہوگی کیونکہ میں اپنے طور پر ان کا’’ضمانتی‘‘ بن چکا ہوں ،اگر وہ خدانخواستہ عوام کی توقعات پر پورے نہیں اترتے تو ان کے علاوہ میرا گلا بھی پکڑا جائے گا اور یوں اب میرا بھی بہت کچھ’’اسٹیک‘‘ پر ہے اس حوالے سے آخر میں تین مشورے بہت ضروری ہیں،ایک یہ کہ آپ اگر ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بھی بہا دیں لیکن اگر آپ کا جینوئن کارکن خوش نہیں ہے(دہاڑی دار کارکن بہت خوش ہیں، انہیں کام نکلوانے کا ہنر آتا ہے) تو آپ آئندہ انتخابات میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔

حالیہ انتخابات کے نتائج بھی بھنگڑے ڈالنے والے نہیں بلکہ ایک لمحہ فکریہ ہیں، دوسرے میڈیا میں جو لوگ پلانٹڈ نہیں ہیں بلکہ وہ خلوص دل سے بعض معاملات پر آپ سے اختلاف رکھتے ہیں، ان کی قدر کریں اور ان سے رابطے میں رہیں، تیسرے تمام وزارتیں اپنی کارکردگی کی سہ ماہی رپورٹ جاری کریں ،چوتھے بیوروکریسی میں آپ کے پاس کبھی انور زاہد، مہر جیون خان، اے کے زیڈ شیر دل، ناصر کھوسہ،جاوید محمود اور پرویز مسعود ایسے لوگ ہوتے تھے، اب آپ کے پاس اس سطح کے لوگ نہیں ہیں لیکن وہ آپ کو مل سکتے ہیں آپ آٹھ دس افراد کے علاوہ بھی ادھر ادھر نظر دوڑائیں تو آپ مایوس نہیں ہوں گے اور بیوروکریسی میں موجود بے چینی بھی ختم ہوجائے گی، چوتھے یہ کہ آپ جو آرڈرز جاری کریں تو ان کی تعمیل کو یقینی بنائیں اور اگر تعمیل نہیں ہوتی تو رکاوٹ ڈالنے والوں کا سراغ ضرور لگائیں اور ا ٓخری بات یہ کہ چغل خوروں سے بچیں، ان کی ہر بات پر یقین نہ کریں، یہ آپ کو اپنے اصل دوستوں سے محروم کردیں گے۔موجودہ حکومت کو یہ مشورے دینے کی ضرورت نہیں تھی، اگر آج مرحوم و مغفور میاں محمد شریف اور مرحوم و مغفور حسن پیرزادہ زندہ ہوتے ......۔

کالم کے اختتام سے پہلے ایک بار پھر برادرم پرویز بشیر کی خبر کی طرف اور اس سلسلے میں صرف ایک بات اور وہ یہ کہ میاں صاحب آپ کی جان بہت قیمتی ہے آپ اس وقت تک پورے حفاظتی انتظامات کے ساتھ گھر سے باہر نہ نکلیں جب تک دہشت گردی کی موجودہ فضا ختم نہیں ہوجاتی۔ آپ اپنے کاموں سے لوگوں کے دل جیتیں ،عوام کی اکثریت آپ سے محبت کرتی ہے، بس اس محبت ہی کو اپنا قیمتی سرمایہ سمجھیں۔ موجودہ دہشت گردی کی فضا میں آپ انہیں اپنے گھر پر گروپس کی صورت میں مدعو کریں تاکہ آپ تک صحیح صورتحال پہنچ سکے، یہی بات مجھے شہباز شریف صاحب سے بھی کہنی ہے۔


بشکریہ روزنامہ "جنگ

Prime Minister Nawaz Sharif "

Enhanced by Zemanta

Post a Comment

0 Comments