All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

کیا ہمارے مذہبی رہنما ایسا کر سکتے ہیں؟



دوستوں کی محفل میں عالم اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں سے متعلق گرما گرم بحث جاری تھی،امریکہ کو بُرا بھلا کہنے اور یہودیوں کو کوسنے کا سلسلہ عروج پر تھا۔ایک مذہبی جماعت کے ترجمان نے گرم چائے کا کپ ہونٹوں سے ہٹاتے ہوئے جیو نیوز کو بھی لپیٹ دیا۔ میں نے بصد احترام پوچھا،اگر جیو پر تعلیم کے فروغ کیلئے مہم چلائی جا رہی ہے تو آپ کو کیا اعتراض ہے؟ پڑھنے لکھنے کے سوا پاکستان کا مطلب کیا،اس سلوگن میں کیا برائی ہے؟ انہوں نے بھنّا کر کہا،پاکستان کا مطلب کیا،لاالہ الا اللہ جو قیام پاکستان کی بنیاد ہے آپ اسے ہی گرا رہے ہیں اور پوچھتے ہیں ،آپ کو کیا اعتراض ہے۔

سامنے تشریف فرما ایک اور مذہبی جماعت کے انقلابی رہنما اور مرکزی ترجمان نے نہ صرف گرہ لگائی بلکہ بات کچھ یوں آگے بڑھائی،یہ جو آپ کا نعرہ ہے نا، اگر آگے بڑھنا ہے تو الف ب پہ یقین رکھنا ہے، یہ الف،ب مخفف ہے امریکہ بہادر کا۔ یعنی اگر آگے بڑھنا ہے تو امریکہ بہادر پہ یقین رکھنا ہے۔ یہ ہیں اس قوم کے رجالان دین جسے ’’گھٹّی‘‘ ہی اقراء کی دی گئی،جسے کہا گیا کہ ماں کی گود سے قبر تک حصول علم سے دستکش نہ ہونا،یہ سوچ ہےاس شریعت کے علمبرداروں کی جو حصول علم کیلئے نکلنے والے کی موت کو شہادت کا درجہ دیتی ہے۔ جب امریکہ کی عظمت و سطوت کا ناقوس بجتا ہے تو ہمارے ہاں نوحوں اور مرثیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

میں حیران ہوں کہ اس میں جلنے کڑھنے اور کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچنے کی کیا ضرورت ہے؟ جب تک علم و تحقیق کا عَلم ہمارے ہاتھ میں تھا،دنیا کی قیادت بھی ہمارے پاس تھی۔جب تک ہم کوتاہ دستی کے سبب بیمار نہیں ہوئے اور عقل و خرد کے گھوڑے پر سوار رہے، دشت و دریا ہماری ہیبت سے لرزاں تھے،زمانہ ہماری جنبش لب کامنتظر رہتا اور مورخ ہماری ہی شان میں قصیدہ کہتا۔مگر آج امریکہ علمی و فکری میدان میں سرفہرست ہے تو سب اس کی چاکری کرتے اور قصیدے پڑھتے ہیں۔چند روز قبل سائنسی جرنلز کی درجہ بندی اور تحقیق کا معیار جانچنے والے ایک ادارے SJR نے رپورٹ جاری کی۔امریکہ میں گزشتہ 16برس کے دوران 70لاکھ تحقیقی مقالے شائع ہوئے اور سائنسی جرائد کی تعداد کے لحاظ سے بھی امریکہ سب سے آگے ہے اس لئے اس کے رینکنگ پوائنٹس 1380ہیں۔ دوسرے نمبر پر چین، تیسرے نمبر پر برطانیہ جبکہ چوتھے اور پانچویں نمبر پر جرمنی اور جاپان ہیں۔ اگر امریکہ کے بعد سرفہرست چاروں ممالک کے تحقیقی مقالوں کی تعداد جمع کر لی جائے تو بھی امریکہ کے مقابلے میں کم ہے۔ 1996ء سے 2012ء تک کے دوران 20لاکھ تحقیقی مقالے کی اشاعت کے ساتھ چین دوسرے نمبر پر ہے جبکہ جرنلز کی تعداد کے لحاظ سے چین کی کریڈٹ رینکنگ 385 ہے۔ چین میں بھی چند عشرے قبل تحقیق کا فقدان تھا۔ چینی حکمرانوں نے یہ بات محسوس کی کہ ان کے ہاں نقل کرنے اور کاپی کرنے کا کام تو نہایت مہارت کے ساتھ کیا جاتا ہے لیکن ایجادات و اختراعات کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے لہٰذا چینی حکومت نے اکیڈمی آف سائنسز کی بنیاد رکھی اور یہ اعلان کر دیا کہ جس محقق کا مقالہ کسی سائنٹیفک جرنل میں شائع ہو گا،اسے 30 ہزار ڈالر انعام دیا جائے گا۔

ہمارا ہمسایہ ملک ایران جہاں ہم سے کہیں زیادہ مرگ بر امریکہ کے نعرے گونجتے ہیں اور امریکہ کو شیطان عظیم کہا جاتا ہے ،وہاں بھی تمام تر اقتصادی پابندیوں کے باوجود تحقیق کا معیار ہمارے مقابلے میں بلند ہے۔ اس عرصے کے دوران ایران میں 202807 تحقیقی مقالے شائع ہوئے جبکہ سائنسی جریدوں کی تعداد اور معیار کے لحاظ سے ایران کی ریٹنگ135ہے۔ایران کے موجودہ صدر حسن روحانی اسکاٹ لینڈ کی گلاسگو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ہیں۔ ان کی کابینہ امریکہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، روس اور اسپین کے مقابلے میں زیادہ کوالیفائیڈ ہے۔ ایرانی صدر کے چیف آف اسٹاف محمد نہاوندیان نے امریکہ کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے اکنامکس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔وزیر خارجہ اور ایٹمی قضیے پر مرکزی مذاکرات کار جواد ظریف بھی اسی شیطان عظیم امریکہ سے پی ایچ ڈی کر کے لوٹے۔ایران کی اٹامک انرجی آرگنائزیشن کے سربراہ علی اکبر صالحی نے بھی امریکہ سے نیوکلیئر انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی۔ محمود وائزی جو کمیونی کیشن کے وزیر ہیں انہوں نے بھی امریکہ کی لوزیانا یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی جبکہ وزیر ٹرانسپورٹ عباس احمد اخوندی برطانیہ سے پی ایچ ڈی کر کے اپنے ملک کی خدمت کر رہے ہیں ۔میں اس روش کی حوصلہ شکنی نہیں کر رہا،آپ اپنی جبلت سے مجبور ہو کر امریکہ کو گالیاں دیتے ہیں تو دیں،اس کے جھنڈے جلائیں یا ہتھیلی پہ سرسوں اگائیں،کم از کم ان کافروں کے ملک پڑھنے ضرور جائیں۔

ہم بھارت سے مسابقت کے دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم کسی قطار شمار میں نہیں۔ یقین نہیں آتا تو اسی رپورٹ میں موازنہ کر کے دیکھ لیں۔بھارت میں گزشتہ 16سال کے دوران 750777 مقالے شائع ہوئے جبکہ پاکستان میں صرف 58133۔سائنسی جرائد کی اشاعت کے حساب سے بھارت کی ریٹنگ چین سے قریب تر ہے یعنی چین کی 385 اور انڈیا کی 301 مگر پاکستان کی ریٹنگ111 ہے۔دنیا بھر میں عالمی سائنسی جریدوں کی تعداد 202807ہے۔ ان میں سے سب سے زیادہ امریکہ سے شائع ہوتے ہیں جن کی تعداد 5605ہے۔

معیار کے لحاظ سے امریکی جریدہ ’’سائنس‘‘ 739انڈیکس کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت سے 369سائنسی جریدے نکلتے ہیں جبکہ سب سے معیاری جرنل کرنٹ سائنس کاانڈیکس ریٹ 63ہے ۔پاکستانی جرنلز کی تعداد صرف 85 ہے اور سب سے بہترین جرنل ’’جرنل آف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن JPMA) (‘‘ کا انڈیکس ریٹ 23ہے۔دنیا بھر میں نالج بیسڈ اکانومی کا تصور پختہ تر ہوتا جا رہا ہے یعنی آپ نے خوشحالی کی دہلیز پر قدم رکھنا ہے تو الف ب پہ یقین رکھنا ہے اور تعلیم کے شعبہ میں سرمایہ کاری کو پہلی ترجیح سمجھنا ہے۔ ورلڈاکنامک فورم کی درجہ بندی کے مطابق انڈونیشیا میں اعلیٰ تعلیم تک رسائی کی شرح 27 فیصد ہے جبکہ نالج بیسڈ اکانومی کی دوڑ میں یہ ملک69ویں نمبر پر ہے۔ چنانچہ اس کی سالانہ ویلیوایڈڈ سروسز برآمدات 120ارب ڈالر تک جا پہنچی ہیں ۔ملائیشیا دوسرا رول ماڈل ہے جہاں اعلیٰ تعلیم تک رسائی کے مواقع 30فیصد ہیں جبکہ نالج بیسڈ اکانومی کے لحاظ سے 38ویں نمبر پر ہے۔ملائیشیا میں تو ایک شہر تعلیم بسایا گیا ہے جس کا رقبہ سنگا پور سے تین گنا زائد ہے۔اس شہر تعلیم میں عالمی معیار کی 7یونیورسٹیاں موجود ہیں۔تُرکی اس ضمن میں امت مسلمہ کے قائد کا کردار ادا کر رہا ہے جہاں اعلیٰ تعلیم تک رسائی کی شرح 38فیصد ہے۔ترک یونیورسٹیوں سے منسلک43 ٹیکنالوجی پارکوں میں سرگرم عمل 700کمپنیاں سالانہ 750ملین ڈالر کا زرمبادلہ کما رہی ہیں ۔ہمارا پیارا پاکستان اس درجہ بندی میں 160ممالک میں 122ویں نمبر پر ہے اور یہاں اعلیٰ تعلیم تک رسائی کی شرح 7.8فیصد ہے۔ ایسے میں کوئی ادارہ الف ب پ پر یقین رکھنے کی بات کرے تو اس پر الزامات کی برسات ہو جاتی ہے۔

ہم جن یہودیوں کو مطعون کرتے رہتے ہیں انہوں نے 1969ء میں چندہ مہم شروع کی اور ایک بلین ڈالر جمع کر کے اسرائیل کے چیف ربی کے پاس بھجوائے تاکہ اس سے ایک عظیم الشان سنگاگ تعمیر کرایا جائے۔چیف پروہت نے کہا،خدا کو کسی محل کی حاجت نہیں ،اس کی عبادت تو کسی جگہ بھی ہو سکتی ہے،اس خدا کو پانے کیلئے علم ضروری ہے لہٰذا جائو اور اس سے ایک ایجوکیشن ٹرسٹ بنائو چنانچہ 1970ء میں دنیا کا سب سے بڑا تعلیمی ٹرسٹ اسرائیل میں قائم ہوا۔ کیا ہمارے مذہبی رہنما ایسا کر سکتے ہیں؟

محمد بلال غوری

بشکریہ روزنامہ "جنگ"

Post a Comment

0 Comments