میرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا جو اپنے شہر کو محصور کرکے ناز کرے میرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے میرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا... جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے میرا قلم نہیں اس دزدِ نیم شب کا رفیق جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے میرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے میرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی جو اپنے چہرے پے دھرا نقاب رکھتا ہے میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے اسی لئے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا جبیں پہ لوچ کماں کا، زبان تیر کی ہے میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں ، یقیں ہے مجھے کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم میرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا
0 Comments