All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

قواعد و ضوابط کے کرشمے


 کالم نگار | اسرا ر بخاری

جنرل منٹگمری غالباً دنیا کا واحد فوجی کمانڈر تھا جسے ڈبل فیلڈ مارشل ہونے کا اعزاز حاصل تھا جس کی کیپ پر فیلڈ مارشل کے دو بیچ لگے ہوئے تھے وہ جنرل ایوب کی طرح از خود فیلڈ مارشل نہیں بن گیا بلکہ اسے اعلیٰ ترین فوجی خدمات کے عوض برطانوی حکومت نے پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد ان خطابات سے نوازا تھا اور یہ واقعہ تو بہت سوں کے علم میں ہوگا کہ جنرل منٹگمری نے برطانیہ کے محکمہ دفاع کو خط لکھا جس میں برطانیہ کیلئے اپنی اعلیٰ ترین فوجی خدمات کا تذکرہ کیا اور یہ درخواست کی کہ وہ کرایہ کے ایک مکان میں رہتا ہے اور اسے ملنے والی پنشن گزر اوقات کیلئے ناکافی ہے لہٰذا اسے ایک قطعہ اراضی الاٹ کردیا جائے تاکہ وہ اپنا ذاتی گھر بنا سکے محکمہ دفاع کی جانب سے اس کی درخواست منظور کرنے سے معذرت ظاہر کی گئی اور فوجی خدمات کے حوالے سے اس پر واضح کیا گیا کہ یہ خدمات اس نے مفت انجام نہیں دیں بلکہ اس کیلئے برطانوی عوام سے تنخواہ اور دیگر مراعات حاصل کی ہیں جنرل منٹگمری کا خیال یوں آیا کہ ایک ریفرنس کے سلسلے میں اکتوبر نومبر اور دسمبر 1999ءکے اخبارات کی فائل دیکھتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کے ٹیلی ویژن خطاب کی جو خبر نظر سے گزری جس میں جنرل صاحب نے اپنے اثاثوں کا اعلان کرتے ہوئے قوم کو آگاہ کیا ہے کہ جب وہ بریگیڈئر بنے تو انہیں ایک پلاٹ ملا پھر میجر جنرل ہوئے تو ایک پلاٹ ملا پھر لیفٹیننٹ جنرل کے عہدہ پر ترقی ملی تو ایک پلاٹ ملا اور آرمی چیف کے منصب پر فائز ہوئے تو پلاٹ ملا اس طرح ان کے کل اثاثوں کی مالیت 8کروڑ ہے۔

بلاشبہ ان کے یہ اثاثے کسی لحاظ سے ناجائز نہیں ہیں فوجی قواعد و ضوابط کے عین مطابق ہے اور واضح رہے یہ قواعد و ضوابط 1947ءکے بعد تشکیل نہیں پائے بلکہ پہلے سے موجود تھے ہمارا پورا نظام حکومتی، سیاسی، عدالتی اور تعلیمی برطانوی نظام کا چربہ ہے اگرچہ ہمارے آئین میں درج ہے کہ کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایاجائے گا لیکن اس آئین نے سود کو جائز قرار دے رکھا ہے اسی عدالتی نظام نے سود کے حق میں حکم امتناعی دے رکھا ہے اور اسی حکومتی نظام نے سود کو ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف عدالت میں اپیل دائر کر رکھی ہے جسے رب السموات و الارض نے اپنے ساتھ براہ راست جنگ قرار دیا ہے اور یہ بھی قواعد و ضوابط کے عین مطابق ہی ہے کہ واپڈا کا چیئر مین بننے والے ہر شخص کو پوش علاقے میں دو کنال کا پلاٹ ملتا ہے یہ قواعد و ضوابط کے مطابق ہے اس لئے ہر لحاظ سے جائز ہے اسی طرح مختلف اداروں کے اعلیٰ حکام کیلئے مراعات بھی قواعد و ضوابط کے مطابق ان کا استحقاق قرار دی گئی ہیں کیا یہ دلچسپ بات نہیں ہے کہ برطانیہ راج میں برصغیر میں جو قوانین بالخصوص اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کیلئے مراعات اور استحقاق کے حوالے سے قواعد و ضوابط بنائے خود برطانیہ کے اعلیٰ حکام کو ان کے ثمرات سے محروم رکھا گیا ہے تب ہی تو ٹونی بلیئر بحیثیت وزیراعظم دس دن کی چھٹیاں گزارنے جاتا ہے تو وہ خود خاتون اول اور دونوں بچے اپنے بیگ اٹھائے جہاز میں سوار ہوتے ہیں اس کی آمد پر نہ عام راستے بند کئے جاتے ہیں نہ ائر پورٹ پر کرفیو کا سماں ہوتا ہے مجھے خود اس تلخ تجربہ سے گزرنا پڑا وزیراعظم ظفر اللہ جمالی کیلئے راستہ بند ہونے کے باعث میں ایک گھنٹہ سے زائد کراچی ائر پورٹ سے صرف 8,7 کلو میٹر کے فاصلے پر تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ ٹریفک میں پھنسا رہا جس کے نتیجے میں میری 6بجے کی فلائٹ نکل گئی مجھے دو ہزار روپے فلائٹ تبدیل کرنے کیلئے دینے پڑے جبکہ 6بجے سے رات 12بجے تک کا وقت بھی کراچی ائر پورٹ پر گزارنا پڑا تھا۔ برطانیہ کی خاتون اول کو بلا ٹکٹ سفر کرنے پر دس پونڈ جرمانہ ہوجاتا ہے کیا پاکستان میں کسی خاتون اول کے حوالے سے ایسی کوئی مثال ممکن ہے برطانیہ میں وزیراعظم کیلئے بھی چپڑاسی کا کوئی تصور موجود نہیں ہے انگریز نے برصغیر میں چپڑاسی کا کم ترین سرکاری عہدہ متعارف کرایا بلکہ اسے کلاہ اور شیروانی پہنا کر مسلمان نوابوں اور جاگیر داروں کی تذلیل کا سامان کیا ہم نے چپڑاسی کو شیروانی اور جناح کیپ پہنا کر اپنی خود تذلیل کا سامان کررکھا ہے اور

بصد سامان رسوائی سرِ بازار می رقصم

کی تصویر بنے ہوئے ہیں ہم نے مغرب کے پارلیمنٹ کے تصور کو اپنایا جسے اسلام کے شورائی نظام کا ہم پلہ قرار دے رکھا ہے جس کی قانون سازی سے بہنے والے ثمرات کے چشموں کا رُخ ملک کے ”غریب عوام“ کی بجائے ” امیر عوام“ کی جانب ہوتا ہے یادش بخیر ایک موقع پر جہاں بزرگ صحافی شورش ملک فاروق اعظم، سعود ساحر، لطیف آذر اور یہ ناچیز بھی موجود تھے پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید حسن میر نے بڑے فخر سے بتایا کہ آج بھٹو صاحب نے انہیں طلب کیا اور راولپنڈی سے ٹیکسلا تک خود طوفان کی طرح گاڑی ڈرائیو کی حتیٰ کہ 16اشارے توڑ دئیے جناب شورش ملک نے چٹکی لی ” میر صاحب بھٹو صاحب کو تو بہت کچھ توڑنے کا تجربہ ہے “ اس معنی خیز جملے سے سب محظوظ ہوئے جبکہ میر صاحب کے ہونٹوں پرکھسیانی سی مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔


 

Enhanced by Zemanta

Post a Comment

0 Comments