All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

ن لیگ والے یوسف رضا گیلانی کی نااہلی پر پچھتاوے کا شکار کیوں؟

میاں نواز شریف کی نااہلی کیا ہوئی کہ مسلم لیگ ن نے تو یہ بھی کہنا شروع کر دیا کہ یوسف رضا گیلانی کا سپریم کورٹ کی طرف سے نکالا جانا اور اس اقدام کا لیگی رہنمائوں کی طرف سے سپورٹ کرنا ایک غلطی تھی۔ اور تو اور ن لیگ تو اس بات پر بھی پچھتاوے کا شکار نظر آ رہی ہے کہ گزشتہ پی پی پی دور کے دوران نواز شریف کالا کوٹ پہن کر میموگیٹ کے معاملہ پر سپریم کورٹ کیوں پہنچ گئے۔ پی پی پی اور میڈیا میں موجود ایک طبقہ تو پہلے ہی ان معاملات کو پی پی پی حکومت کے خلاف سازش گردانتا ہے حالانکہ حقائق کچھ مختلف ہیں۔

یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ کی طرف سے زرداری صاحب کے این آر او کے تحت بند کیے گئے سویزرلینڈ میں کرپشن کیسز کو دوبارہ کھولنے کے عدالت عظمٰی کے حکم کی نافرمانی کرنے کی پاداشت میں توہین عدالت کی سزا ملی جس کے نتیجے میں انہیں وزیر اعظم کے عہدہ سے علیحدہ ہونا پڑا۔ گیلانی صاحب کو پانچ سال کے لیے نااہلی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ نہیں معلوم اس مسئلہ میں زیادتی کہاں ہوئی۔ اگر وزیر اعظم پاکستان سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل درآمد کرنے سے انکار کر دے تو پھر ریاست کا کام کیسے چلے گا؟ پھر تو ہر کوئی عدالتوں کے فیصلوں پر عمل درآمد کرنے سے انکاری ہو گا اور یوں ریاست افراتفری کا شکار ہو جائے گی۔ عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید تو ہو سکتی ہے لیکن اگر کوئی وزیر اعظم یہ کہے کہ میں عدالتی فیصلہ کو نہیں مانتا تو ایسا ممکن نہیں ہو سکتا۔ میاں نواز شریف نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل درآمد کرتے ہوئے اپنے آپ کو وزارت عظمیٰ سے علیحدہ کیا۔ 

میاں صاحب پر اگر تنقید ہو سکتی ہے تو وہ اس بات پر کہ وہ سپریم کورٹ کی طرف سے اپنی نااہلی کے فیصلہ کے خلاف اپنی تنقید میں اُن حدود و قیود کو پار کرتے نظر آ رہے ہیں جو آئین نے مقرر کر رکھی ہیں۔ آئین کے تحت عدلیہ کے فیصلوں سے اختلاف اور مثبت تنقید تو کی جا سکتی ہے لیکن اُن کا مذاق اور توہین نہیں کی جا سکتی۔ میاں صاحب کی نااہلی کے بعد اگر ن لیگ یہ سمجھتی ہے کہ وزیر اعظم جو مرضی کرے، عدلیہ کی بات مانے یا نہ مانے، کوئی جرم کرے یا کسی فراڈ میں پکڑا جائے تو اُس کے خلاف کچھ نہیں ہو سکتا اور عدلیہ کو یہ حق حاصل نہیں کہ اُسے سزا دے تو یہ درست بات نہیں۔ 

پاکستان کے آئین میں صدر مملکت کو عدالتی کارروائی سے مکمل استثنیٰ حاصل ہے جو میری نظر میں ایک غیر اسلامی شق ہے۔ جہاں تک وزیر اعظم کا معاملہ تو اُسے سرکاری کاموں کے متعلق آئین کسی حد تک تو استثنیٰ دیتا ہے۔ لیکن عمومی طور پر وہ پارلیمنٹ اور عدلیہ دونوں کو جواب دہ ہے اور کسی جرم ، کرپشن، توہین عدالت یا کسی دوسرے مقدمہ میں اُس کے خلاف عدالت مقدمہ چلا سکتی ہے اور سزا بھی دے سکتی ہے۔ اگر میاں صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا تو اس حد تک تو اُن سے اتفاق ممکن ہے لیکن اگر وہ یہ چاہتے ہیں کہ صدرمملکت کی طرح وزیر اعظم کو بھی کسی بھی مقدمہ اور جرم کی صورت میں مکمل استثنیٰ دیا جائے تو یہ ایک منفی اقدام ہو گا اور اس سے گورننس میں مزید خرابی پیدا ہو گی اور کرپشن میں اضافہ ہو گا۔

جہاں تک میموگیٹ کا معاملہ ہے تو اُس پر تو سپریم کورٹ کی طرف سے تین ہائی کورٹس کے جج حضرات پر مشتمل کمیشن اپنی تفصیلی انکوائری کے بعد یہ فیصلہ دے چکا کہ پی پی پی دور میں امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے امریکی اعلیٰ سول و فوجی حکام کو ایک خفیہ میمو لکھا جو پاکستان کی سلامتی کے خلاف تھا۔ اس عدالتی کمیشن نے حسین حقانی کے بارے میں کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ وفادار نہیں۔ حقانی نے اس میمو کے ذریعے فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف زرداری حکومت کی مدد کے لیے امریکا کی مدد مانگی تھی۔ حقانی نے اس میمو میں یہ بھی لکھا کہ اگر پاکستان کی سول قیادت کو نکال دیا جاتا ہے تو پھر اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے پیروکاروں کے لیے پاکستان محفوظ اڈہ بن جائے گا جس سے دنیا میں دہشت گردی پھیلے گی۔

یہ میمو ایبٹ آباد واقعہ کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں لکھا گیا جس میں باقاعدہ امریکا سے درخواست کی گئی کہ فوج اور آئی ایس آئی کے اُس وقت کے سربراہوں سے بات کی جائے۔ جہاں تک یہ کہا جاتا ہے کہ میموگیٹ دراصل فوج اور آئی ایس آئی کی زرداری حکومت کے خلاف سازش تھی اور اس کا سچائی سے کوئی تعلق نہیں تو یہ سراسر جھوٹ ہے۔ مجھے ذاتی طور پرمعلوم ہے کہ میمو گیٹ کا معاملہ فوج یا آئی ایس آئی کی طرف سے اجاگر نہیں ہوا بلکہ اس بارے میں سب سے پہلے واشنگٹن میں موجود ایک پاکستانی صحافی کو اطلاع ہوئی۔ اس صحافی نے اس تصدیق کے بعد کہ واقعی حسین حقانی کی طرف سے میمو لکھا گیا، نے اس بارے میں پاکستانی سفارت خانہ میں اُس وقت تعینات ملٹری اتاشی کو معلومات فراہم کی۔ 

ملٹری اتاشی نے یہ اطلاع آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو دی۔ معاملہ کی چھان بین اور مکمل تصدیق کے لیے پھر اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا کو لندن بھیجا گیا جہاں اُن کی ملاقات منصور اعجاز سے ہوئی۔ اس میٹنگ میں منصور اعجاز نے جنرل پاشا کو تمام شواہد دکھائے۔ اس اسکینڈل کا انکشاف جنگ اور دی نیوز نے کیا تھا جس کے بعد سپریم کورٹ نے سو موٹو ایکشن لیا اور پھر معاملہ کمیشن اور انکوائری تک پہنچا۔ اب اگر پاکستان کی قومی سلامتی کے ایسے اہم ترین مسائل پر بھی ن لیگ معذرت خواہانہ رویہ اپناتی ہے تو پھر اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو گا۔

انصار عباسی
 

Post a Comment

0 Comments