All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

چودہ اگست : یومِ تشکر، یومِ احتساب، یومِ تجدید عہد

پاکستان کا قیام، برطانوی سامراج کے خلاف برعظیم کے مسلمانوں کی دو سوسالہ جدوجہد کا حاصل اور ثمر ہے۔ جہاں یہ اللہ تعالیٰ کا انعام خاص ہے، وہیں ایک تاریخی جدوجہد اور اس میں پیش کی جانے والی بیش بہا قربانیوں کا پھل بھی ہے۔بظاہر سات سال پر محیط تحریکِ پاکستان کے نتیجے میں جو ملکِ عزیز قائم ہوا، الحمدللہ، اس نے سارے مصائب اور خطرات، دشمنوں کی سازشوں اور اپنوں کی کوتاہیوں اور بے وفائیوں کے باوجود اپنی آزادی کے 70 سال مکمل کر لئے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ پاکستان ربِّ کائنات کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہے، جن مقاصد کے لئے برعظیم کے مسلمانوں نے جدوجہد کی تھی، وہ ضرور حاصل ہوںگے۔

اس کی قدر کے پورے احساس کے ساتھ یہ تاریخی لمحہ اس امر کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ خلوص اور دیانت سے جائزہ لیں کہ ان 70 برسوں میں ہم نے کیا پایا اور کیا کھویا؟ تحریک پاکستان کے اصل مقاصد کیا تھے؟ اور پاکستان کا وہ تصور اور وژن کیا تھا، جس کے حصول کے لئے برعظیم کے مسلمانوں نے جدوجہد کی، اور آج ہم اس سے کتنا قریب ہیں اور کتنا دُور ہو گئے ہیں؟ یہ جائزہ دیانت داری سے لیا جانا چاہئے کہ ہماری مثبت اور منفی پہلو کون کون سے ہیں اور ان سے کس طرح نجات حاصل کی جا سکتی ہے؟ نیز ایک نئے عزم کے ساتھ اصل وژن کا ادراک اور تفہیم اور اس کے حصول کے لئے صحیح لائحہ عمل کا شعور اور اس کے لئے موثر اور فیصلہ کن جدوجہد کا عزم اور اس میں تیاری وقت کی ضرورت ہے۔ یہ امر پیش نظر رہنا چاہئے کہ پاکستان کا قیام ،تحریک پاکستان کی حتمی سات سالہ جدوجہد کا حاصل نہیں بلکہ یہ 200 سال سے زیادہ عرصے پر پھیلی ہوئی اس تحریکِ آزادی کا ثمر ہے، جو برطانوی سامراج کے برعظیم میں قدم جمانے کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی اور جس کے کم از کم تین بڑے واضح مرحلے دیکھے جا سکتے ہیں:

اولاً، عسکری قوت سے سامراجی حکمرانوں کا مقابلہ اور مسلم اقتدار کی بحالی۔
ثانیاً، سیاسی جدوجہد کا آغاز اور برعظیم کے تمام ہم وطنوں کے ساتھ مل کر سیاسی آزادی کی ایسی جدوجہد کہ جس میں مسلمان اپنا نظریاتی، دینی، سیاسی اور تہذیبی تشخص برقرار رکھ سکیں اور غیر مسلم اکثریت میں ضم نہ ہو جائیں۔ علاقائی قومیت کے مقابلے میں دو قومی نظریے کا ارتقا، اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ایسا سیاسی انتظام، جو کثیر قومی کا متبادل مثالیہ پیش کر سکے۔ 1938-39ء تک یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ انڈین نیشنل کانگریس جو دراصل ابتدا سے آج تک برہمنوں ہی کی گرفت میں رہی ہے، اس تصور کو کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں تھی، نہ ہے۔ اس کا مقصد عددی اکثریت کا غلبہ اور جمہوریت و سیکولرزم کے نام پر ہندو قوم پرستی کی حکمرانی قائم کرنا ہے۔

عملاً 1935ء کے قانون کے تحت انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومتوں نے اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا۔ اس پس منظر میں مسلمانوں کی تحریک کا تیسرا مرحلہ شروع ہوا۔ علمی اور عملی دونوں میدانوں میں اور دو قومی نظریے کو سیاسی حقائق کی روشنی میں برعظیم کے مسلمانوں کی جس نئی سیاسی منزل کی شکل میں پیش کیا گیا، وہ تقسیم ہند اور پاکستان کا آزاد اسلامی ریاست کی حیثیت سے قیام تھا۔ تحریک پاکستان کے دو ناقابل تفریق و تنظیم پہلو تھے۔ ایک سیاسی آزادی اور دوسرا اس آزادی کی بنیاد اور منزل اسلامی نظریہ اور تہذیب و ثقافت۔ یہی وجہ ہے کہ تصورِ پاکستان اور تحریک پاکستان کے مقاصد، مزاج اور شناخت کو سمجھنے کے لئے حسب ذیل دستایزات کا مطالعہ ضروری ہے:

علامہ اقبال کا 1930ء کا خطبہ صدارت، 23 مارچ 1940ء کی قراردادِ لاہور، قائداعظم کا خطبہ صدارت، 7اپریل 1947ء کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان کے کنونشن کی قرار داد، حلف نامہ اور قائداعظم کی تقریر 13 مارچ 1949ء کو پہلی منتخب دستور ساز اسمبلی کی منظور کردہ قراردادِ مقاصد اور اس موقع پر وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان اور تحریکِ پاکستان کے اکابر ارکانِ دستورساز اسمبلی کی تقاریر۔ (قراردادِ مقاصد تحریک پاکستان کی فکری جہت کا خلاصہ ہے، اور پاکستان کے دستور کی تمہید اور اس کا حصہ ہے۔) اس پس منظر میں پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست بنانے کے لئے چھے چیزیں ضروری ہیں:-

1 پاکستان کے تصور اور اس کی اصل منزل کا صحیح اور مکمل شعور۔  یہ وژن اور اس کے باب میں مکمل شفافیت اور یکسوئی اوّلین ضرورت ہے۔ اسی سے ہماری منزل اور اس تک پہنچنے کے راستے کا تعین ہو سکتا ہے۔ یہ ہماری شناخت ہے اور اسی شناخت کے تحفظ اور ترقی کے لئے آزادی کی جدوجہد کی گئی اور پھر آزادی حاصل کی گئی۔ -

2 آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے لئے علاقےکا حصول ضروری ہے اور یہی وجہ ہے کہ آزاد قوم اور آزاد علاقہ ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ ملکی حدود کی حفاظت اور دفاع قومی سلامتی کی پہلی ضرورت ہے۔ دفاعِ وطن اور دفاعِ نظریہ، شخصیت اور پہچان ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ اس کے لئے عسکری قوت کے ساتھ سیاسی، معاشی، مادی اور اخلاقی قوت بھی ضروری ہے۔ اس میں ضُعف، ملکی سلامتی کے لئے خطرے کا باعث بنتا ہے۔ یہ سیاسی و معاشی استحکام، اندرونی امن و امان، بیرونی خطرات سے تحفظ اور آبادی کی ترقی اور خوش حالی کے لئے وسائل کے بھرپور استعمال کا راستہ دکھاتی ہے۔


 3 تیسری ضرورت اس وژن اور قومی سلامتی اور مفادات کا تحفظ و ترقی ہے، زندگی کے تمام شعبوں کے لئےصحیح پالیسیوں کا تعین ، انتہا درجے کی شفافیت کے ساتھ پالیسی سازی اور ان پر عمل کرنے کا اہتمام۔

 4 ان مقاصد کو حاصل کرنے اور پالیسیوں پر موثر عمل درآمد کے لئے تمام ضروری اداروں کا قیام، استحکام، اصلاح اور ترقی۔ دستور اور قانون کی حکمرانی ہی کے ذریعے اداروں کی بالادستی اور حقوق وفرائض کی بجا آوری ممکن ہے۔

 5 ان مقاصد کے حصول کے لئے اساسی ضرورت ہر سطح پر اور ہر شعبے کے لئے مردانِ کار کی تیاری ہے۔ تعلیم اس کی کنجی ہے۔ پوری آبادی کی اخلاقی، علمی صلاحیت میں اضافے سے ہی کوئی قوم ترقی کر سکتی ہے، پھر اپنی آزادی اور شناخت کی حفاظت اور استحکام کے ذریعے اس ترقی کو زیادہ ثمرآور بنایا جاسکتا ہے۔

 6 آخری فیصلہ کن ضرورت ہے: صحیح قیادت کا انتخاب، مشاورت کے موثر نظام کا قیام، احتساب اور جواب دہی کا ہر سطح پر اہتمام۔

یہ 6 چیزیں کسی بھی ملک اور قوم کی آزادی و خودمختاری اور ترقی و استحکام کی ضامن ہیں۔ ان سب کے بارے میں غفلت، کمزوری، فکری انتشار، تضادات اور عملی کوتاہیاں ہی پاکستان کے سارے مسائل کی جڑ ہیں۔ جس حد تک ان کا پاس و لحاظ کیا جائے گا ہماری آزادی اور خودمختاری برقرار رہ سکے گی۔ ان میں سے بعض پہلوئوں پر توجہ کی گئی ہے، جس کی وجہ سے خطرات اور کوتاہیوں کے باوجود ہم اپنا وجود برقرار رکھ سکے ہیں اور کسی حد تک ترقی بھی حاصل کر سکے ہیں۔ تخلیقِ پاکستان کے 70 سال کی تکمیل پر آئندہ اصلاحِ احوال اور تعمیر کے عزم کی تجدید کے ساتھ، رہنمائی کے یہ زریں اُصول قوم کے سامنے پیش کرتے ہوئے پوری قوم سے یہ عرض کرتے ہیں کہ:

14 اگست 2017ء ہمارا یومِ تشکر ہے کہ اس روز اللہ تعالیٰ نے ہمیں آزادی کے ساتھ یہ موقع عطا فرمایا کہ ہم اُس کے بتائے ہوئے اُصولوں کے مطابق اجتماعی اور شہری زندگی کی تشکیل و تعمیر کریں۔

14 اگست ہمارے لئے یومِ احتساب ہے کہ ہم یہ جائزہ لیں، جو عہد ہم نے اللہ تعالیٰ سے اور اس قوم سے کیا تھا، کیا اس کی تکمیل کے لئے بامعنی پیش قدمی کر سکے ہیں؟ اور اگر ایسا نہیں کر سکے تو اس میں کون اور کس درجے کا ذمہ دار ہے؟

پروفیسر خورشید احمد
 

Post a Comment

0 Comments