All About Pakistan

6/recent/ticker-posts

برہان وانی زندہ ہے

آج جموں و کشمیر اور پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں جہاں جہاں بھی کشمیری موجود ہیں اس نو عمر مجاہد کی پہلی برسی منائی جا رہی ہے جس نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر تحریک آزادی کشمیر میں نئی روح پھونک دی۔ یہ اسی کی دلیرانہ جدوجہد اور اس کے نتیجے میں قابض بھارتی فوج کے ہاتھوں شہادت کا کرشمہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے ستم رسیدہ مسلمانوں کے سینوں میں آزادی کے لئے سلگتی ہوئی چنگاریاں ایک بار پھر بھڑکتے ہوئے شعلوں میں تبدیل ہو گئیں۔ تحریک آزادی کو نئی توانائی ملی، وادی کے گوشے گوشے سے حق خودارادیت کے لئے بلند ہونے والی آوازوں کو ناقابل شکست قوت ملی اور پچھلے ایک سال سے کشمیری نوجوان بچے بوڑھے عورتیں اور مرد پاکستان کا سبز ہلالی پرچم اٹھائے دنیا کے مہلک ترین ہتھیاروں سے لیس دشمن فوج کی بربریت کا نہایت جرأت اور استقامت سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ 

اس دوران تین سو سے زائد کشمیری نوجوان شہید، سات ہزار زخمی اور دو ہزار پیلٹ گنوں کے چھروں سے نابینا ہو گئے۔ دس ہزار گرفتار ہو کر قیدوبند کی اذیت برداشت کر رہے ہیں۔ ان نہتے کشمیریوں کی جرأت و شجاعت کے سامنے بھارتی فوج بے بسی اور نامرادی کی تصویر بن چکی ہے۔ مایوسی کے عالم میں اس نے اب پیلٹ گنوں کے علاوہ کیمیائی ہتھیار اور ڈرونز کا استعمال بھی شروع کر دیا ہے۔ بھارت اب مقبوضہ کشمیر میں ہاری ہوئی جنگ لڑ رہا ہے جس کا اعتراف کئی بھارتی سیاستدانوں سابق جرنیلوں دانشوروں اور صحافیوں نے بھی کیا ہے اور مودی حکومت کو پاکستان سے مذاکرات کا مشورہ دیا ہے۔ یہاں تک مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی اور سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ بھی کھلے عام بھارت سے مطالبہ کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ وہ کشمیری عوام پرظلم بند کرے۔ ایک سابق بھارتی جرنیل نے تویہ بھی کہا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کو کھو چکا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کئی ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیمیں مقبوضہ ریاست کی روز بروز بگڑتی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مسئلے کے پرامن حل کی راہ نکالنے پر زور دے رہی ہیں۔ مسئلہ کشمیر ایک مرتبہ پھر فلیش پوائنٹ بن چکا ہے بھارت کے ہاتھ پائوں پھول گئے ہیں اور وہ پاکستان کے خلاف امریکہ اور دوسرے سرپرستوں کو مدد کے لئے پکار رہا ہے۔ یہ سب مقبوضہ کشمیرمیں کاروان حریت کے سالاروں سید علی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق، یٰسین ملک، شبیراحمد شاہ، آسیہ اندرابی اور دوسرے رہنمائوں کی مسلسل جدوجہد سید صلاح الدین کی حریت پسندانہ قیادت برہان وانی جیسے سرفروشوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے برہان وانی کی شہادت بلا شبہ کشمیری قوم کی حیات ہے۔

برہان وانی، جسے تاریخ یقیناً کسی دن کشمیر کی تحریک حریت کے عظیم ترین شہدا میں شمار کرے گی۔ 15 سال کی عمر میں جہاد کے لئے نکلا اور زندگی کے22 سال بھی پورے نہ کئے تھے کہ شہادت کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہو گیا، بچپن میں جب وہ کھیلنے کودنے کے دور سے گزر رہا تھا کرکٹ اس کا پسندیدہ کھیل تھا اور وہ پاکستان نہیں بلکہ بھارت کی طرف سے کھیلنے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ بڑا ہو کر بھارتی فوج میں بھرتی ہونا چاہتا تھا۔ اس کے ذہن میں جہادی بننے کا کوئی تصور تھا نہ بندوق اٹھا کر چلنے کا! لیکن اس نے بھارتی فوجیوں کو نہتے کشمیریوں پرجب سنگینیں تانے، گھروں میں گھس کر چادر اور چار دیواری کو پامال کرتے، بے نام قبرستان آباد ہوتے، عقوبت خانوں میں بے گناہ مرد و زن کو زنجیروں میں جکڑے لہولہان دیکھا تو اس کے معصوم دل و دماغ میں سوالات اٹھنے لگے کہ اس کے ہم وطنوں پر یہ ظلم، یہ ستم کیوں؟ آہستہ آہستہ اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا گیا۔ 

یہاں تک کہ 5 اکتوبر 2010 کا فیصلہ کن دن آ پہنچا۔ اس شام اس نے اپنی محبت کرنے والی ماں کو نہایت ادب وہ احترام سے بتایا کہ وہ کچھ دوستوں سے ملنے باہر جا رہا ہے۔ اجازت ملنے پر وہ گھرسے نکل گیا اور پھرکبھی واپس نہ آیا۔ پتہ چلا کہ وہ حزب المجاہدین میں شامل ہو گیا ہے اوراس کے ایک گروپ کی کمان کر رہا ہے۔ اس کے والد مظفر وانی بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کو اپنے انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ میں ایک سرکاری ملازم ہوں۔ تعلیم کو فروغ دے رہا ہوں جبکہ میرا بیٹا آزادی کی تحریک کو فروغ دے رہا تھا۔ اپنا فرض نبھاتے ہوئے شہید ہو گیا۔ برہان سے پہلے میرا بیٹا خالد بھی شہید ہوا۔ اسے اس وقت تشدد کا نشانہ بنا کر مار دیا گیا جب 13 اپریل 2015 میں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ پکنک منا رہا تھا۔ وہ جہاد میں شامل نہیں تھا مگر سیکورٹی فورسز کو اس پر برہان وانی سے ملنے کا شبہ تھا۔ خالد برہان سے عمر میں چار سال بڑا تھا۔ 

اس کی شہادت کے کوئی سوا سال بعد 8 جولائی 2016 کو برہان وانی ہندواڑہ کے قصبے کرناگ میں اپنے دو ساتھیوں سرتاج احمد اور پرویز احمد لشکری کے ساتھ گولیوں کانشانہ بنا دیا گیا۔ وانی وادی کشمیر کا ایک معزز قبیلہ ہے۔ اس بہادر قبیلے کے دو سگے بھائیوں نے یکے بعد دیگرے شہادت کا رتبہ حاصل کر کے ثابت کر دیا کہ ’’کسے کہ کشتہ نہ شداز قبیلہ ما نیست‘‘۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی کو پاکستان کی دہشت گردی قرار دیتا ہے اور الزام لگاتا ہے کہ دہشت گرد کنٹرول لائن پارکر کے بھارتی فوج کے مورچوں اور کیمپوں پر حملے کرتے ہیں۔ مگر برہان وانی کی شہادت یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ مقبوضہ ریاست میں چلنے والی تحریک مقامی ہے اور مقامی نوجوان ہی اسے آگے بڑھا رہے ہیں۔ برہان کے والد کہتے ہیں کہ بھارت نے کنٹرول لائن کو ناقابل عبور بنانے کے لئے اتنے انتظامات کر رکھے ہیں کہ وہاں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ 

ایسے میں دہشت گردوں کی دراندازی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ برہان وانی 14 ستمبر 1995 کو ضلع پلوامہ کے علاقہ ترال میں پیدا ہوا۔ اس کے والد وہاں ہائر سیکنڈری اسکول کے پرنسپل ہیں۔ برہان وانی نو عمر تھا مگر ذہانت میں بہت سے بڑوں سے بھی بڑا تھا۔ اس نے جہاد کشمیر کو مہمیز دینے کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال متعارف کرایا جس سے پڑھے لکھے کشمیری نوجوان اس کے گروپ میں شامل ہونے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے چند سرفروشوں کا یہ قافلہ سینکڑوں میں تبدیل ہو گیا۔ برہان اور اس کے ساتھی راشٹریہ رائفلز کی وردیاں پہن کر پہاڑوں اور ندیوں کے کنارے بے فکر چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے اور ٹریننگ کرتے نظر آتے۔ ان کی یہ تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دی جاتیں، جس سے ایسا لگتا جیسے مجاہدین بلا روک ٹوک ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔

 سوشل میڈیا کے اس استعمال نے بھارتی فوج کی نیندیں حرام کر دیں اور وہ ’’دہشت گردوں‘‘ کی تلاش میں رات دن ایک کرنے لگی۔ بھارت سرکار نے برہان کو زندہ یا مردہ پکڑنے کے لئے دس لاکھ روپے کا انعام رکھ دیا۔ تحریک آزادی کی ساری سیاسی قیادت خواتین رہنمائوں سمیت جیلوں میں ہے۔ اخبارات پر پابندی ہے فوج دس دس بارہ بارہ سال کے لڑکوں کو بھی پکڑ کر لے جاتی ہے اور تشدد کا نشانہ بناتی ہے۔ وادی کے چار اضلاع شوپیاں، اسلام آباد، پلوامہ اور کولگام مکمل طور پر بھارتی فوج کے حوالے کر دیئے گئے ہیں۔ سری نگر سمیت ان علاقوں میں مسلسل کرفیو نافذ ہے۔ برہان وانی دور دراز علاقوں میں اتنا مقبول ہو گیا تھاکہ کشمیری مائیں اس کی شہادت پر اب تک روتی ہیں اور نوجوان موقع ملتے ہی مجاہدین سے جا ملتے ہیں۔ بھارتی فوج اس کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں شروع ہونے والی تحریک کو کچلنے کے لئے جو غیر انسانی ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے اس نے کشمیریوں کے لئے مشکلات میں اضافہ لیکن آزادی کی منزل کو اور قریب کردیا ہے۔
 

Post a Comment

0 Comments